اسلام آباد میں چار دن

کہانی شروع ہوتی ہے ہنری ڈونان نامی سوئٹزر لینڈ کے ایک تاجر، ٹریولر اور سماجی کارکن سے۔ وہ جون 1859ء میں اٹلی کے علاقے سولفرینو Solferinoسے گزر تھا کہ اس کی آنکھوں کے سامنے فرانس اور آسٹریا کی فوجوں کے درمیان مڈبھیڑ ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے میدان جنگ لاشوں سے اٹ گیا۔ ایک اندازے کے مطابق 40ہزار فوجی ہلاک یا زخمی ہوئے۔ زخموں سے چور ہزاروں فوجی میدان جنگ میں بے یار و مددگار پڑے تھے۔ ڈاکٹر اور نرسز کمیاب اور زخموں سے تڑپ تڑپ کر جان دینے والوں کی بہتات۔ ہنری نے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے کے بجائے مقامی لوگوں بالخصوص خواتین کو ساتھ ملایا اور زخمی سپاہیوں کی دیکھ بھال شروع کردی۔ اس نے فرانس اور آسٹریا کے سپاہیوں میں کوئی تفریق نہیں کی اور نعرہ لگایا: ”ہم سب بھائی ہیں”۔ اس کے بعد ہنری ڈونان نے اپنی شہرہ آفاق کتاب لکھی: a memory of solferino۔

مجھے نہیں معلوم کہ یہ کتاب اردو میں ترجمہ ہوئی یا نہیں، لیکن انٹرنیٹ پر انگلش میں دستیاب ہے۔ ہنری نے اس کتاب میں تجویز دی کہ جنگ کے زخمیوں کا علاج دوستی اور دشمنی سے بالاتر ہوکر کرنا چاہیے، ہر ملک میں ایک رضاکار تنظیم ہونی چاہیے جو جنگی زخمیوں کو غیرجانبدارانہ امداد فراہم کرے۔ ممالک کے درمیان ایک بین الاقوامی معاہدہ ہونا چاہیے جو زخمیوں، ڈاکٹروں اور طبی عملے کو جنگ کے دوران تحفظ فراہم کرے۔ یہ کتاب اور ہنری کی تجاویز اتنی مقبول ہوئیں کہ 1863ء میں ICRCیعنی انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس کی بنیاد رکھی گئی اور ہنری کی ہی دوسری تجویز کی روشنی میں 1864ء میں پہلا جنیوا معاہدہ ہوا۔ پہلے جنیوا معاہدے 12ممالک شریک ہوئے اور اسی معاہدے میں ICRCکے وجود کی توثیق کرتے ہوئے، جنگی حالات میں غیرجانبداری کی بنیاد پر انسانی خدمت کا اختیار دیا گیا۔ اس حیرت انگیز مقبولیت کے باعث ہنری ڈونان کو 1901ء میں پہلا نوبل انعام بھی ملا۔ لیکن دنیا کو قیدیوں کے حقوق، غیرمقاتلین کے تحفظ، عبادت گاہوں اور مقدس مقامات کی حفاظت سمیت جنگ سے پہلے، جنگ کے دوران اور جنگ کے بعد کی اخلاقیات کا بھولا سبق یاد کروا گیا۔ یہ وہی سبق تھا جو کبھی نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا کہ بوڑھوں کو قتل نہ کرنا، بچوں کو کچھ نہ کہنا، عورتوں کو نہ مارنا، درختوں کو نقصان نہ پہنچانا، جانوروں کا قتل عام نہ کرنا، کسی کی لاش کا مثلہ نہ کرنا، قیدیوں سے بھی اچھا سلوک کرنا، مردے کا بھی ایک اکرام ہے، کافر مردوں کی تکریم کرنا، معاہدوں کو نہ توڑنا، تارک الدنیا راہبوں اور عبادت گزاروں کو گزند نہ پہنچانا وغیرہ وغیرہ۔

