غزہ میں بین الاقوامی جنگی قوانین کا قتل عام

قابض اسرائیل نے غزہ جنگ کے دوران 1160 مساجد شہید اور 40 قبرستان مٹا ڈالے،قحط سے مزید 11اموات ،صہیونی حملوں میں 51فلسطینی شہید ہوگئے ۔ غزہ کی وزارت اوقاف و امور دینیہ کے ڈائریکٹر جنرل انور ابو شاویش نے کہا ہے کہ قابض اسرائیل کی جاری نسل کشی اور غزہ پر مسلط کی گئی جنگ نے عبادت گاہوں، مساجد، قبرستانوں، وقف کی املاک اور دینی مراکز کو پوری طرح تباہ کر دیا۔ یہ وہ مقدس مقامات اور ادارے ہیں جو فلسطینی عوام کے مذہبی و سماجی ڈھانچے کا بنیادی حصہ تھے۔انور ابو شاویش نے بتایا کہ صہیونی دشمن نے تمام عالمی اور انسانی قوانین کو روند ڈالا اور اور امور دینیہ اور ا وقاف کے شعبے کو پانچ سو ملین ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچایا۔اعداد و شمار کے مطابق غزہ میں موجود 1244 مساجد میں سے قابض اسرائیل نے 1160 کو براہِ راست نشانہ بنایا، جن میں 909 مساجد مکمل طور پر زمین بوس کر دی گئیں اور کھنڈر میں تبدیل ہو گئیں۔ باقی 251 مساجد کو شدید نقصان پہنچا جس کے بعد وہ عبادت کے قابل نہ رہیں۔

دریں اثناء پیر کے روز اسرائیلی فوج نے خان یونس کے النصر ہسپتال پر پے درپے حملے کرکے مختلف بین الاقوامی ذرائع ابلاغ سے وابستہ 5صحافیوں اور ہسپتال کے عملے سمیت 20سے زائد افراد شہید کردیے۔مقامی ذرائع نے بتایا کہ قابض اسرائیلی فوج نے پہلے عمارت کی تیسری منزل کو نشانہ بنایا جہاں معروف فوٹو جرنلسٹ اور رائٹرز کے کیمرہ مین حسام المصری سمیت ایک اور شہری شہید ہوگئے۔ اس کے بعد جیسے ہی شہری، امدادی کارکن اور صحافی زخمیوں اور شہداء کو نکالنے کے لیے وہاں پہنچے تو دشمن فوج نے دوبارہ بمباری کر کے مزید خون بہایا اور لاشوں کے انبار لگا دیے۔ شہید ہونے والے صحافیوں میں حسام المصری کے علاوہ الجزیرہ کے محمد سلامہ اور انڈپینڈنٹ عربیہ کی مریم ابو دقہ، اے پی سمیت کئی اداروں سے وابستہ معاذ ابو طہ آزاد صحافی اور احمد ابو عزیز بھی شہداء میں شامل ہیں۔ اس سانحے کے بعد غزہ میں شہید صحافیوں کی تعداد بڑھ کر 245 ہو گئی ہے۔عرب میڈیا کے مطابق فلسطینی شہری دفاع نے بتایا کہ اسرائیل نے غزہ اور اس ارد گرد زیتون اور صابرہ کے علاقوں میں ایک ہزار سے زاید عمارتیں تباہ کی ہیں۔فلسطینی شہری دفاع نے بتایا کہ 6 اگست سے جاری اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے بعد سے یہ علاقے ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں۔

