سیلاب سے بچاؤ کیلئے کیا کرنا چاہیے؟

پاکستان کے بہت سے علاقے آج کل سیلاب کی زد میں ہیں۔ پہلے پختون خوا کے بعض شہر بونیر، شانگلہ وغیرہ کلاؤڈ برسٹ اور پہاڑی نالوں سے بہنے والے سیلابی ریلوں کی زد میں آئے، ان سے خاصاجانی نقصان بھی ہوا۔ اب دو ہفتوں سے سے پنجاب سیلاب سے متاثر ہے۔ اگلا خطرہ سندھ کا ہے، ریلے وہاں پہنچ رہے ہیں اور گڈو سے کوٹری تک دبائو بڑھ رہا ہے۔

پاکستان میں روایتی طور پردریائے سندھ کے ریلے سیلاب کا باعث بنتے ہیں کیونکہ یہ سب سے بڑا دریا ہے اور اس کا پانی اتنا زیادہ ہے کہ تربیلا جیسے بڑے ڈیم بھی اسے کنٹرول نہیں کر پاتے۔ اس بار البتہ دریائے سندھ میں مسئلہ سنگین نہیں، اب کی بار بھارت سے آنے والے دریائے چناب، راوی اور ستلج نے تباہ کاری مچائی۔ جہلم بھی انڈیا ہی سے آتا ہے مگر وہاں زیادہ مسئلہ نہیں۔ حتی کہ ابھی تک جہلم پر بنا منگلا ڈیم بھی مکمل نہیں بھرا۔ چناب کی طغیانی نے پنجاب کے خاصے بڑے علاقے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ دریائے راوی اور ستلج میں چونکہ اب انڈین کنٹرول ہے اور وہاں اس نے بڑے ڈیم بنا رکھے ہیں، اس لئے راوی اور ستلج میں پانی عموماً نہیں آپاتا۔ اس بار بھارتی ریاستوں ہماچل پردیش، جموں اور پنجاب وغیرہ میں بے پناہ بارشیں ہوئیں، اس قدر بڑے فلڈ وہاں آئے ہیں کہ ستلج پر بنا بڑا بھارتی ڈیم جو ستلج کے تین سال کے فلڈ سنبھال لینے کی سکت رکھتا ہے، وہ بھی جواب دے گیا۔ اس کے نتیجے میں چھتیس سینتیس سال بعد راوی اور ستلج میں اتنے بڑے پانی کے ریلے آئے ہیں جنہوں نے پاکستان میں بہت تباہی مچائی۔ اب تک محتاط اندازے کے مطابق پندرہ سے بیس لاکھ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، اربوں کھربوں کا مالی نقصان ہوا جبکہ متعدد جانیں بھی جا چکی ہیں۔ موسمیات کے ماہرین یہ پیش گوئیاں کر رہے ہیں کہ مختلف وجوہات کی بنا پر موسم تبدیل ہو چکا اور اب انڈیا اور پاکستان کے ان علاقوں میں غیرمعمولی بارشوں، کلاؤڈ برسٹ، اربن فلڈنگ وغیرہ کے خطرات پہلے سے کہیں زیادہ ہو چکے۔ سوال یہ ہے کہ اس سے بچائو کے لیے پاکستان کو کیا کرنا چاہیے۔ آج کے کالم میں ہم انہی خطوط پر بات کریں۔

