وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا علی امین گنڈاپور نے کالا باغ ڈیم بنانے کی حمایت کر کے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ جہاں مسلم لیگ ن کو ان کے اس اعلان سے مسرت بھری حیرت ہوئی وہیں پر اے این پی اور پیپلز پارٹی حسبِ روایت اس کی مخالفت میں خم ٹھونک کر میدان میں آ گئیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر اپنی سیاست پر ملکی مفاد کو قربان کرنے کی روایت برقرار رکھی۔ ابھی علی امین گنڈاپور کے بیان کی بازگشت بھی ختم نہ ہوئی تھی کہ پی ٹی آئی کے سرکردہ رہنما اور سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کا بیان سامنے آ گیا کہ کالا باغ ڈیم پر علی امین گنڈاپور کا بیان ان کی ذاتی رائے ہے۔ یہ پارٹی موقف نہیں ہے۔ اس کا مطلب آسان لفظوں میں یہی ہے کہ پی ٹی آئی کالا باغ ڈیم بننے کی مخالف ہے۔ اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ پی ٹی آئی نے خیبر پختون خوا میں اپنی مقبولیت اور ووٹ بنک بچانے کے لیے یہ موقف اپنایا ہے جس طرح چند ماہ پہلے پاکستان پیپلز پارٹی نے تھل کی بنجر زمینوں کو سیراب کرنے کے لیے نہریں بنانے کی حمایت کرنے کے بعد سندھی قوم پرست جماعتوں کی تحریک سے بوکھلا کر اپنی سیاست بچانے کے لیے یوٹرن لے لیا تھا۔ ملکی مفاد جائے بھاڑ میں، سیاست بچانا ضروری سمجھا گیا۔
حقیقت میں کالا باغ ڈیم ایک ایسا منصوبہ ہے جو پاکستان کی معیشت، زراعت اور توانائی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت ثابت ہو سکتا تھا، مگر صوبائی اختلافات اور سیاسی ضد نے اسے ایک ادھورا خواب بنا دیا ہے۔ پاکستان کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم اپنے مسائل سے بخوبی آگاہ بھی ہیں اور ان کا حل بھی ہمارے سامنے ہوتا ہے، مگر جب عمل کرنے کا وقت آتا ہے تو ان کے حل میں سیاست آڑے آ جاتی ہے یا صوبائی تعصب رکاوٹ بن جاتا ہے۔ کالا باغ ڈیم اس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ نصف صدی گزر گئی۔ ہمارا پانی کم ہوتا گیا، بجلی ناقابلِ برداشت حد تک مہنگی ہوتی گئی، سیلاب ہر سال آ آ کر ملک میں تباہی مچاتے رہے، لیکن کالا باغ ڈیم سیاست دانوں کی تقریروں اور کاغذی کارروائیوں سے آگے نہ بڑھ سکا۔ اگر کالا باغ ڈیم بن جاتا تو ہمیں 3600میگاواٹ سستی پن بجلی، لاکھوں ایکڑ کی سیرابی، سیلاب پر قابو اور زرعی خوش حالی جیسے فوائد حاصل ہوتے۔ یہ سب ایسے خواب تھے جو حقیقت بن سکتے تھے لیکن افسوس کہ یہ سب خواب سیاست اور صوبائی تعصب کی بھینٹ چڑھ گئے۔ خیبر پختون خوا کہتا ہے کہ نوشہرہ ڈوب جائے گا، سندھ کو اپنے پانی چِھن جانے کا ڈر ہے، بلوچستان کا موقف ہے کہ ہمیں پہلے تعمیر کردہ ڈیموں سے کچھ نہیں ملا، اب بھی کچھ نہیں ملے گا۔ لہٰذا ہم بے سود حمایت کیوں کریں۔ تینوں صوبوں کو اعتراض ہے کہ اس کا کہ اس ڈیم کا فائدہ پنجاب اٹھائے گا۔ اس سوچ کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وہ منصوبہ جو قومی یکجہتی کی علامت بن سکتا تھا، وہ صوبائی اختلافات کی نذر ہو گیا۔
کس قدر بدنصیبی کی بات ہے کہ ہمارے سیاست دانوں نے بھی کالا باغ ڈیم کو محض اپنی تقریروں کا ایندھن ہی بنایا۔ علی امین گنڈاپور اور اسد قیصر کے موقف میں تضاد دیکھ لیجیے۔ ملک سے باہر بیٹھے مونس الٰہی بھی ہر چند روز بعد کالا باغ ڈیم کی حمایت میں ٹویٹ داغ دیتے ہیں جبکہ گزشتہ پنتالیس سال میں پنجاب کے بجٹ میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لیے جو ہر سال رقم مختص کی جاتی تھی 2021ء کے بجٹ میں مونس کے والد محترم اس وقت کے وزیرِ اعلیٰ پرویز الٰہی نے وہ سلسلہ ہی ختم کر دیا تھا۔ کسی نے بھی سنجیدگی سے یہ سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی کہ پانی کے بغیر زراعت نہیں، زراعت کے بغیر معیشت نہیں اور معیشت کے بغیر ملک کھڑا نہیں ہو سکتا۔ سب نے اپنی اپنی ڈفلی بجا کر اپنا راگ سنایا، قومی ضرورت کا احساس کسی کو نہ ہوا۔ آج پاکستان پانی کی کمی کے حوالے سے دنیا کے دس بڑے خطرناک ممالک میں شامل ہے۔ جی ہاں! وہ پاکستان جو اس وقت پانی میں ڈوب رہا ہے زیرِ زمین پانی کی انتہائی کمی کا شکار ہے۔ یہ کتنی بدقسمتی ہے کہ ہر سال اربوں روپے کے نقصان والے سیلاب والے پانی کو ہم اپنی عاقبت نااندیشی سے ضائع کر دیتے ہیں۔ آخر ہم کب یہ حقیقت سمجھیں گے کہ کالا باغ ڈیم صرف پنجاب کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے۔
دنیا بھر میں قومیں بڑے فیصلے اتفاقِ رائے سے کرتی ہیں۔ اگر ہمارے صوبے بھی مل بیٹھ کر قومی مفاد میں ایک دوسرے کے خدشات کا حل نکال کر انہیں دور کر دیں تو کالا باغ ڈیم بن سکتا ہے۔ کالا باغ ڈیم نہ بننے کی وجہ ہماری آپس کی نااتفاقی ہے۔ دشمن باہر نہیں، ہمارے اپنے اندر ہے۔ ہمیں تعصب، بے اعتمادی اور سیاسی مفاد کی دیواریں گرا کر کالا باغ ڈیم بنانا ہوگا، ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔ وہ ہم سے یہ سوال ضرور کریں گی کہ آپ نے ہمیں خشک سالی کے حوالے کیوں کیا، جب وقت تھا اس وقت ہمارے لیے پانی کو ذخیرہ کیوں نہ کیا؟