حماس فائر بندی پر راضی،اسرائیلی فوج غزہ سٹی پرقبضے کیلئے تیار

غزہ/تل ابیب/نیویارک/قاہرہ/لندن: فلسطینی گروپ حماس کے ایک ذرائع نے پیر کو اے ایف پی کو بتایا کہ حماس نے غزہ میں فائر بندی کی ایک نئی تجویز پر اتفاق کیا ہے۔

حماس کے ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایاکہ حماس نے اپنا جواب ثالثوں کو پہنچا دیا ہے جس میں تصدیق کی گئی ہے کہ حماس اور دھڑوں نے بغیر کسی ترمیم کی درخواست کے فائر بندی کی نئی تجویز پر اتفاق کیا ہے۔

اس سے قبل ایک فلسطینی اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ ثالثوں نے ابتدائی 60 دن کی فائر بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کی تجویز پیش کی تھی۔خبر رساں ادارے رائٹرز نے بھی خبر دی کہ حماس نے ثالثوں کو مطلع کر دیا ہے کہ اس نے غزہ میں فائر بندی کی تازہ ترین تجویز کو منظور کر لیا ہے۔

گروپ کے ایک اہلکار نے پیر کو نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر رائٹرز کو فائر بندی معاہدے پر متفق ہونے کی تصدیق کی ہے تاہم مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔اس پیش رفت پر اسرائیلی حکومت کی طرف سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔

مصر اور قطر کے ثالثوں کی کوششیں،ساتھ ہی امریکا کی مداخلت، ابھی تک ایک طویل المدتی فائر بندی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ایک دوسرے فلسطینی عہدے دار نے اے ایف پی کو بتایا کہ ثالثوں نے ابتدائی طور پر 60 دن کی فائر بندی اور دو مراحل میں قیدیوں کی رہائی کی تجویز دی تھی۔

حماس کے ہمراہ غزہ میں لڑنے والے اسلامی جہاد نامی گروپ کے ایک ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ منصوبہ میں 60 دن کی فائر بندی شامل ہے جس کے دوران 10 اسرائیلی قیدیوں کو زندہ رہا کیا جائے گا، ساتھ ہی کچھ لاشیں بھی واپس کی جائیں گی۔

اسی ذرائع نے بتایا کہ باقی قیدیوں کو دوسرے مرحلے میں رہا کیا جائے گا اور اس کے فوراً بعد بڑے معاہدے کے لیے مذاکرات شروع ہوں گے تاکہ تنازع کا مستقل خاتمہ ممکن ہو سکے جس میں بین الاقوامی ضمانتیں شامل ہوں گی۔

دریں اثناء اسرائیلی فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ایال ضمیر نے غزہ سٹی پر قبضے کے منصوبے کی باضابطہ منظوری دے دی ہے۔اس فیصلے کے بعد آئندہ ہفتے اسرائیلی وزیر دفاع سے بھی اس منصوبے کی توثیق کی توقع کی جارہی ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق تیار کیے گئے منصوبے میں واضح کیا گیا ہے کہ دو ہفتوں کے اندر فلسطینیوں کو زبردستی بے گھر کرنے کی کارروائی کی جائے گی جس کی ابتدا ایک بڑے فوجی آپریشن سے ہوگی اس کے بعد مرحلہ وار اسرائیلی فوج شہر میں داخل ہوکر غزہ سٹی پر مکمل قبضہ کرے گی۔

رپورٹس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی حکام اس منصوبے کو باضابطہ طور پر امریکی حکام کے سامنے پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو اس حوالے سے اسرائیل سے براہِ راست رابطے میں ہیں۔

دوسری جانب مقبوضہ بیت المقدس کی انتظامیہ نے پیر کے روز اعلان کیا ہے کہ مشرقی بیت المقدس کے 22 بدوی دیہات میں مقیم تقریباً سات ہزار فلسطینی قابض اسرائیل کے جبری بے دخلی کے منصوبوں کے سنگین خطرے سے دوچار ہیں۔

