اقوام متحدہ نے غزہ کو باضابطہ طور پر قحط زدہ قرار دے دیا، اقوام متحدہ کے ریلیف چیف اور ایمرجنسی ریلیف کوآرڈینیٹر ٹام فلیچر نے تشویشناک انکشاف کیا ہے کہ غزہ باضابطہ طور پر قحط زدہ ہوچکا ہے۔ ٹام فلیچر نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی بریفنگ کے دوران اعتراف کیا کہ غزہ کا قحط ایسا تھا جسے ہم روک سکتے تھے لیکن ہمیں ہی کام سے روک دیا گیا۔انھوں نے مزید بتایا کہ خوراک سے بھرے ٹرکوں کا غزہ کی سرحدوں پر انبار ہے مگر اسرائیلی رکاوٹوں کی وجہ سے غزہ کے لوگ بھوکے مر رہے ہیں۔ٹام فلیچر نے اسرائیلی بے رحمی کا زکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ قحط ایک ایسے علاقے میں ہے جہاں کھانا وافر مقدار میں محض چند سو میٹر دور موجود ہے لیکن نہ امداد کو آنے کی اجازت ہے اور نہ فلسطینیوں کو وہاں جانے دیا جا رہا ہے۔ یہ بحران بچوں، خواتین اور کمزور طبقوں کو سب سے زیادہ متاثر کر رہا ہے۔ٹام فیچر نے کہا کہ یہ 21 ویں صدی کا قحط ہے جسے ڈرونز اور جدید ترین فوجی ٹیکنالوجی کے سائے میں دنیا دیکھ رہی ہے۔ٹام فیچر نے نیتن یاہو کا نام لیے بغیر کہا کہ بعض اسرائیلی رہنما اس بھوک کو ”جنگی ہتھیار” کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ قحط ظالمانہ پالیسیوں، انتقامی سوچ، عالمی بے حسی اور شراکت داری کے باعث پیدا ہوا ہے۔ یہ پوری دنیا کے لیے شرمندگی کا باعث ہے اور ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں۔
اقوام متحدہ کے اعلیٰ عہدیدار کا یہ بیان دراصل ایک فرد جرم ہے جو صرف صہیو نی بھیڑیے اور سزایافتہ جنگی مجرم نیتن یاہو اور اس کے سرپرستوں پر ہی نہیں بلکہ پورے عالم انسانیت پر عائد کی گئی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت غزہ میں صہیونی انتہا پسند دہشت گرد ٹولے کی حکومت امریکا کے بدکردار اور سرٹیفائیڈ بدکردار و صہیونی آلہ کار صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی علانیہ اشیر باداور پشت پناہی سے جس طرح بدترین جرائم کا رتکاب کر رہی ہے،آج کی اکیسویں صدی میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جانا چاہیے مگر یہ شاید پورے عالم انسانیت کی بدقسمتی ہے کہ اس وقت دنیا پر ایسے لوگوں کی حکمرانی قائم ہوچکی ہے جو اپنے ذاتی کردار اور اخلاقیات کے لحاظ سے انسانیت کی پست ترین سطح پر ہیں بلکہ درحقیقت انسانیت کے لیے باعث ننگ و عار ہیں۔یہ لوگ ڈھٹائی ،بے شرمی اوروقاحت کے اس لیول پر پہنچ چکے ہیں جہاںکوئی بھی سلیم الفطرت شخص ان کو انسانوں کے روپ میں دیکھ کر بھی گھن محسوس کرتا ہے۔اس بے شرمی اور ڈھٹائی کا اندازہ اس خبر سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے غزہ میں قحط کے اقوام متحدہ کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ” یہ سب حماس کا پروپیگنڈا ہے جنھیں مفاد پرست تنظیموں کے ذریعے پھیلایا گیا۔”گویا غزہ میںقحط سے متعلق دنیا کے تمام آزاد ممالک اور ادارے جھوٹ بول رہے ہیں اور سچ وہ ہے جو دنیا کی مبغوض ترین قوم کی قابض اور ناجائز حکومت کہہ رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے ریلیف کوآرڈینیٹر نے اپنے بیان کے ذریعے انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔یہ پہلا موقع ہے کہ مشرق وسطیٰ کے کسی خطے میں قحط کا باضابطہ اعلان کیا گیا ہے،اقوام متحدہ کے زیر قیادت عالمی اداروں کی جانب سے کیے گئے ایک بین الاقوامی تجزیے میں تصدیق کی گئی کہ قحط بالخصوص غزہ شہر میں ظاہر ہو چکا ہے ۔