یقین ہے کہ لاہور کے علاوہ برصغیر کا کوئی اور بڑا اور مرکزی شہر نہیں ہے جو ایسی بے مثل تاریخ رکھتا ہو۔ جو اس طرح کبھی ہندو، کبھی مسلم، کبھی سکھ اور کبھی انگریز تہذیبوں سے گزرا ہو۔ محمود غزنوی سے قبل لاہور کی ساری تاریخ ہندو حکمرانی کی ہے۔ پھر مسلمان، پھر سکھ اور پھر انگریز۔ ہے کوئی شہر صدیوں تک ان سب تہذیبوں کے نشان جس کے جسم پر ثبت ہوتے رہے ہوں؟ مجھے تو کوئی اور شہر یاد نہیں آتا۔ آگرہ اور دہلی بھی نہیں۔ دہلی اپنی تاریخ میں بے مثال ہے اور برصغیر میں نمایاں ترین لیکن وہاں سکھ حکمرانی کبھی نہیں رہی۔ سکھ یادگاریں اور گردوارے ضرور ہیں۔ بہت قدیم زمانے کی بات نہیں لیکن سلاطین دہلی سے 1947ء تک ہیموں بقال کے چند سالہ دور کے علاوہ ہندو دہلی پرحکمران نہیں رہے۔
مرہٹوں نے 1771ء میں روہیلوں سے دہلی چھین تو لیا لیکن انہوں نے بھی تخت پر شاہ عالم ثانی ہی کو بطور حکمران بٹھایا۔ آگرہ سمیت دیگر مرکزی شہروں کی تاریخ بھی پڑھ لیجیے، کوئی تاریخ لاہور جیسی متنوع نہیں ملے گی۔ میں بھی اسی ہمہ رنگ، ہمہ جہت شہر میں پیدا ہوا۔ یہیں کی ہوا نے میری رگوں میں رقص کیا، اسی کے پانی نے میرے لہو میں گردش کی اور اسی کی مہک اس طرح سانس میں بسی ہے کہ کہیں بھی جائوں، لاہور دل میں دھڑکتا رہتا ہے۔ عرب شاعر نے کہا تھا:
بلاد بھا حل الشباب تمیمتی
و اول ارض مس جلدی ترابھا
(یہی وہ شہر ہے جس میں جوانی نے میرے تعویذ کھولے اور یہی پہلی مٹی ہے جس کا لمس میرے جسم نے محسوس کیا۔)
لیکن جدید لاہور، جس کا دور انگریزوں کے تخت لاہور پر قبضے (1849ئ) سے شروع ہوتا ہے، قدیم اور فصیل میں محصور شہر سے الگ ایک تاریخ رکھتا ہے۔ آپ دو ادوار کے انہیں دو الگ الگ شہر سمجھ لیجیے۔ قدیم دروازوں کے اندر شہر کی اپنی خوبصورتی اور اپنی تہذیب ہے جو آج بھی بہت کچھ بدل جانے کے باوجود موجود ہے۔ ایک زمانہ ہوگیا یہ سوچتے ہوئے کہ تسلی سے وقت نکال کر فصیل کے اندر کا شہر ایک بار پھر دیکھنا ہے۔ جسے بہت بار دیکھا لیکن دل نہیں بھرا۔ جہاں آج بھی گلیاں جاگتی اور دریچے آباد ہیں۔ جہاں ایک گھر میں پکتے کھانوں کی خوشبو بلااجازت دوسرے گھر میں اس طرح داخل ہوتی ہے جیسے ان گلیوں کے مکین بے تکلفی سے گھروں میں آتے جاتے ہیں۔ جہاں سویرے نان بائی تنور سے سنہرے نان، تلوں والے کلچے اورگندمی روٹیاں نکالتے ہیں تو ان کی مہک بتاتی ہے کہ شہر بیدار ہو چکا ہے۔ سہ پہر کے بعد دکانوں، چوباروں اور تھڑوں کی رونقیں دوبالا ہوجاتی ہیں۔ پھر رات جوان ہونے کے ساتھ ساتھ انگاروں پر سنکتی بوٹیوں اور کبابوں کی اشتہا انگیز اور جان لیوا مہکار ہوا کا لازمی جزو بن جاتی ہے اور سماواروں میں کھولتی چائے کی خوشبو سے گلیاں بھر جاتی ہیں۔
