ہمارے ہاں آج کل سوشل میڈیا پر آئے دن کوئی نہ کوئی ایسی ریل یا ویڈیو کلپ وائرل ہو جاتا ہے جسے دیکھنے والے کا خون کھول اٹھے۔ ان میں کسی مقامی سطح پر طاقتور شخص یا کسی دولت مند گھرانے کی بگڑی ہوئی اولاد یا خواتین راہ گیروں یا مرد، کمزور حیثیت والی خواتین کو بے رحمی سے تشدد کا نشانہ بناتے نظر آتے ہیں۔ کبھی پتہ چلتا ہے کہ کسی وحشی جاگیردار یا وڈیرے نے غریب کسان کی تذلیل کی، کھیت یا باغ سے چھوٹی موٹی کھانے کی چیز چرانے والے لڑکے کو درخت سے باندھ کر کوڑے برسائے، الٹا لٹکا دیا وغیرہ وغیرہ۔
جب ایسا ایشو وائرل ہو جائے تو اس پر شدید عوامی ردعمل سامنے آتا ہے۔ پولیس اور انتظامیہ بھی حرکت میں آتی ہے۔ ملزم گرفتار ہو جاتے ہیں، دوچار دن سوشل میڈیا پیچھے پڑا رہتا ہے، خبریں لگتی ہیں، پھر وہ ایشو میڈیا اور سوشل میڈیا سے غائب ہو جاتا ہے۔ عام طور سے ایسے ملزم جلد چھوٹ جاتے ہیں کیونکہ کیس کی پیروی کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اس کی واحد وجہ سوسائٹی میں رول آف لا کمزور ہونا ہے۔ اگر لوگوں کو پتہ چلے کہ وہ زیادتی کرنے کے بعد بچ نہیں سکیں گے، قانون کی آہنی گرفت میں آئیں گے اور ان کی طاقت، دولت، اثرورسوخ انہیں نہیں بچا سکے گی اورانہیں جیل میں سڑنا پڑے گا تو یقین کریں وہ جتنے بھی بااثر ہوں، ظلم کرنے سے پہلے رک جائیں گے۔ یہی مغرب نے کیا ہے۔ وہاں رول آف لا ہے اور اس کے ثمرات عام شہریوں کو مل رہے ہیں۔ اپنے معاشرے کو سدھارنا ہے تو ہمیں بھی یہی کرنا پڑے گا۔
ایک زمانے میں امریکا کے ایک مشہور مقدمے کے بارے میں پڑھا تھا، اس پر تب شاید کچھ لکھا بھی تھا۔ رول آف لا قائم کرنے میں اس مقدمے نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ بدقسمتی سے ہم لباس، کھانے پینے کی ڈشز، رہن سہن اور لائف اسٹائل کے دیگر معاملات میں مغرب کی طرف دیکھتے ہیں، مگر ان کی اچھی چیزیں جیسے قانون پر سختی سے عمل درآمد اور عام شہری کو عزت اور توقیر دینے جیسی باتوں پر توجہ نہیں دیتے۔
یہ مقدمہ ریاست امریکا بنام ہیمسلے کے نام سے معروف ہے، 80کے عشرے کا کیس ہے۔ یہ دراصل مشہور ارب پتی امریکی بزنس مین خاتون لیونا مینڈی رابرٹس سے متعلق ہے۔ لیونا اور ان کے خاوند ہوٹلنگ کی انڈسٹری میں چھائے ہوئے تھے۔ ان کے مختلف شہروں میں 26عالیشان ہوٹل اور کئی بزنس سینٹر تھے۔ مین ہٹن نیویارک میں ایک شاندار ہوٹل ہیمسلے پیلس ہوٹل کے نام سے چل رہا تھا۔ لیونا مینڈی اور ان کا شوہر چیریٹی کے حوالے سے بھی مشہور تھے، وہ مختلف خیراتی اداروں کو ہزاروں ڈالر ماہانہ عطیات دیتے۔ یہ گھرانہ کئی ملین ڈالر سے زائد کا ٹیکس ادا کرتا تھا۔ لیونا خود بھی بڑے تیز کاروباری ذہن کی مالک تھی، اس نے شادی کے بعد اس خوبی سے ہوٹلنگ کے کاروبار کو سنبھالا کہ بورڈ آف ڈائریکٹرز نے اسے ہوٹلوں کی پوری چین کا انتظامی سربراہ چن لیا۔ وہ اس امتحان میں بھی پورا اتری اور جلد خاوند کے کاروبار کو چار چاند لگا دیے۔
