امریکا کی رگِ جاں پنجۂ یہود میں ہے!

امریکا نے فلسطینی صدر محمود عباس کو اگلے ماہ نیویارک میں ہونے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے روک دیا ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے مطابق ان کی اور 80 فلسطینی عہدیداروں کی ویزے منسوخ کر دیے گئے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے عباس پر الزام عائد کیا کہ وہ امن کی کوششوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور ایک ”یکطرفہ فلسطینی ریاست کے قیام کو تسلیم کرانے” کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ فیصلہ غیر معمولی قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ امریکا معاہدے کے تحت اْن تمام ممالک کے رہنماؤں کے سفر کو آسان بنانے کا پابند ہے جو اقوامِ متحدہ کے ہیڈکوارٹر کا دورہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس فیصلے کا اسرائیل نے خیر مقدم کیا ہے۔یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب فرانس اقوام متحدہ کے اجلاس کے دوران فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی بین الاقوامی کوششوں کی قیادت کر رہا ہے، جس کی سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے مخالفت کی تھی۔

ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ اور نمایندوں کو اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت سے روکنے کا اقدام اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت سمجھے جانے والے ملک امریکا کی حکومت اس وقت مکمل طور پر صہیونی لابی کے اشاروں پر ناچ رہی ہے اور واشنگٹن میں بیٹھے چند متعصب،اسلام دشمن اور غیر متوازن ذہنیت کے حامل لوگ قابض و ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی اور انسانیت کے خلاف بدترین جرائم پر پردہ ڈالنے کی خاطر بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے کی رہی سہی ساکھ اور وقار کے ساتھ بھی کھلواڑ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ویسے تو امریکا کی صہیونیت نوازی کوئی راز کی بات نہیں ہے اور امریکی حکمرانوں نے اسرائیل کے لیے تمام بین الاقوامی قوانین، مسلمہ اخلاقی اصولوں اور عالمی معاہدات کو پامال کرتے ہوئے کبھی بھی حیا محسوس نہیں کی،انہوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اسرائیلی درندگی کے خلاف 80 سے زائد قرار دادوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک کر یہ ثابت کیا ہے کہ انسانیت اور صہیونی بہیمیت میں سے انہیںثانی الذکر ہی عزیز ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے آج سے تقریباً ایک صدی قبل کہا تھا کہ ”فرنگ کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے” تاہم جس ڈھٹائی،بے شرمی اور دیدہ دلیری کے ساتھ امریکا کی موجودہ ٹرمپ انتظامیہ انسان نما صہیونی جانوروں کی پشت پناہی کر رہی ہے وہ امریکا کی سیاہ تاریخ کا سیاہ ترین باب اور پورے عالم انسانیت کے ماتھے پر لگا ایک انمٹ داغ ہے۔

