17اگست 1988کے دن مرد مومن صدر پاکستان جنرل ضیاء الحق، آئی ایس آئی چیف جنرل اختر عبد الرحمن، 6دیگر اہم جنرل اور 5برگیڈیئر سمیت کئی اہم شخصیات زندگی کی بازی ہار گئی تھیں۔ جنرل ضیاء الحق کے بہت سے ایسے کارنامے ہیں جنہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور پوری پاکستانی قوم احسان مند رہے گی۔ سرِدست صرف ایک واقعہ پڑھیے۔ 1981میں عراق کے ایٹمی ری ایکٹر کو کامیابی سے تباہ کرنے کے بعد اسرائیل کا حوصلہ بہت بڑھ گیا۔ اس نے انڈیا کے ساتھ مل کر پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ دی ایشین ایج کی دو جرنلسٹس کی لکھی ہوئی ایک مشہور کتاب Deception, Pakistan the US and the Global Weapons Conspiracy میں اس سارے واقعے کی کافی تفصیلات موجود ہیں۔ یہ 80کی دہائی کا درمیان عرصہ تھا۔ انڈین گجرات کے جمان گڑھ ائر فیلڈ پر اسرائیلی جہازوں کا ایک اسکواڈرن پاکستان کے کہوٹہ ایٹمی پلانٹ پر حملہ کرنے کیلئے بالکل تیار تھا۔ انہوں نے پاکستان کا ایک بڑا مسافر بردار جہاز گرانے کا ارادہ کیا تھا جو صبح سویرے بحر ہند کے اوپر سے پرواز کرتا ہوا اسلام آباد جانے والا تھا۔ ان کا پلان تھا کہ وہ ایک کومبیٹ یا ٹائٹ گروپ کی شکل میں پرواز کرتے ہوئے پاکستان میں داخل ہوں گے تاکہ پاکستانی ریڈارز کو دھوکا دیا جا سکے اور ریڈار آپریٹرز یہ سمجھیں کہ شاید یہ کوئی ایک ہی بڑا مسافر بردار جہاز ہے۔ پھر وہ کہوٹہ پر بمباری کر کے اس کو تباہ کر دیں گے اور وہاں سے سیدھے جموں کشمیر جاکر ری فیولنگ کریں گے اور نکل جائیں گے۔
کہا جاتا ہے اس منصوبے کی اطلاع جنرل ضیاء الحق کو پاکستان کی کسی روحانی شخصیت نے دی۔ تبلیغی حلقوں میں یہ بات سنی ہے کہ اسی عشرے میں ایک بار تبلیغ کے امیر حاجی عبد الوھاب نے جنرل ضیاء کو خبردار کیا تھا کہ پاکستان کے خلاف فتنہ پیدا کیا جا رہا ہے کچھ کر لو۔ اس کے بعد آئی ایس آئی نے اپنی بھاگ دوڑ تیز کر دی اور بالآخر حملے سے صرف چند گھنٹے پہلے سازش کا سراغ لگا لیا گیا۔ یعنی حملہ صبح 4بجے ہونا تھا اور جنرل ضیاء الحق کو رات 12بجے اطلاع دی گئی۔ جنرل ضیاء الحق نے ساری صورتحال کا تیزی سے جائزہ لیا اور فوری فیصلہ کیا کہ حملے کو روکا نہیں جائے گا بلکہ ناکام بنایا جائے گا تاکہ پاکستان کو جوابی حملے کا جواز مل سکے اور فوراً ہی ایک بھرپور جوابی حملے کا پلان بنایا گیا۔ پاکستانی ائر فورس کے تین دستے تشکیل دئیے گئے۔ پہلے کے ذمے یہ کام تھا کہ وہ اسرائیلی جہازوں کے حملے کو ناکام بنائے اور ان کو مار گرائے، دوسرے دستے کو انڈیا کے بھا بھا نیوکلئیر پلانٹ کو تباہ کرنے کا ٹاسک ملا، جبکہ تیسرے دستے کو نجیو ڈیزرٹ میں موجود اسرائیل کے ڈیمونا نیوکلئیر پلانٹ کو تباہ کرنے ٹاسک دیا گیا لیکن اسرائیل پر حملے میں مسئلہ یہ تھا کہ پاکستانی جہاز وہاں ری فیولنگ نہ کر پاتے اور ان کا گرنا لازمی تھا۔ یعنی واپسی نہیں تھی اور یہ ایک فدائی مشن تھا۔ اس کے لیے 4جوانوں کی ضرورت تھی۔ جب ائیر فورس کے جوانوں سے پوچھا گیا تو 10تیار ہوگئے اور ان میں 4کا انتخاب کرنے کے لیے قرعہ ڈالنا پڑا۔ ہر جوان یہ اعزاز حاصل کرنے کیلئے بے چین تھا۔