ہندو، مسلم اور سکھ تہذیب، تینوں کی توجہ کا مرکز فصیل کے اندر کا شہر رہا۔ قلعہ ان کا حکومتی گڑھ تھا۔ شہر کے باہر ان کے باغات ضرور تھے لیکن وہ حملہ آور لشکروں کی دسترس سے باہر نہیں تھے۔ ان کی پناہ شہرِ پناہ کے اندر ہی تھی۔ چنانچہ باہر ایک نیا شہر بسانے کی کوشش نظر نہیں آتی۔ ہم مسلمانوں کی زیادہ وابستگی مسلم حکمرانوں سے رہی، خاص طور پر مغل بادشاہوں سے، لیکن اب تاریخ کو بار بار پڑھنے کے بعد ذہن میں ایسے سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کا جواب آسان نہیں، مثلاً یہ کہ مسلمانوں نے گیارہویں صدی سے انیسویں صدی تک سینکڑوں سال لاہور پر حکمرانی کی، سکھ لگ بھگ سو سال تختِ لاہور پر بیٹھے۔ ان دونوں تہذیبوں کے کون سے ایسے فلاحی اور رفاہی کارنامے تھے جو آج تک اپنا فیض جاری رکھے ہوئے ہیں؟ سڑکیں؟ شفا خانے؟ بڑے تعلیمی ادارے؟ کتب خانے؟ کنویں؟ عبادت گاہیں؟ مسجدوں اور گردواروں کے علاوہ کوئی اور ایسا کارنامہ نظر نہیں آئے گا جسے فلاحی کاموں کے ذیل میں گنا جا سکے۔ کنوئوں اور سرائوں کے نام ونشان تک مٹ چکے۔ ان کے کھاتے میں شیرشاہ سوری کی بنائی ہوئی جرنیلی سڑک (جی ٹی روڈ) جیسا ایک بھی کام نہیں ملے گا، جس پر آج بھی مسافر سفر کرتے ہوں۔ اور یہ عظیم سڑ ک خود بتاتی ہے کہ اگر کوئی ایسا کام کیا جائے تو وہ صدیوں بعد بھی فیض جاری رکھتا ہے۔ مغلوں میں صرف اورنگزیب عالمگیر کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے ذاتی محلات اور مقبرے سمیت اپنی ذات پر کچھ خرچ نہ کیا۔ علمی کام بھی اس کے حصے میں ہیں لیکن فلاحی کام اگر تھے بھی تو ختم ہو چکے۔ بعد کے زمانوں میں گنگارام، گلاب دیوی، دیال سنگھ، لیڈی ایچی سن، لیڈی ولنگٹن کے ناموں سے منسوب اسپتال، کتب خانے، تعلیمی ادارے وغیرہ آج بھی اپنا فیض پھیلا رہے ہیں۔ مساجدکے علاوہ مغلوں کی جو تعمیرات ملیں گی، وہ ان کی ذاتی تھیں اور شالامار، شیش محل، مقبروں اور بارہ دریوں تک محدود ہیں۔ ان میں کوئی عام آدمی پر بھی نہیں مار سکتا تھا۔
انگریزوں نے لاہور سنبھالا تو انہوں نے قدیم شہر سے الگ ایک شہر بسانے کی ٹھانی۔ ویسے بھی پرانے شہر میں توسیع کی گنجائش زیادہ نہ تھی اور زمانہ بدل چکا تھا۔ گورے پراعتماد تھے کہ انہیں فصیل کی حفاظت درکار نہیں۔ انگریزوں کا توسیع شدہ لاہور الگ خدوخال رکھتا ہے۔ یہ نو آبادی دور کا شہر برطانوی طرز کی عمارات، گرجوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور برطانوی ناموں سے سجایا گیا۔ موجودہ لاہور کی مرکزی سڑک مال روڈ ہے جو اب شاہراہِ قائداعظم کہلاتی ہے اور شروع سے آخر تک برطانوی دور کی سب سے بڑی یادگار ہے۔ ٹائون ہال سے شروع ہو جائیں، پنجاب یونیورسٹی، عجائب گھر، ٹولنٹن مارکیٹ، جی پی او، قدیم اسٹیٹ بینک بلڈنگ، ہائیکورٹ بلڈنگ، ای پلومر بلڈنگ، سیکرڈ ہارٹ کیتھڈرل سے ہوکر گزرتے جائیے اور دائیں بائیں عمارتیں اور سڑکیں دیکھتے جائیے۔ چیئرنگ کراس تک، جو اب فیصل چوک ہے، لاتعداد عمارتیں اسی دور کے رخسار ولب لیے کھڑی ہیں۔ لارنس گارڈن سے آگے اور پھر اَپر مال میں ایچی سن کالج تک کوئی عمارت انگریز خدوخال سے باہر نہیں۔
میں خود سے پوچھتا ہوں کہ ہم کس لاہور میں رہتے ہیں؟ فصیل کے اندر سانولے شہر میں یا گورے شہر میں؟ دروازوں کے اندر کا شہر گاڑی میں گھومنا ممکن نہیں لیکن گورے شہر میں تو ممکن ہے۔ یہ ٹھان کر میں مال روڈ کے اپنے دفتر سے نکلتا ہوں اور ریگل کا رخ کرتا ہوں، ہائیکورٹ کے پہلو میں میرے دائیں طرف فین روڈ ہے، اس سے ایک چھوٹی سڑک ٹرنر روڈ جڑ جاتی ہے۔ ریگل چوک پر میرے بائیں طرف ہال روڈ اور اس کے ساتھ بیڈن روڈ ہے۔ میں اس گنجان بازار سے گزار کر کوپر روڈ پر آتا ہوں، یہاں سے میکلوڈ روڈ کی بڑی سڑک مجھے ملتی ہے۔ لکشمی چوک پر دائیں طرف ایبٹ روڈ ہے۔ آگے سامنے نکلسن روڈ ہے۔ یہاں سے میں میو روڈ کی طرف جاتا ہوں جسے اب علامہ اقبال روڈ کہتے ہیں۔ میں ڈیوس روڈ پر شملہ پہاڑی آتا ہوں۔ بائیں ہاتھ ایجرٹن روڈ ہے۔ پھر ایمپریس روڈ سے ہوتا ہوا برٹش دور کی یادگار لاہور ریلوے اسٹیشن تک پہنچتا ہوں۔ یہ سب سڑکیں گورے لاہور کی ہیں۔ اس آوارہ گردی میں مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ میں سانولے لاہور کا نہیں، گورے لاہور کا باشندہ ہوں کیونکہ میرے کاروبار سے لے کر میری اکثر سرگرمیاں، سب اسی علاقے میں ہیں۔ یہ تو چند نام ہیں، بیشمار نام اور بھی ہیں۔ یہ کون لوگ تھے جن کے نام میں اتنی روانی اور اتنی آسانی سے لے رہا ہوں۔ سر گنگا رام، دیال سنگھ مجیٹھیا اور رائے بہادر سجن سنگھ تو خیر اسی مٹی کی پیداوار تھے، یہ لیڈی مکلیگن، لیڈی ایچی سن، لیڈی فرانسسکا ولسن، لیڈی ہیلن ونسنٹ، لیڈی ایلجن اور لیڈی رابرٹس کون تھیں؟ یہ کون لوگ تھے، کیا زندگی جیے اور اب ان کی نسلیں کہاں ہیں جن کے نام کی سڑکوں پر ہم دندناتے پھرتے ہیں، جن کے ناموں کی عمارتوں میں ہم دفتر سجا کر بیٹھے ہیں، جن کے بنائے اسپتالوں میں ہم علاج کے لیے پہنچتے ہیں اور ایک لمحے کے لیے بھی ان کے بنانے والوں کا خیال تک نہیں آتا۔ آج میرے دل میں انہیں جاننے کی خواہش ہے اور شدید ہے۔ (جاری ہے)