اس کا اندازہ اسرائیل کے لیے بے ضرر اور امریکا کی ہمیشہ تابع فرمان رہنے والی فلسطینی اتھارٹی کو بھی اقوام متحدہ کی جنرل کونسل کے اجلاس میں شرکت سے روکنے کے ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے سے لگایا جاسکتا ہے۔یاد رہے کہ امریکا اقوام متحدہ کے بارے میں اقوام عالم کے درمیان طے شدہ معاہدے کے تحت کسی بھی رکن ملک کے سرکاری وفد کو اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر نیویارک میں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے نہیں روک سکتا۔ فلسطینی اتھارٹی کوجنرل اسمبلی میں بطور مبصر فلسطینیوں کی نمایندگی کا حق حاصل ہے اور وہ اس حیثیت سے جنرل اسمبلی میں ہمیشہ سے شریک ہوتی آئی ہے ۔ اگر چہ فلسطینی اتھارٹی فلسطینی عوام سے زیادہ عالمی قوتوں کی خوشنودی کے لیے زیادہ کام کرتی ہے اور غزہ کی جنگ سے متعلق اس کی ناکام پالیسی نے بھی اسے ایک عضو ناکارہ ثابت کردیا ہے تاہم عالمی قوتوں کی نظر میں وہ فلسطین کی ایک” معتدل ” سیاسی قوت ہے۔اب امریکا نے اسے بھی درمیان سے نکال کر دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ اسے فلسطینیوں کی” معتدل” اور” روشن خیال” قیادت بھی پسند نہیں ہے۔ امریکا کے صہیونی آلہ کار وزیر خارجہ مارکو روبیو نے فلسطینی اتھارٹی پر دوریاستی حل کی حمایت کا ”الزام” عائد کیا ہے حالانکہ فلسطینی اتھارٹی کو ”دوریاستی حل” کا لالی پاپ خود امریکا نے دیا تھا اور گزشتہ سال تک یہی خود امریکا کی سرکاری پالیسی بھی رہی ہے۔ امریکا کے موجودہ صدر ٹرمپ کا موقف ہے اور امریکی حکام مسلسل اس موقف کی جگالی کر رہے ہیں کہ 7اکتوبر کے حماس کے حملوں کے بعد دوریاستی حل ناقابل عمل ہوگیا ہے حالانکہ ٹرمپ نے 7اکتوبر سے کئی سال پہلے 2018ء میں اپنے پہلے دور صدارت میں امریکی سفارت خانے کو غیر قانونی طور پر تل ابیب سے بیت المقدس منتقل کرکے دنیا کو یہ پیغام بھی دے دیا تھا کہ امریکا مشرق وسطیٰ اور تنازع فلسطین سے متعلق کسی بین الاقوامی قانون اور عالمی ضابطے کو نہیں مانتا۔ دوبارہ صدر منتخب ہونے سے پہلے انتخابی مہم کے دوران بھی ٹرمپ نے پورے فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کی کھل کر حمایت کی اور اقتدار میں آکر مغربی کنارے اور جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیل کا قبضہ تسلیم کرنے کی بات کی۔ اقتدار میں آکر ٹرمپ نے وزارت خارجہ اور مشرق وسطیٰ سے متعلق امور کے لیے چن چن کر ایسے لوگ منتخب کیے جو اپنی صہیونیت نوازی اور اسلام دشمنی کے لیے معروف تھے۔ امریکی ایوان نمایندگان کا اسپیکر ایک ایسے شخص (مائک جونسن) کو چنا جو ایک کٹر اور متعصب صہیونیت نواز ریپبلکن کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اسرائیل میں امریکی سفیر کے لیے انہیں صہیونی لابی کی پسندیدہ ترین شخصیت اور گریٹر اسرائیل کے نظریے کا پرچار کرنے والے پادری مائک ہکابے سے زیادہ کوئی موزوں شخص نہیں ملا۔ مسٹر ٹرمپ کو خود بھی کسی” عظیم مشن” کے لیے ”خدا کا انتخاب” ہونے کا خبط ہے جس کا وہ کئی بار اظہار کر چکے ہیں اور ان کے دیکھا دیکھی اب اسرائیل کے خونخوار بھیڑیے اور جنگی مجرم نیتن یاہو کو بھی خواب آنے لگے ہیں کہ وہ گریٹر اسرائیل کے ”روحانی مشن” کی تکمیل کے لیے چنے گئے ہیں۔ اس طرح پیچیدہ ذہنی عوارض میں مبتلا یہ چند خبطی لوگ ارض فلسطین میں انسانیت کے خلاف بدترین جنگی جرائم کا ارتکاب کیے جارہے ہیں اور یہ شاید دنیا کے 8 ارب انسانوں کی بدقسمتی ہے کہ وہ یہ سب ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں مگر اس کو روکنے سے قاصر ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پورے عالم انسانیت کے لیے ایک فیصلہ کن لمحہ ہے۔ اگر ٹرمپ اور نیتن یاہو جیسے ذہنی مریضوں کو آدم بو آدم بو کی صدائیں لگانے سے نہیں روکا گیا اور فلسطین کی سرزمین پر جاری رقص ابلیس اسی طرح جاری رہا تو اس کے نتائج پوری دنیا کے لیے نہایت تباہ کن ہوں گے۔ اگر دنیا میں امن قائم رکھنا ہے تو عالمی نظام انصاف کو فعال کرنا ہوگا۔ جن یورپی ممالک نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کر رکھا ہے، ان کو آگے آنا چاہیے اور اقوام متحدہ پر دھونس جمانے کی ٹرمپ انتظامیہ کی کوششوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