کہا جاتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کی عظمت و ہمت، قوت فیصلہ اور جنگی حکمت عملیوں سے خوف زدہ انڈین جنرلز اس حملے کے حق میں نہ تھے اور اس کو خودکشی قرار دے رہے تھے۔ ان کو قائل کرنے میں اسرائیل اور اندارا گاندھی نے بہت محنت کی تھی۔ جنرل ضیاء الحق اور پاکستانی ائیر فورس شدت سے حملے کے منتظر تھے۔ وہ اس کو عالم اسلام کے دو بڑے دشمنوں کو ان کی ایٹمی قوت سے محروم کرنے کا ایک سنہری موقع سمجھ رہے تھے۔ امریکی سیٹلائٹ نے پاکستانی جہازوں کی غیر معمولی نقل و حرکت کو نوٹ کیا اور فوراً اسرائیل اور انڈیا کو آگاہ کیا اور انہوں نے نہایت بھونڈے انداز میں اپنے مشن سے پسپائی اختیار کرلی۔ اس کو چھپایا بھی نہ جا سکا۔ نتیجے میں پوری دنیا میں دونوں کی سبکی ہوئی، تب پاکستان نے اسرائیل کو خبردار کیا کہ نہ پاکستان عراق ہے اور نہ ہی پاکستانی فوج عراقی فوج ہے۔ آئندہ ایسی کسی بھی مہم جوئی کو اسرائیل کے لیے ایک بھیانک خواب میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ اور پھر کیا ہوا؟ یہ روز روشن کی طرح سب پر عیاں ہے۔
جنرل ضیاء الحق مرحوم نے جس طرح اسلام، عالم اسلام، مسلمانوں اور مذہبی رہنمائوں کے لیے کام کیا وہ تاریخ کا سنہرا باب ہے۔ پاکستان کے قانون اور آئین میں موجود شقوں کو اسلامی ریاست کے لیے مضبوط کر ڈالا۔ شریعت کورٹ کا قیام، شرعی قوانین، حدود آرڈی نینس، دینی مدارس کا جال، مذہبی جماعتوں کے لیے پھلنے پھولنے کے مواقع فراہم کرنا، فوج میں امام وخطیب کو صوبیدار کے مساوی کا درجہ دلوانا، مدرسوں کی عالمیہ کی سند کو ایم اے یونیورسٹی کے برابر کا درجہ دلوانا۔ اگر ضیاء الحق یہ نہ کرتے تو آج کوئی مولوی ایوان بالا تک نہ پہنچ پاتا۔ اگر وہ مذہبی جماعتوں اور دینی حلقوں کو چھوٹ نہ دیتے تو آج اسلام کا نفاذ چاہنے والوں کی تعداد 86فیصد نہ ہوتی۔ آج جو پاکستان کا 80فیصد آئین اور قوانین عین اسلامی ہیں، یہ ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاء الحق کی مہربانیوں سے ہے۔ پھر پاکستان کی تاریخ میں ایک اسمبلی ایسی بھی آئی جس میں سب سے زیادہ تعداد مولویوں کی تھی۔ قومی اسمبلی کی تاریخ میں 64علمائے کرام کبھی نہ تھے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ باہم مل کر اسلامائزیشن کو آگے بڑھاتے۔ ہر جگہ اس کی راہ ہموار کرتے۔ خدمت خلق سے عوام کے دل جیتتے۔ اپنے عمل اور کردار سے ثابت کردیتے کہ علما بھی حکومت کر سکتے ہیں۔ وہ بھی عصر حاضر کے تقاضوں سے بخوبی واقف ہیں لیکن یہ حضرات ”اقدام” تو کیا کرتے صحیح معنوں میں”دفاع” بھی نہ کر سکے کہ حدود آرڈیننس کا خاتمہ اسی دور میں ہوا۔
آج اسلامی ادارے خستہ حالی کا شکار ہیں۔ ان کی روح ختم ہوچکی ہے۔ ان کا کوئی والی وارث معلوم نہیں ہوتا۔ شریعت کورٹ کا حال کیا ہے؟ اسلامی نظریاتی کونسل کن لوگوں کے رحم وکرم پر ہے؟ بلوچستان میں قائم ”قضائ” کا سلسلہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ شرعی قوانین میں ترمیم ہو چکی ہے۔ دینی مدارس پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ ہمارا وجدان بتا رہا ہے بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے کئی لوگ بھی اس کا عندیہ اور اشارہ دے چکے ہیں کہ پاکستان کی مذہبی جماعتوں کے لیے پہلا نہیں، آخری موقع ہے۔ پاکستان میں بھی بعض دیگر اسلامی ممالک کی طرح اسلامی قوانین کے خاتمے اور دینی قوتوں کو غیر موثر کرنے کی کوششیں تیز ہوسکتی ہیں، دینی جماعتوں کو آئین کی اسلامی دفعات، ان دفعات کے محافظ آئینی اداروں اورپاکستان کے اسلامی تشخص کے دفاع کے لیے متحد ہوکر اور موثر انداز میں جدوجہد کرنا ہوگی۔