٭زیر تعمیر بڑے ڈیمز جلد مکمل کئے جائیں
پاکستان میں کالا باغ ڈیم کے بنائے جانے کے حوالے سے آواز اٹھنا شروع ہوگئی ہے۔ ماضی میں سندھ کے ساتھ پختون خوا بھی کالا باغ ڈیم کا مخالف تھا۔ اس بار پختون خوا میں تحریک انصاف کی حکومت ہے، ان کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے واضح الفاظ میں کالا باغ ڈیم کی حمایت کی ہے اور اسے ملک کے لیے فائدہ مند قرار دیا ہے۔ ابھی تک سندھ کی جانب سے اس پر ردعمل نہیں آیا مگر کالاباغ ڈیم وہاں بڑا حساس ایشو ہے اور اس کی وہ ڈٹ کر مخالفت کریں گے۔ ہمارے خیال میں کالاباغ ڈیم بنانے سے پہلے جو بڑے ڈیم پاکستان نے شروع کر رکھے ہیں وہ تو مکمل کر لیے جائیں۔ پاکستان نے دریائے سندھ پر دیامیر بھاشا جیسا بڑا ڈیم شروع کررکھا ہے۔ اس کی گراس سٹوریج بہت زیادہ ہے۔ اس وقت تربیلا، منگلا ڈیم کی بھی اتنی کیپیسٹی نہیں۔ اگر ہم دن رات ایک کر کے بھاشا ڈیم بروقت مکمل کر لیں تو دریائے سندھ پر ایک بڑی واٹر سٹوریج آپشن ہوگی جس سے ہم کئی ملین ایکڑ فٹ پانی محفوظ کر لینے کے ساتھ ساڑھے چار ہزار کے لگ بھگ میگا واٹ سستی بجلی بنا پائیں گے۔ داسو ڈیم بھی کوہستان کے مقام پر بن رہا ہے، دریائے سندھ کے پانی کے لیے، مگر اس کی سٹوریج محض چند لاکھ ایکڑ فٹ پانی ہے کیونکہ یہ رن آف دا ریور پراجیکٹ ہے، اس سے پانی کا ذخیرہ تو نہیں ہوگا، مگر چار ہزار میگا واٹ کے قریب سستی بجلی اس سے بھی مل سکے گی۔ مہمند ڈیم دریائے سوات پر بن رہا ہے، اس کی بھی کئی لاکھ ایکڑ فٹ پانی کی سٹوریج ہے اور آٹھ سو میگا واٹ بجلی ملے گی۔ مہمند ڈیم بن جانے سے دریائے سوات کے سیلابی ریلے روکے جا سکیں گے اور مہمند، چارسدہ، مردان، نوشہر اور پشاور کے مضافاتی علاقے محفوظ رہ پائیں گے۔

٭چناب، جہلم، ستلج اور راوی کے لیے
اس بار چونکہ زیادہ نقصان اور تباہی چناب، ستلج اور راوی نے مچائی، اس لئے آئندہ ان کے لیے خاص حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے یہ چاروں دریا پنجاب کے میدانی علاقوں میں بہتے ہیں، اس لئے یہاں پر ڈیم نہیں بن سکتے۔ دراصل ڈیم میدانی علاقوں میں نہیں بنتے، ان کے لیے خاص جگہ چاہیے۔ پہاڑی علاقے موزوں ہوتے ہیں جہاں سخت زمین ہو اور جھیل کے لیے فطری طور پر وادی نما جگہ ملے۔ چنیوٹ واحد جگہ ہے جہاں پر مڈ لیول ڈیم بن سکتا ہے۔ یہ دریائے چناب پر بنے گا اور اس کے مجوزہ پلان کے مطابق کئی لاکھ ایکڑ فٹ (نو لاکھ کے لگ بھگ) پانی سٹور ہوسکتا ہے۔ ایک لاکھ ایکڑ فٹ کا مطلب ہے کہ وہ پچاس ہزار کیوسک پانی سنبھال لے۔ چنیوٹ ڈیم بن جانے سے چناب کے سیلابی ریلوں کو بڑی حد تک کنٹرول کیا جا سکے گا اور ان کی شدت میں کمی آجائے گی۔ سیلابی ریلے کو اگر دو چار دن بھی روک لیا جائے تو اس کا بھی فائدہ رہتا ہے کہ اس دوران دیگر دریاؤں کے سیلابی ریلے گزر جائیں اور یہ ان کے ساتھ مل کر زیادہ تباہ کن نہ بن سکے۔

٭نئے بیراج بنانے، موجودہ کی اپ گریڈیشن
پنجاب میں ان دریاؤں کے پانی اور لنک کینالز کو کنٹرول کرنے کے لیے مختلف بیراج بنائے گئے۔ ہر دریا پر دو سے تین بیراج بنے ہوئے ہیں۔ پرانے بیراج (خانکی، قادرآباد، تریموں، تونسہ وغیرہ) پچھلے دس سے پندرہ برسوں میں واپڈا نے اپ گریڈ کیے ہیں۔ یاد رہے کہ اپ گریڈیشن سے مراد ہے کہ نئے گیٹ، کنکریٹ ایپرن، سمارٹ آپریشن سسٹم تاکہ زیادہ پانی چھوڑنے یا ڈائیورٹ کرنے کی صلاحیت بڑھ جائے۔ اگر مزید بیراج اپ گریڈ ہوں تو سیلابی ریلوں کو بہتر انداز میں سنبھالا جا سکتا ہے، اضافی پانی کو لنک کینالز یا آف لائن اسٹوریج کی طرف بھیجا جا سکتا ہے۔

