دو عشرے قبل جامعہ نصرة العلوم گوجرانوالہ میں ایک یورپی وفد کی آمد اور مختلف اُمور پر گفتگو کی رپورٹ قارئین کی خدمت میں دوبارہ پیش کی جا رہی ہے۔
”مدرسہ نصرة العلوم گوجرانوالہ کے دفتر کی طرف سے مجھے بتایا گیا کہ18 مارچ جمعرات کو اسلام آباد سے کسی این جی او کا ایک وفد مدرسہ دیکھنے آرہا ہے، آپ کو بھی موجود رہنا چاہیے۔ میرا معمول یہ ہے کہ صبح سات بجے سے گیارہ بجے تک مدرسے میں میرے اسباق ہوتے ہیں، اس کے بعد گھر واپس آجاتا ہوں۔ میں نے عرض کیا کہ اگر اس دوران وفد آگیا تو میں شریک ہوجاؤں گا لیکن جب جمعرات کو دس بجے کے لگ بھگ یہ وفد پہنچا تو معلوم ہوا کہ برطانوی ہائی کمیشن کے حضرات ہیں اور ان کے ساتھ ”انسان” نامی ایک این جی او کے چند ساتھی ہیں۔
اسلام آباد میں برطانوی ہائی کمیشن کے انسانی حقوق کے مشیر مائیکل سیمپل وفد کی رہنمائی کر رہے تھے اور ایک برطانوی خاتون بھی وفد میں شامل تھیں۔ مائیکل سیمپل اچھی خاصی اُردو بول رہے تھے اس لیے گفتگو میں کوئی دقت نہ ہوئی۔ وفد کے ارکان نے اساتذہ کے ساتھ بات چیت کی، مختلف کلاسوں میں گئے، طلبہ میں گھل مل گئے، کافی دیر تک دونوں طرف سے سوال و جواب ہوتے رہے، وفد کے ارکان نے مدرسے کے مختلف شعبے بھی دیکھے، کلاسوں میں تعلیم ہوتے دیکھی۔ ایک طالب علم سے قرآن کریم کی تلاوت اور ایک سے نعت رسول مقبولۖ سنی۔ مہمان خانے میں ”برنچ” طرز کی ضیافت میں شریک ہوئے، مدرسے کے مہتمم حاجی محمد فیاض خان سواتی اور دیگر اساتذہ کے ساتھ ایک نشست جمائی جس میں راقم الحروف بھی شریک تھا اور اس طرح کم و بیش اڑھائی گھنٹے مدرسہ نصرة العلوم میں گزارنے کے بعد وفد واپس روانہ ہوگیا۔ مائیکل سیمپل نے بتایا کہ وہ کراچی سے خیبر تک دینی مدارس میں جارہے ہیں اور معلومات جمع کر رہے ہیں کہ ان مدارس کا ہدف کیا ہے، ان میں کیا پڑھایا جاتا ہے، ان کے اخراجات کیسے پورے ہوتے ہیں، ان کا طریق کار کیا ہے اور دینی مدارس میں اصلاحات کی جو تجاویز حکومت یا عالمی حلقوں کی طرف سے سامنے آرہی ہیں اُن کے بارے میں ان مدارس کا نقطۂ نظر کیا ہے۔ راقم الحروف اور مہتمم صاحب نے ان سوالات کے جواب میں اپنے موقف کی وضاحت کی اور کچھ مزید سوال و جواب ہوئے۔ اس موقع پر ہماری طرف سے جو گزارشات پیش کی گئیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
ہم معزز مہمانوں کا خیرمقدم کرتے ہیں، ہمیں اس بات پر خوشی ہوئی ہے کہ آپ حضرات نے براہ راست مدارس کے نظام کو دیکھنے اور ہماری بات سننے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے بہت سی غلط فہمیاں دور ہوں گی اور یہ مدارس جو کردار ادا کر رہے ہیں اس کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ دینی مدارس کا بنیادی ہدف یہ ہے کہ انسانی سوسائٹی کا تعلق آسمانی تعلیمات سے باقی رہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ انسانی سوسائٹی اپنی خواہشات اور سوچ پر چل کر دنیا و آخرت کی فلاح حاصل نہیں کرسکتی۔ بلکہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ اس کی نجات اور فلاح آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی سے رہنمائی حاصل کرنے میں ہے۔ آسمانی تعلیمات پر عمل کر کے ہی نسل انسانی اطمینان و سکون اور فلاح کی منزل حاصل کرسکتی ہے۔ ہمارا یہ پیغام صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ تمام آسمانی مذاہب کے پیروکاروں کے لیے ہے کہ وہ آسمانی تعلیمات پر عمل کریں۔ ہمارا خیال ہے کہ بنیادی تعلیمات کے حوالے سے وحی الٰہی کے تمام سرچشمے اور آسمانی تعلیمات اکثر اُمور میں باہم متفق ہیں۔ اس ہدف کو سامنے رکھتے ہوئے ہم مسلم معاشرے میں قرآن و سنت کی تعلیمات کا تسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ہماری کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مسلمان قرآن و سنت کی تعلیمات سے بہرہ ور ہوں اور مذہبی ہدایات کی روشنی میں زندگی بسر کریں۔ یہی ان مدارس کا اصل مقصد اور مرکزی کردار ہے۔ اس کے لیے عام مسلمان ان مدارس کی مدد کرتے ہیں، مالی تعاون فراہم کرتے ہیں جس کی وجہ سے یہ مدارس اپنا نظام آسانی کے ساتھ چلا رہے ہیں۔
مدرسہ نصرة العلوم گوجرانوالہ میں ایک ہزار سے زائد طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن میں سے تین سو کے لگ بھگ طلبہ ہاسٹل میں رہتے ہیں، ان کے قیام و طعام اور تعلیم و صحت کے اخراجات مدرسہ برداشت کرتا ہے۔ درس نظامی کے علاوہ قرآن کریم حفظ و ناظرہ، تجوید و قرأت، مڈل سکول، شعبہ بنات اور دوسرے شعبے بھی ہیں۔ یہ مدرسہ 1952ء سے خدمات سرانجام دے رہا ہے۔ آج تک کوئی سرکاری امداد نہیں لی، نہ ہی آئندہ کوئی حکومتی امداد لینے کا ارادہ ہے۔ شہر کے اصحاب خیر اور عام مسلمان رضاکارانہ تعاون کے ساتھ مدرسے کے اخراجات پورے کر دیتے ہیں۔ کم و بیش یہی صورت اکثر دیگر اداروں کی بھی ہے۔ مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ہم نے گزارش کی کہ ہمیں رجسٹریشن اور ڈاکومینٹیشن سے کبھی اختلاف نہیں رہا، اکثر مدارس رجسٹرڈ ہیں، خود مدرسہ نصرة العلوم گزشتہ ربع صدی سے رجسٹرڈ چلا آرہا ہے اور یہ رجسٹریشن سرکاری قانون کے تحت ہے جس کی باضابطہ تجدید کرائی جاتی ہے۔ اس لیے حکومت کے ساتھ ہمارا اختلاف رجسٹریشن پر نہیں بلکہ اس کے طریق کار پر ہے۔ حکومت رجسٹریشن کے پرانے طریق کار کو تبدیل کر کے نیا نظام لانا چاہتی ہے جس میں رجسٹریشن سے زیادہ مدارس کے نظام میں سرکاری مداخلت کا ذہن کارفرما ہے، اس لیے یہ ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ کیونکہ ہم نہ حکومت سے کوئی امداد طلب کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے سسٹم میں اس کی مداخلت قبول کرتے ہیں۔
اس پر سوال ہوا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ حکومت کی امداد یا مداخلت قبول نہیں کرتے؟ میں نے عرض کیا کہ دوسری باتوں سے قطع نظر اس سلسلے میں ہمارا سابقہ تجربہ بہت تلخ رہا ہے، ہم اسے دہرانا نہیں چاہتے۔ صدر ایوب خان مرحوم کے دور میں بہاولپور کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ عباسیہ کو سرکاری تحویل میں لیا گیا، اس میں درس نظامی کے ساتھ عصری تعلیم دینے کا پروگرام بھی پیش کیا گیا۔ اسے اسلامی یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا اور ایک مثالی یونیورسٹی کے قیام کا عزم ظاہر کر کے اس میں درس نظامی اور عصری تعلیم کے مشترکہ نصاب کی تعلیم شروع کی گئی۔ مگر آہستہ آہستہ درسِ نظامی کو نصاب سے خارج کر دیا گیا اور آج اس یونیورسٹی کا نصاب وہی ہے جو ملک کی دوسری یونیورسٹیوں کا ہے۔ دوسرا تجربہ اوکاڑہ میں ہوا جہاں گول چوک کے جامعہ عثمانیہ کو محکمہ اوقاف کی تحویل میں لیا گیا اور کہا گیا کہ ہم مدرسے کا نظام علماء سے بہتر چلائیں گے مگر آج وہاں کوئی مدرسہ نہیں ہے اور مدرسے کے کمرے محکمہ اوقاف نے مختلف فرموں اور اداروں کو کرائے پر دے رکھے ہیں۔ (جاری ہے)

