ان کی قسمت میں خدا نے نجانے کتنی عظمتیں اور رفعتیں لکھ دی تھیں۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت پہنچے جب سارا مکہ اور اس کے اردگرد کے قبیلے آپ کے دشمن ہوچکے تھے۔ دوسری بیعت عقبہ میں شریک ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مقرر کیے گئے 12نگرانوں میں سے ایک تھے۔ قریش مکہ کو پہلے ہی خطرہ لگا رہتا تھا کہ خزرج کے سردار سعد بن عبادہ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا تو ہمارے لیے تباہی مقدر ہو جائے گی۔ جاہلیت کے دور میں لکھنا جانتے تھے، تیر اندازی کے ماہر تھے اور سخاوت ایسی کہ پورا عرب معترف تھا۔
مسجد نبوی میں اصحاب صفہ کی ایک جماعت ہر وقت موجود رہتی، جس کا کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دین سیکھنا اور اسے یاد رکھنا ہوتا تھا۔ وہ دن بھر مسجد میں رہتے، تلاش معاش کے لیے کسی جگہ نہ جاتے، صحابہ کرام ان کے کھانے پینے کا بندوبست کرتے۔ رات ڈھلے جب سب عشاء کی نماز پڑھ لیتے تو صحابہ کرام ان کے پاس آتے اور ایک، ایک، دو دو یا آٹھ دس اصحاب صفہ کو اپنے گھر لے جاتے اور کھانا کھلاتے لیکن ایک صحابی ایسے تھے، جو 80افراد کو روزانہ ساتھ لے جاتے، انہیں بہترین کھانا کھلاتے۔ یہ تھے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ۔ (کنزالعمال، حرف السین، سعدبن عبادة، رقم: 37083)
شام ڈھلے جب عرب کے صحراوں میں مسافروں کے پڑاو کا وقت ہوتا تو آپ اپنے گھر کے سامنے کھڑے ہوکر اعلان کرتے: جسے گوشت اور چکنائی پسند ہے، وہ دلیم بن حارثہ کے گھر آجائے… یہ روایت سالہا سال سے چل رہی تھی اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے آباء و اجداد ایسا کرتے آئے تھے۔ آپ کے صاحبزادے قیس بن سعد نے اسی روایت کو جاری رکھا اور پھر عرب کے سخی ترین لوگوں میں شمار کیے جانے لگے۔ (تہذیب الکمال، المزی، باب السین، من اسمہ سعد: 278/10) ایک بار ایسا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ کے ہاتھ میں مغز سے بھرا پیالہ یا ڈش تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا زیادہ مغز دیکھ کر فرمایا: اے ثابت کے ابو! یہ کیا ہے؟ آپ نے عرض کیا: قسم اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں نے 40جانور ذبح کیے اور ان کے مغز کو جمع کیا تاکہ آج آپ کو مغز پیٹ بھرکے کھلادوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ کھایا اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے لیے خیر و برکت کی دعا کی۔ (کنز العمال، حرف السین، سعد بن عبادہ، رقم: 37082)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کسی جگہ تشریف لے جاتے تو مہاجرین کا جھنڈا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں ہوتا، جبکہ انصار کا جھنڈا حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں ہوتا۔ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنی محبت تھی کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے، روزانہ آپ شام ڈھلے کھانے سے بھرا ایک خوان یا طشت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیج دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس اہلیہ کے گھر تشریف لے جاتے، طشت بھی اسی گھر جاتا۔ اس میں گوشت کی ثرید، دودھ، سرکے، تیل یا چربی کی ثرید ہوتی۔ اکثر کھانے میں گوشت ہی ہوتا۔ (سیر اعلام النبلائ، ذہبی، الصحابہ، سعد بن عبادہ: 270/1)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ان سے دلی تعلق تھا۔ ایک بار سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بیمار پڑ گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر ملی تو اپنے ساتھ تین صحابہ کرام کو لے کر عیادت کے لیے روانہ ہوئے، حضرت عبدالرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم ساتھ تھے۔ گھر پہنچے تو تیمار داروں کا ہجوم دیکھ کر حیران رہ گئے اور دریافت کیا: کہیں انتقال تو نہیں فرما گئے؟ لوگوں نے جواب دیا: اللہ کے نبی! نہیں۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی حالت دیکھی تو شدت غم سے رو پڑے، آنسو ابل آئے۔ لوگوں نے دیکھا کہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم رو رہے ہیں تو وہ سب بھی رو پڑے۔ تھوڑی دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو! اللہ تعالیٰ آنکھوں سے آنسو نکلنے پر عذاب نہیں دے گا، نہ ہی دل کے غم پر۔ بلکہ اللہ کا عذاب اس کی وجہ سے ہوتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان کی طرف اشارہ فرمایا۔ (صحیح بخاری: 1304)
اللہ تعالیٰ ان پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے، اپنی دولت سے جنت خرید گئے۔ اپنے مال کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی پر نچھاور کر گئے۔ اپنی سخاوت کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کر گئے۔ آپ کی سیرت امت کے صاحب خیر اور مالدار افراد کے لیے مشعل راہ ہے۔ جس طرح اپنی جان اللہ کی راہ میں لگانے والے ہمیشہ کے لیے امر ہو جاتے ہیں، اسی طرح اپنے حلال اور پاکیزہ مال کو راہ خدا میں صرف کرنے والے بھی اپنے صدقات جاریہ کے ذریعے قیامت تک اپنے اعمال حسنہ کا کھاتہ جاری رکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ آج ملک کے شمالی علاقوں میں بارشوں اور طوفانوں نے تباہی مچا رکھی ہے جس سے ہزاروں خاندان متاثر ہوئے ہیں اور امداد کے منتظر ہیں۔ اہل خیر حضرات کو آگے بڑھ کر خود یا معتبر رفاہی اداروں کے ذریعے اپنے متاثرہ بھائیوں کی مدد کرنی چاہیے۔