آئی سی آر سی کی خدمات میرے لیے نئی نہیں تھیں، اس سے قبل بھی 2022ء میں مقالہ لکھنے اور ورکشاپ میں شرکت کرنے کا موقع ملا تھا۔ لیکن عالمی قانون انسانیت کو تفصیل سے دیکھنے اور اسلامی قانون جنگ کے تناظر میں اس کا مطالعہ کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ گزشتہ دنوں آئی سی آر سی پاکستان کے روح رواں جناب ڈاکٹر ضیاء اللہ رحمانی صاحب نے ”آداب القتال” یا قانونی زبان میں Jus in Belloکے موضوع پر چار روزہ ورکشاپ کا عندیہ دیا تو یہ امید بر آئی۔ اسلام آباد میں منعقدہ چار روزہ ورکشاپ کئی اعتبار سے مفید ثابت ہوئی۔ اس ورکشاپ سے پتہ چلا کہ جنیوا کنونشنز اور ہیگ کنونشنز مل کر IHLیعنی بین الاقوامی قانون انسانیت کی بنیاد بنتے ہیں۔ چار روزہ ورکشاپ میں مندرجہ موضوعات پر گفتگو کی گئی: ٭جنگوں کی مختلف اقسام اور ان کے احکام۔ ٭جنگ کا جواز اور استدلال۔ ٭جنگ اور معاہدات کی اہمیت۔ ٭جنگ کے دوران محفوظ افراد اور مقامات۔ ٭مقاتل، غیر مقاتل، جاسوس اور کرائے کے فوجیوں سے متعلق احکام اور قوانین۔ ٭جنگی قیدیوں کی اقسام و حیثیت اور ان کے احکام۔ ٭جنگ میں دھوکہ اور غدر میں فرق۔ ٭جنگ کے دوران ثقافتی ورثے کا تحفظ اور اسلام۔ ٭کمانڈر کی ذمہ داری کا تصور اسلام اور بین الاقوامی قوانین۔ ٭آداب القتال اور انسانی حقوق کے قوانین۔ ٭آداب القتال کی خلاف ورزی کی وجوہات کا تجزیہ: اضطرار، اکراہ، معاملہ بالمثل کے احکام۔ ٭عالمی قوانین کی تنفیذ کا طریقہ کار۔

چار دنوں میں مختلف اہل علم حضرات نے ان موضوعات پر روشنی ڈالی۔ اس ورکشاپ میں جن حضرات نے گفتگو کی ان میں سرفہرست جناب ڈاکٹر ضیاء اللہ رحمانی صاحب ہیں، کہ تمام سیشنز میں موجود رہے اور ہر گفتگو بغور دیکھتے اور سنتے رہے اور گاہے بگاہے مفید اضافات بھی کرتے رہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب آتے ہیں جنہوں نے شرعی پہلو پر نہ صرف سیر حاصل گفتگو کی بلکہ شرکائے محفل کو فقہی ذخیرے سے متعلق قابل قدر آگہی بھی فراہم کی اور اپنی برجستگی، حاضر جوابی اور مستحضر علمیت سے فیض یاب کیا۔ ان کے علاوہ بیرسٹر عثمان خان صاحب بھی بین الاقوامی قانون کی گتھیاں سلجھاتے رہے، جبکہ جج ڈاکٹر ثاقب جواد صاحب، ڈاکٹر رفیق شنواری اور ڈاکٹر تاج محمد نے تفصیلی پریزنٹیشنز دیں۔ اس نشست کی ایک اہم بات کیس اسٹڈیز تھیں، جو دن بھر میں پڑھے عالمی اور شرعی قوانین کی عملی تطبیق پر مشتمل ہوتی تھیں۔ شرکائے محفل کو کھل کر ان کیس اسٹڈیر پر گفتگو کرنے اور قوانین کو سمجھنے کا موقع ملا۔ غزہ میں جاری جنگ سے متعلق عالمی اداروں کی قانونی پوزیشن جاننے کا بھی موقع میسر آیا۔

اس چار روزہ ورکشاپ نے بہت سی غلط فہمیوں کو دور کیا، عالمی قوانین اور شرعی احکام کے ایک نئے باب کو بغور سیکھنے اور سمجھنے کا موقع فراہم کیا۔ اسلام کے تصور انسانیت اور عالمی قانون انسانیت کا موازنہ کرنے اور عملی تنفیذ کا جائزہ لینے کا موقع ملا۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بار اسلام آباد کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ وہاں کے علمی ماحول کو جانچنے اور سمجھنے کا موقع ملا۔ اللہ تعالیٰ وطن عزیز پاکستان کی حفاظت فرمائے اور اسے ہر قسم کے شر و فتنے سے محفوظ فرمائے۔ آمین ثم آمین!