٭آف لائن سٹوریج بہتر کرنا
ان بیراجوں کے ساتھ آف لائن سٹوریج بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اپنے پڑھنے والوں کو بتاتے چلیں کہ ایک آن لائن سٹوریج ہے یعنی وہ ریزروائر/ ڈیم جو سیدھا دریا کے اوپر بنایا جائے (جیسے تربیلا یا منگلا) جبکہ آف لائن سٹوریج سے مراد وہ ذخیرہ جو دریا کے کنارے یا تھوڑا ہٹ کر بنایا جائے اور دریا سے پانی ایک نہر/ چینل کے ذریعے اس میں لایا اور نکالا جائے۔ جیسے مثال کے طور پر تریموں بیراج کے قریب دریا سے ہٹ کر ایک ڈپریشن (گڑھا/ قدرتی میدان) ہے، وہاں ایک حفاظتی بند باندھ دیا جائے۔ فلڈ کے دنوں میں بیراج کے گیٹ کھول کر پانی کا حصہ اس ذخیرے میں موڑ دیا جائے۔ جب دریا کا دباؤ کم ہو تو یہ پانی آہستہ آہستہ واپس یا نہروں میں چھوڑا جائے۔ اس طرح دریا کے بہاؤ میں سیدھا رکاوٹ نہیں بنتی، مگر سیلابی پانی محفوظ بھی ہو جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر دریا پر موجود بیراجوں میں فی کس پچاس ہزار ایکڑ فٹ کی آف لائن سٹوریج بنائی جائے تو ایک طرح سے تین ساڑھے تین لاکھ ایکڑ کی آف لائن سٹوریج بن جائے گی جو کسی بھی سیلابی ریلے کے ڈیڈھ دو لاکھ کیوسک پانی کو سنبھال لے گی۔ یوں آگے دبائو کم ہو جائے گا اور بند اڑانے اور لاکھوں دیہاتیوں کو بے گھر بنانے سے بچا جا سکے گا۔ اسی طرح یہ تجویز بھی دی جا رہی ہے کہ ان میدانی دریاؤں پر اَسی نوے کلو میٹر کے بعد نئے بیراج بنائے جا سکتے ہیں، ایسے ہر نئے بیراج کے ساتھ آف لائن سٹوریج ہو، یوں ڈیڑھ دو لاکھ ایکڑ فٹ پانی کی مزید سٹوریج مل جائے گی۔ یہ سیلاب کی شدت بہت کم کر دے گی، خاص کر راوی اور ستلج جیسے دریاؤں میں ایک لاکھ کیوسک پانی کم ہونے سے بھی سیلاب ختم ہو جاتا ہے اور پانی آسانی کے ساتھ مینج ہوجائے گا۔

٭مضبوط بند، کچے کے علاقے کو محفوظ بنانا
ایک اور کام یہ ہو سکتا ہے کہ موجودہ بند مضبوط اور پائیدار بنائے جائیں۔ نیدرلینڈز کی طرز پر setback levees بھی اپنائی جا سکتی ہیں یعنی بند دریا سے تھوڑا پیچھے ہٹا کر رکھا جائے تاکہ سیلابی ریلے کو پھیلنے کی جگہ ملے۔ دریاؤں کے ساتھ ”کچا ایریا” فطری فلڈ پلین ہے، لیکن وہاں رہائش اور پکی کاشتکاری سیلابی نقصان بڑھا دیتی ہے۔ خصوصی قوانین بنا کر وہاں مستقل آبادیاں روکنا ہوں گی جبکہ تعمیرات ہٹانا پڑیں گی۔ کچے کے علاقے کو جان بوجھ کر گھاس پھوس، جھاڑیوں، چھوٹی فصلوں یا جنگلات کے لیے استعمال کیا جائے تاکہ فلڈ ویو کی توانائی کم ہو۔ جب دریا میں بہاؤ خطرناک حد تک بڑھ جائے تو سِپل چینلزبنائے جا سکتے ہیں جو پانی کو مخصوص میدانوں یا خاص طور سے بنائے گئے بڑے اور گہرے تالاب نما جگہوں میں لے جائیں۔ یہ بھی نیدرلینڈ کے فلڈ ماڈل جیسا ہے یعنی پانی کو روکنے کے بجائے محفوظ راستہ دیا جائے۔ ہمیں کسی ایک چیز کے بجائے بیک وقت کئی کام کرنے ہوں گے کیونکہ سیلاب کے خطرات کی نوعیت بھی ایسی ہی ہے۔ اہم بات صرف یہ کہ اب ہمیں باتوں کے بجائے کام کرنا ہوں گے اور آج ہی سے جت جانا ہوگا، تب ہی اگلے سال یا اس سے اگلے سال آنے والے سیلابوں سے قوم کو بچایا جا سکتا ہے۔