اخبارات میں لیونا مینڈی کو ہوٹل کوئن کے نام سے پکارا جانے لگا۔ لیونا کے خاوند ہیری نے خوش ہو کر اپنی خوش شکل اورذہین بیوی کو نیویارک کے ایک حسین علاقے میں 26ایکٹر کا رقبہ خرید کر دیا۔ وہاں ایک محل نما حسین کوٹھی اور باغات پہلے سے موجود تھے۔ لیونا یہ تحفہ پا کرجھوم اٹھی، مگر اس کا معیار بہت بلند تھا، وہ اپنی پسند کی چیزوں پر بے تحاشا خرچ کرتی تھی۔ اپنی اس شاہ خرچ عادت سے مجبور ہو کر اس نے اس محل نما گھر کی نئے سرے سے تزئین وآرائش شروع کی۔ دنیا کے مختلف علاقوں سے مختلف چیزیں لائی گئیں۔ ڈانس فلور کیلئے جانے کہاں کہاں سے قیمتی ماربل منگوائے گئے۔ دو سوئمنگ پول بنوائے، جن میں سرد اور گرم پانی کا انتظام تھا۔ گھر میں فرش کیلئے افغانی اور ایرانی قالین، دنیا کے مشہور مجسمہ سازوں سے خصوصی طور پر تیار کرائے گئے آرائشی مجسمے، دیواروں پر آویزاں مصوری کے اوریجنل شاہکار۔ لیونا نے اپنے گھر کو منفرد اور بے نظیر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہیں پر لیونا مینڈی رابرٹس سے وہ غلطی ہوئی، جس نے اسے معاشرے میں بلند مقام سے نیچے گرا دیا۔ لیونا نے کچھ چیزوں کے اخراجات اپنے ہوٹلوں کے اخراجات میں ظاہر کیے۔ اس طرح وہ کچھ رقم کو کاروباری اخراجات کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب رہی۔ لیونا کی ہدایت پر اس کے کارندوں نے بعض انتہائی قیمتی اشیا کی رسیدیں بھی لیونا کے ذاتی اکاؤنٹ کی بجائے ہوٹلوں کے مصارف میں ظاہر کیں۔ بزنس کے لیے مجبور کمپنیوں نے لیونا کی ہدایت پر عمل کیا…
اس سب کی اطلاع ایک مقامی غیرمعروف جریدے کو مل گئی۔ لیونا کے کسی ملازم نے رنجش یا کسی اور وجہ سے اپنے کسی صحافی دوست کو یہ بات بتلا دی۔ صحافی اس جانب متوجہ ہوئے مگر یہ اس قدر بڑا خاندان تھا کہ بغیر ثبوت کے کچھ لکھنا بھی ممکن نہیں تھا۔ کچھ عرصہ بعد مقامی اخبار نیویارک پوسٹ نے ایک آرٹیکل کے ذریعے اس انکم ٹیکس گھپلے کی نشاندہی کی۔ اس اسکینڈل کی شروع میں کچھ زیادہ پذیرائی نہ ہوئی۔ حکومتی اداروں نے سوچا کہ اتنے ملین ڈالر ٹیکس دینے والے اس خاندان کو چند لاکھ ڈالر کے ٹیکس فراڈ کی کیا ضرورت ہے؟ ٹیکس محکمہ خاموش رہا تاہم اس وقت کے اٹارنی جنرل جیمز آر ڈی ویٹا کی فائلوں میں اس کے ایک اسسٹنٹ نے یہ آرٹیکل رکھ دیا۔ اٹارنی جنرل جیمز بڑا بااصول آدمی تھا، وہ رول آف لا کا پرچارک تھا۔ اس نے تحقیقات کرانے کا فیصلہ کیا۔ عملے کے دیگر افراد کو اس نے کہا کہ چھوٹے اور غریب افراد کو قانون کی گرفت میں لانا تو بہت آسان ہے، مگر قانون کی عملداری اس وقت قائم ہوتی ہے جب طاقتور اور بڑے گھرانوں پر اس کا اطلاق کیا جائے۔ اٹارنی جنرل جیمز نے اس خاندان پر ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ کر لیا۔ اگلے تین برسوں میں پبلک پراسیکوٹر اور اٹارنی جنرل کے کارندے اس معاملے کی تفتیش کرتے رہے، کئی ہوٹلوں کے اکائونٹس چیک کیے گئے، شہر شہر جا کر گواہوں سے معلومات اکٹھی کی گئیں، کاغذات کی نقول حاصل کی گئیں۔ آخر تفصیلی رپورٹ اٹارنی جنرل کو بھیجی گئی، کئی دنوں تک اس کے تفصیلی معائنے کے بعد جیمز نے حکم جاری کیا کہ لیونا مینڈی کے خلاف ٹیکس چوری کا مقدمہ درج کیا جائے۔
یہ خبر بم بن کر اس ارب پتی خاندان پر پھٹی۔ نیویارک کی بزنس کمیونٹی حیران رہ گئی، تاہم لیونا مینڈی نے سختی سے اس کی تردید کی اور اسے ایک بے بنیاد اسکینڈل قرار دیا۔ پراسیکیوٹرز نے لیونا کے خلاف چار ملین ڈالر ٹیکس چوری کا مقدمہ پیش کیا۔ اسی دوران اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے لیونا کے منہ سے ایک ایسا جملہ نکل گیا، جو اس کے خلاف گیا، اس کا عوامی امیج تباہ ہو کر رہ گیا۔ لیونا نے صحافیوں کے سوالات پر تنک کر جواب دیا کہ ٹیکس دینے یا نہ دینے کا ہم امیر لوگ کیا جانیں، یہ تو چھوٹے لوگوں کا کام ہے۔ لیونا غالباً یہ کہنا چاہتی تھی کہ مجھ جیسی ارب پتی خاتون کا کام ٹیکس کے بارے میں معلومات لینا نہیں، یہ تو ہماری کمپنیوں کے چھوٹے اہلکاروں یعنی اکاؤنٹینٹ، کلرکوں وغیرہ کا کام ہے۔ غیرمحتاط الفاظ کے چناؤ نے لیونا کو شدید دھچکا پہنچایا۔
اس کیس میں اٹارنی جنرل کی معاونت کے لئے پراسیکیوٹر کی جانب سے رڈولف جیولیانی بھی پیش ہوئے۔ یہ وہی جیولیانی ہیں جو نیویارک کے مشہور میئر رہے، نائن الیون کے موقع پر وہی مئیر تھے۔ لیونا کی جانب سے امریکا کے چوٹی کے قانون دان پیش ہوئے، تاہم پراسیکیوٹر ٹیم نے کیس اس قدر مضبوط بنایا تھا کہ کچھ نہ ہو سکا۔ جیوری نے متفقہ طور پر لیونا وینڈی کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے اسے مجرم قرار دیا۔ جیوری کے اس اعلان کے بعد امریکی جج نے لیونا سے پوچھا اب وہ کیا محسوس کر رہی ہے؟ شاہانہ نخوت کی حامل لیونا کے پاؤں تلے زمین نکل چکی تھی، آنسو بہاتے ہوئے اس نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور معافی مانگی۔ اس کا کہنا تھا وہ خود کو اس قدر چھوٹا محسوس کر رہی ہے کہ بس نہیں چلتا زمین میں دھنس جائے۔
اس اعتراف جرم کے باوجود جج نے لیونا کو ٹیکس چوری کی رقم واپس کرنے کے علاوہ 70لاکھ ڈالر جرمانہ اور چار برس قید کی سزا سنائی۔ (بعد میں لیونا کو ڈیڑھ برس سے زیادہ عرصہ جیل گزارنا پڑا، تب جا کر اس کی رہائی عمل میں لائی جا سکی۔)
جج نے ہوٹل کوئن کے نام سے مشہور لیونا وینڈی کو دیکھتے ہوئے آخری کلمات کہے کہ اس مقدمے کی تفتیش اور پھر عدالتی کارروائی کے دوران تمہارا یہی خیال بلکہ زعم تھا کہ تم چھوٹ جاؤگی۔ مجھے امید ہے کہ جو سزا تمہیں سنا رہا ہوں، وہ ہر بڑے آدمی کے لیے یہ پیغام ہے کہ اس ملک میں صرف اور صرف قانون کی بالادستی ہوگی…!