خوراک کی سلامتی کے اس عالمی درجہ بندی نظام نے واضح کیا ہے کہ غزہ کے پانچ لاکھ سے زاید شہری پانچویں درجے یعنی انتہائی قحط کی کیفیت کا شکار ہیں جہاں شدید بھوک، موت، بدترین غربت اور انتہاپسندانہ حد تک شدید غذائی قلت کے حالات موجود ہیں۔ تجزیے نے متنبہ کیا ہے کہ اگست کے وسط سے ستمبر 2025ء کے آخر تک حالات مزید بگڑیں گے اور قحط دیر البلح اور خان یونس تک پھیل جائے گا۔اقوام متحدہ کی ایجنسیوں نے کہا کہ بڑھتی لڑائی، بار بار کی جبری بے دخلی اور انسانی امداد پر سخت پابندیوں نے صورتحال کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ اس کے نتیجے میں غزہ ایک ایسی انسانی تباہی کی جانب دھکیل دیا گیا ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ عوام کی اکثریت کو کھانے، صاف پانی اور بنیادی سہولتوں تک رسائی بری طرح محدود کر دی گئی ہے۔اقوام متحدہ نے انکشاف کیا ہے کہ غزہ کی پٹی کے اندر جبری طور پر بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد مارچ کے وسط سے اب تک بڑھ کر 7 لاکھ 96 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ یہ بڑی انسانی المیہ قابض اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں سامنے آیا ہے۔تازہ اطلاعات کے مطابق قابض صہیونی فوج نے غزہ پر قبضہ کرنے کے لیے نیا فوجی آپریشن شروع کر دیا اورشمالی غزہ میں حملے بڑھا دیے ہیں جن سے غزہ میں انسانی بحران مزید سنگین ہونے کا خدشہ ہے۔ غزہ شہر پر قبضے کے منصوبے پر عمل کی صورت میں تقریباً 10 لاکھ افراد کو زبردستی بے دخل کیا جائے گا اور فلسطینی گھروں کو منظم طریقے سے مسمار کیا جائے گا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف ظلم و تعدی کی تمام حدود کو پار کرنے کے بعد بھی صہیونی بھیڑیے نتین یاہو کی خون کی پیاس نہیں بجھی ہے اور وہ غزہ میں بچے کھچے فلسطینیوں کا بھی خون پینے کے عزائم رکھتا ہے۔ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق خود اسرائیلی فوج کے اعلیٰ عہدیداروں نے تصدیق کی ہے کہ غزہ میں اب تک صہیونیت کا نشانہ بننے والے افراد می 84فی صد عام شہری تھے۔ اس کے باوجود نیتن یاہو حکومت مزید خون خرابے پر بضد ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صہیونی بھیڑیے نیتن یاہو کو” جنگی ہیرو” قرار دیا ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کسی کو ٹرمپ انتظامیہ کی انسانیت دشمنی، اسلام دشمنی اور صہیونیت نوازی پر شک ہے تو اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ یہ عالم انسانیت کے لیے ایک فیصلہ کن لمحہ ہے۔ اگر اس مرحلے پر غزہ میں جنم لینے والے انسانی بحران کو نہیں روکا گیا اور خود اقوام متحدہ اور دنیا کے آزاد ممالک کی جانب سے ٹرمپ اور نیتن یاہو کی شیطانی جوڑی کے مذموم عزائم کا راستہ نہ روکا گیا تو دنیا جلد یا بدیر ایک ایسی افراتفری میں مبتلا ہوسکتی ہے جس کا انجام کسی کے حق میں بہتر نہیں ہوگا۔ دنیا کے دو ارب مسلمانوں کا پیمانہ صبر لبریز ہوچکا ہے، عالم اسلام کے لیے اب نام نہاد عالمی قوانین، امن اور انسانی حقوق کا ڈھنڈورا کرنے والے بین الاقوامی ادارے بے معنی ہوچکے ہیں اور مسلمان نوجوانوں میں موجودہ عالمی نظام سے شدید مایوسی اور نفرت پھیل چکی ہے۔ مایوسی اور نفرت کا یہ لاوا آگے چل کر دنیا میں کہاں کہاں کس کس شکل میں ظاہر ہوگا، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ اگر عالمی برادری کا کوئی وجود ہے تو اسے غزہ میں انسانیت کے خلاف جرائم فوری طور پر روکنے اور مجرموں کا پیچھا کرنے میں مزید تاخیر نہیں ہونے دینا چاہیے۔