یہ خطرہ اس وقت بڑھ گیا ہے جب صہیونی دشمن نے ”ای ون منصوبہ” اور نام نہاد ”شارع السیادة” جیسے استعماری پروجیکٹس پر عمل درآمد تیز کر دیا ہے۔بیان میں واضح کیا گیا کہ ان منصوبوں کی تکمیل سے جبل البابا اور وادی جمل کے دیہات قصبہ العیزریہ سے تقریباً مکمل طور پر کاٹ دیے جائیں گے۔ ان دونوں مقامات پر لگ بھگ سو فلسطینی شہری رہائش پذیر ہیں جو اپنے وجود کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

دریں اثناء اسرائیلی فوج نے امداد کے منتظر فلسطینیوں پر فائرنگ اور بمباری کا سلسلہ جاری رکھا جس کے نتیجے میں مزید60 فلسطینی شہید ہوگئے جبکہ 344 شدید زخمی حالت میں غزہ کے ہسپتالوں میں پہنچائے گئے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے امداد کے منتظر 38 فلسطینی شہید ہوئے جبکہ غزہ کے ال اہلی اسپتال پر بمباری کے نتیجے میں بھی کئی افراد کی شہادتیں ہوئی ہیں۔

فلسطینی وزارتِ صحت کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران بھوک اور قحط کے باعث مزید11فلسطینیوں کی شہادت ہوئی جس کے بعد بھوک سے شہید ہونے والوں کی تعداد 251 تک پہنچ گئی ہے ان میں 108 بچے بھی شامل ہیں۔

قحط کی صورتحال غزہ کے بیشتر حصوں میں سنگین ہوگئی ہے اور انسانی بحران شدت اختیار کر چکا ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کے پانچ لاکھ افراد قحط کا شکار ہیں اور صرف فوری جنگ بندی سے ہی اس بحران کا حل ممکن ہے۔

اقوام متحدہ نے عالمی برادری سے غزہ کے انسانوں کے لیے فوری امداد کی فراہمی کی اپیل کی ہے۔قبل ازیںفلسطین کی مزاحمتی تحریک حماس نے غزہ کو خالی کرانے کے اسرائیل کے منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے اس کو نسل کشی اور فلسطینیوں کو بے گھر کرنے کی ایک نئی مہم قرار دے دیا۔

غیرملکی خبرایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حماس نے کہا کہ اسرائیل کا غزہ سٹی کے شہریوں کو بے دخل کرنے کا منصوبہ لاکھوں شہریوں کی نسل کشی اور بے گھر کرنے کی ایک نئی مہم ہے۔حماس نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے جنوبی غزہ میں خیمہ اور پناہ گاہیں بنانے کے دیگر طریقے کھلم کھلا دھوکا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ انسانی امداد کے نام پر خیموں کی فراہمی کرنا واضح دھوکا ہے جس کا مقصد وحشیانہ مظالم کو چھپانا ہے جو قابض فورسز کرنے جا رہی ہیںجبکہ قابض اسرائیلی فوج نے گذشتہ شب اور آج پیر کی صبح مغربی کنارے کے مختلف شہروں اور دیہات میں چھاپوں اور گرفتاریوں کی ایک نئی مہم چلائی جس میں متعدد فلسطینی شہریوں کو حراست میں لے لیا گیا۔

مقامی ذرائع کے مطابق یہ جارحانہ کارروائیاں رام اللہ، نابلس، جنین، طوباس،طولکرم، قلقیلیہ،بیت لحم اور الخلیل سمیت کئی شہروں اور قصبوں میں کی گئیں۔جنین میں قابض فوج نے نوجوان بہاء قصراوی کو گھر پر دھاوا بولنے کے بعد بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر گرفتار کیا جبکہ زید حبیب برکات کو فقوعہ قصبے سے اٹھا لیا۔

اسی طرح قباطیہ سے بھی ایک نوجوان کو حراست میں لیا گیا اور یعبد قصبے میں گھروں پر دھاوا بولا گیا۔ اتوار کی شب بھی قابض فوج نے جنین شہر اور اس کے کیمپ میں بھاری فوجی گاڑیاں گھمائیں جس سے شہر ایک فوجی چھاؤنی کا منظر پیش کرنے لگا۔