عباد ت گاہوں کو نشانہ بنانا،غیر متحارب عام شہریوں کو قتل کرنا،صحافیوں،طبی عملے اور امدادی اداروں کے کارکنان کو فوجی کارروائیوں کا ہدف کرنا بین الاقوامی قانون جنگ اور جنیوا کنونش کی صریحاً خلاف ورزی اور بدترین جنگی جرائم میں شامل ہیں اور ماضی میں ایسے جرائم پر متعدد ممالک کو بین الاقوامی پابندیوں کا سامنا رہا ہے مگر نہات افسوس اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اسرائیل عالمی قوتوں بالخصوص امریکا کو وہ انوکھا لاڈلا ہے جس کو ان تمام جرائم کی کھلی چھوٹ دی گئی ہے۔صہیونی بھیڑیا نیتن یاہو انسانیت کا خون پینے کے لیے آزاد چھوڑ دیا گیا ہے اور بدقسمتی سے آج کی اکیسویں صدی کی دنیا میں میں کوئی ایسی طاقت موجود نہیں ہے جو اس خونخوار درندے کو پٹا ڈال سکے۔ غزہ کی جنگ کے نتائج جو بھی ہوں لیکن اس معرکے نے مغربی تہذیب کے اس دعوے کو غلط ثابت دکھایا ہے کہ اس کی ترقی اور ملکوں کی تعمیر آزادی، انصاف، انسانی حقوق کے احترام اور جمہوریت کی مرہونِ منت ہے۔ یہ ثابت ہوگیا ہے کہ درحقیقت مغربی تہذیب کی ترقی کا راز غیر سفید فام اقوام کے وسائل پر تسلط، ان کی نسل کشی اور طاقت کے بے لگام اور بے دریغ استعمال اور معاہدوں کی آڑ میں کمزور کا بازو مروڑ کر اس کے سرپر بندوق رکھ کر اپنی مرضی کے سودے طے کروانے جیسے غیرانسانی افعال میں پوشیدہ ہے ۔مشرقِ وسطیٰ کی ستر سالہ تاریخ اور حالیہ واقعات اس کے گواہ ہیں۔ حماس کی قیادت نے حالیہ دنوں بھی امریکی تجاویز کے مطابق امن مذاکرات اور صلح کے لیے اپنی رضامندی کا اظہارکردیا تھا، اگرامریکا ثالث ہی کا کردار ادا کرنا چاہتا ہے تواس کے لیے آسان تھا کہ وہ اسرائیل کے مجرم وزیر اعظم کو امن معاہدے پر مجبورکرتا لیکن عالمی صہیونی لابی کے نمائندے کے طورپر امریکی صدر ٹرمپ کے لیے یہ بات ممکن ہی نہیں کہ وہ عالمی تنازعات میں غیر جانب دار کردار ادا کرسکے۔ دنیا کی بظاہر طاقت ور ترین ریاست کا صدر صہیونی لابی کے اشاروں پر ناچتاہے اور بلکہ وہ غزہ میں انسانیت کے خلاف تمام جرائم میں برابر کا شریک بلکہ بہت سے مبصرین کے مطابق اصل ذمہ دار ہے۔

اقوام متحدہ کے ریلیف کوارڈینیٹر دورقبل دہائی دے چکے ہیں کہ غزہ میں صورت حال تصور سے زیادہ خوفناک ہوچکی ہے۔ غزہ میں بسنے والے فلسطینی نہایت کرب ناک حالات سے دوچار ہیں۔ غزہ میں کوئی علاقہ یا محلہ رہائش کے قابل نہیں رہا۔ جن عمارتوں اور گھروں میں معصوم بچوں کے قہقہے گونجا کرتے تھے اب وہ ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں اور ان میں بسنے والے ہزاروں معصوم بچے صہیونیوں کی نفرت، تعصب اور انسان دشمنی کا شکار ہوکر منوں مٹی تلے گم ہوچکے ہیں اور جو زندہ ہیں انہیں بھوک اور قحط کے عذاب کا سامنا ہے۔ لیکن یہ بھی تاریخ کی ایک انوکھی مثال ہے کہ تباہ شدہ عمارتوں اور گھروں کے کھنڈرات، ملبے کے ڈھیروں اور اونچے نیچے ٹیلوں کی آڑ میں بھی صہیونی درندگی کے خلاف غزہ کے مسلمانوں کی مزاحمت مسلسل جاری ہے اور انھوں نے غزہ کو صہیونی دہشت گردوں کے لیے بھوتو ں کی وادی بنادیا ہے جس کے ہر درخت اور ہر پتھر کے پیچھے انسانوں کے ان دشمنوں کی موت چھپی ہوئی ہے ۔ مجاہدین کے مسلسل حملے ان کی صفوںمیں موجود استحکا م اور ان کے اعتماد کی دلیل ہیں۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ مسلم امہ فلسطینیوں کی نسل کشی کو روکنے کے لیے آگے آئے اورکم سے کم غزہ کے بھوک سے بے حال شہریوں تک امداد کی رسائی یقینی بنانے کے لیے کوئی اقدام کرے ۔ آخر مسلم امہ شرمندہ کیوں نہیں ہوتی کہ وسائل اور افواج کی موجودگی کے باوجود وہ اپنے معصوم بچوں کے قتلِ عام کو روکنے کی ہمت نہیں رکھتی ؟آخر ریاستوں کی اتنی بڑی قوت کیا صرف اشرافیہ کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ہے ؟ صہیونی فوج بالکل اسی طرح فلسطینیوں کی نسل کشی کررہی ہے جیسا کہ امریکی آباد کاروں نے ریڈ انڈین قبائل کا خاتمہ کردیا تھا،لہذاعرب حکمران اچھی طرح سوچ لیں کہ آج غزہ میں نسل کشی جاری ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ کل کسی اور کی باری نہیں آئے گی۔اسرائیل کا سزا یافتہ جنگی مجرم نیتن یاہو واضح لفظوں میں گریٹر اسرائیل کے اپنے عزائم کا اظہار کرچکا ہے ۔ غزہ گریٹر اسرائیل کے صہیونی عزائم کے مقابلے میں آخری دیوار ہے،اگر عرب حکمرانوں نے اس کا سقوط ہونے دیا تو کل یہ سیلاب بلا ان کی طرف بھی رخ کرسکتا ہے۔ پھر شاید انہیں کوئی بچانے والا نہ ہو۔