رام اللہ میں صہیونی آبادکاروں نے قابض فوج کی مکمل سیکورٹی میں عائلة ابو عواد کے گھر پر حملہ کیا۔ قابض فوج نے ترمسعیا کے کھیتوں میں گھس کر تباہی مچائی اور المغر گاؤں میں بلڈوزر کے ساتھ داخل ہو کر مکانات کو نقصان پہنچایا۔

اسی طرح رام اللہ کے وسطی علاقے عین منجد اور ام الشراط میں بھی چھاپے مارے گئے۔رام اللہ کے شمال مغرب میں عابود گاؤں اور مشرق میں دیر دبوان قصبے پر بھی آبادکاروں نے حملہ کیا تاہم فوری طور پر کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔

الخلیل میں قابض فوج نے بنی نعیم، بئر المحجر، الطفوف اور الظاریہ سمیت کئی علاقوں پر یلغار کی۔ عینی شاہدین کے مطابق صہیونی ٹرکوں کے ذریعے سوسیا گاؤں کے تاریخی علاقے میں موبائل کیمرے (کرافانات) اتارے گئے جن کا مقصد تاحال واضح نہیں۔

قلقیلیہ میں قابض فوج نے شہر کو شمالی ناکے اور مرکزی علاقوں سے گھیرے میں لے کر نوجوان احمد شاور کو گرفتار کیا۔بیت لحم اور الدشہ کیمپ پر بھی چھاپے مارے گئے اور کم از کم 8 فلسطینیوں کو حراست میں لیا گیا۔ اسی طرح طولکرم شہر اور اس کے مغربی محلے کے ساتھ عنبتا قصبے پر بھی دھاوا بولا گیا۔

نابلس کے شمالی عصیرہ اور طوباس کے تیاسر گاؤں میں بھی فوجی یلغار کی گئی۔یہ تمام چھاپے مغربی کنارے کے عوام پر قابض اسرائیل کی مسلسل دباؤ بڑھانے اور اجتماعی سزا کی پالیسی کا حصہ ہیں۔

ادھرانسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے غزہ میں منظم قحط اور بھوک کی صہیونی ریاست کی مجرمانہ پالیسی کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ قابض اسرائیل کی مجرم حکومت غزہ میں فلسطینی عوام کو بھوک سے مارنے کی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ظالمانہ پالیسی نافذ کر رہی ہے۔

تازہ ترین شواہد اور چشم دید گواہیوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ غزہ کے نہتے فلسطینیوں کو بھوکا رکھنا قابض اسرائیل کی دانستہ اور منظم پالیسی ہے جس کا مقصد فلسطینی معاشرے کی صحت اور اس کے سماجی ڈھانچے کو تباہ کرنا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ یہ شواہد عالمی برادری کے منہ پر زوردار طمانچہ ہیں جو قابض اسرائیل کو دہائیوں سے سزا سے استثنا دیتی آئی ہے۔ رپورٹ میں زور دیا گیا ہے کہ غزہ کا محاصرہ فوری طور پر اور بغیر کسی شرط کے ختم کیا جائے، مستقل جنگ بندی نافذ کی جائے اور ان تمام سازشوں کو روکا جائے جن کا مقصد فلسطینی سرزمین پر قبضہ مزید مستحکم کرنا یا غزہ پر جارحیت کو بڑھانا ہے۔

مصر کے وزیر اعظم مصطفیٰ مدبولی نے فلسطینی مسئلے کے حوالے سے اپنے ملک کے موقف اور فلسطینی عوام کی جبری نقل مکانی کا مقصد رکھنے والے کسی بھی منصوبے کو مکمل طور پر مسترد کرنے کا اعادہ کیا ہے۔ مصر کے دورے پر آئے ہوئے فلسطینی وزیر اعظم محمد مصطفیٰ کے استقبال کے دوران مدبولی نے زور دیا کہ قاہرہ رفح کراسنگ کے ذریعے غزہ کی پٹی کو ضروری امداد فراہم کرنا جاری رکھے گا۔

یہ کراسنگ چوبیس گھنٹے کام کر رہی ہے۔ مصر مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی دونوں میں فلسطینی علاقوں کی فلسطینی اتھارٹی کی قیادت میں وحدت پر زور دیتا ہے۔مصری حکومت کے سربراہ نے فلسطینی مسئلے کے حوالے سے قاہرہ کے مستحکم موقف اور فلسطینیوں کے ساتھ ان کی آزمائش میں قیادت اور عوام کی ہمدردی کرنے اور غزہ کی پٹی پر جنگ ختم کرنے کے لیے ضروری مدد کی فراہمی کو یقینی بنانے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا۔

مصطفی مدبولی نے زور دیا کہ غزہ کی پٹی میں ابتدائی بحالی اور تعمیر نو کے لیے قاہرہ کانفرنس کے انعقاد سے متعلق تمام تفصیلات کے سلسلے میں مصری اور فلسطینی فریقوں کے درمیان رابطہ اور تعاون کی کوششیں جاری ہیں جس کی میزبانی مصر جنگ بندی کے بعد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

فلسطینی وزیر اعظم نے فلسطینی عوام کے لیے مصری حمایت کے موقف کی تعریف کی اور کہا کہ عرب اسلامی منصوبہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ فلسطینی عوام کی جبری نقل مکانی کے بغیر تعمیر نو ممکن ہے۔

ادھردل دہلا دینے والے مناظر نے اس وقت پوری انسانیت کو جھنجھوڑ دیا جب جبالیہ کے علاقے میں پانی بھرنے کی غرض سے جانے والی ایک ننھی فلسطینی بچی کو قابض اسرائیل کے ڈرون نے بم سے نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔

تصویری مناظر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ بچی چند لمحے پہلے تک زندگی سے بھری حرکت میں تھی مگر پھر اچانک ایک اسرائیلی میزائل نے اسے براہ راست نشانہ بنایا اور اس کی معصوم روح پرواز کر گئی۔ یہ مناظر الجزیرہ ٹی وی نے نشر کیے۔

الجزیرہ کے نامہ نگار مؤمن شْرافی نے بتایا کہ یہ بچی جو بھوک اور پیاس سے نڈھال تھی محض اپنی پیاسی ماں بہنوں کے لیے پانی بھرنے نکلی تھی تاکہ گھر واپس لوٹ سکے مگر قابض اسرائیل کے ڈرون نے اسے اسی وقت شہید کر دیا۔

تقریباً دو برسوں سے اسرائیلی ریاست کی جنگ کا نشانہ بنائی گئی اورمسلسل ناکہ بندی کی شکار غزہ کی پٹی میں اردن نے ایک نیا فیلڈ ہسپتال قائم کیا ہے جس نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔اس فیلڈ ہسپتال میں قحط زدہ غزہ کے فلسطینیوں کو مختلف شعبوں میں علاج کی سہولیات فراہم کی جا سکیں گی۔

متعلقہ اردنی حکام کے مطابق ہسپتال کی طبی ٹیموں نے پوری سرعت کے ساتھ علاج معالجے کے تمام انتظامات کیے ہیں۔دوسری جانب برطانوی سیاست دانوں نے وزیراعظم سے اسرائیل کو اسلحہ کی فروخت بند کرنے کا مطالبہ کر دیا۔

غیرملکی نیوز ایجنسی کے مطابق اسکاٹ لینڈ، ویلز اور شمالی آئرلینڈ کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے وزیراعظم کیئراسٹارمر کو مشترکہ خط لکھ کر مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو اسلحے کی فروخت بند کی جائے۔خط میں کیئر اسٹارمر سے پارلیمنٹ کااجلاس بلانے اور اسرائیل پر پابندیاں لگانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔

سیاستدانوں نے مشترکہ خط میں کہا کہ غزہ میں انسانی المیہ انسانی ساختہ ہے جو روکا جا سکتا ہے خط میں کہا گیا ہے کہ برطانوی وزیراعظم فوری اقدام کر کے اسرائیل کو فوجی کارروائی روکنے پر مجبورکریں۔