14اگست 1947ء کو ہم نے انگریزوں کی غلامی سے آزادی حاصل کی تھی اور پاکستان کے نام سے ایک نئی ریاست بھی قائم ہوئی تھی۔ تو 14اگست کو پورے ملک میں اور دنیا میں جہاں جہاں پاکستانی رہتے ہیں، خوشی کا دن مناتے ہیں۔ یہ آزادی کیا ہے، قوموں کی آزادی کیا ہوتی ہے، اس کے تقاضے کیا ہوتے ہیں، اسلام کیا کہتا ہے، قرآن پاک کیا کہتا ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ کیا کہتی ہے، اس بات کو سامنے رکھ کر چند باتیں عرض کروں گا۔
قرآن پاک نے ایک تحریکِ آزادی کا ذکر کیا ہے؛ بہت سی ذکر کی ہیں لیکن ان میں ایک بطور خاص؛ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما الصلوٰة والسلام دونوں بھائیوں کو اللہ پاک نے نبوت دی تھی، کتاب دی تھی اور بنی اسرائیل کی طرف نبی بنا کر بھیجا تھا۔ وہ نبی تھے، رسول تھے، لیکن ان کی پہلی ڈیوٹی کیا تھی؟ کوہِ طور پر جب موسیٰ علیہ السلام کو نبوت ملی، اور موسیٰ علیہ السلام کی درخواست پر بھائی ہارون علیہ السلام کو شریک کیا گیا، ”اذھبا الیٰ فرعون انہی طغیٰ” (طہ:٤٣) بحیثیت نبی، بحیثیت رسول ان کا پہلا کام کیا تھا؟ فرمایا، دونوں بھائی جاؤ فرعون کے پاس، وہ سرکش ہو گیا ہے، اسے جا کر میرا میسج دو۔
رسول اپنی بات کرتا ہے یا اللہ تعالیٰ کا پیغام دیتا ہے؟ پیغام دیتا ہے۔ اسے جا کر میری طرف سے پیغام دو: پہلی بات یہ ہے کہ سرکشی چھوڑ دے، اللہ کی بات ماننے پر آجائے؛ اور دوسری بات یہ کہ ہم اپنی قوم کی آزادی کے لیے آئے ہیں ”فارسل معنا بنی اسرآئیل ولا تعذبھم” (طہ:٧ ٤)۔ یہ پہلا میسج تھا کہ دونوں بھائی جاؤ۔ ”فقولا لہ قولاً لینا لعلہ یتذکر او یخشیٰ” (طہ :٤٤)۔ میں ساری تفصیلات چھوڑ رہا ہوں۔ پیغام کیا تھا کہ بنی اسرائیل کو، ہماری قوم کو آزاد کرو، عذاب نہ دو، غلامی عذاب ہے، ان کو آزاد کرو، ہم یہ وطن چھوڑنا چاہتے ہیں، ہم فلسطین جائیں گے۔ یہ اللہ رب العزت نے موسیٰ علیہ السلام کو قوم کے نام پہلا پیغام دیا کہ ہم قوم کی آزادی کے لیے آئے ہیں۔
بنی اسرائیل مصر میں آئے کب تھے؟ یوسف علیہ السلام کا واقعہ پڑھا ہوا ہے نا؟ یوسف علیہ السلام غلام بن کر آئے تھے، پھر آزادی ملی تھی، پھر وزارت ملی تھی، پھر بادشاہی ملی تھی، پھر خاندان میں بادشاہت چلی تھی، پھر چھن گئی تھی۔ تو مصر میں بنی اسرائیل کی بادشاہت کب شروع ہوئی تھی؟ حضرت یوسف علیہ الصلوٰة والسلام سے۔ چلتے چلتے جو ہوتا ہے پھر کہ آلِ فرعون نے قبضہ کر لیا، اِن کو غلام بنا لیا۔ اسے موسیٰ علیہ السلام کہہ رہے ہیں ”لاتعذبھم” بنی اسرائیل کو آزاد کرو، ہم واپس اپنے وطن جائیں گے، ان کو غلامی کے عذاب سے نجات دو۔
حضرت موسٰی اور ہارون علیہما السلام کے مشن کا پہلا حصہ کیا تھا؟ قوم کی آزادی۔ توراة آزادی کے بعد ملی ہے۔ شریعت کے احکام آزاد ہونے کے بعد ملے ہیں۔ پہلا ٹارگٹ یہی تھا کہ آزاد ہونا ہے۔ اس پر قرآن پاک نے بڑا دلچسپ مکالمہ ذکر کیا ہے فرعون کا اور موسیٰ علیہ السلام کا۔ موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام مَدیَن سے آئے تھے۔ جب گئے تھے تو کون سے گھر سے گئے تھے؟ فرعون کے گھر سے۔ موسیٰ علیہ السلام کی پرورش کہاں ہوئی تھی؟ فرعون کے گھر میں۔ وہ واقعہ بھی پورا ذہن میں لے آئیں۔ وقت نہیں ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کو پالا کس نے تھا؟ ”امرٔة فرعون” (القصص ٩) فرعون کی اہلیہ محترمہ نے، رضی اللہ عنہا۔ فرعون کے گھر میں پلے تھے، پھر چلے گئے تھے۔ دس سال کے بعد آئے۔ اب وہ کھڑے ہیں سامنے اور کیا کر رہے ہیں؟ آزادی مانگ رہے ہیں۔ فرعون نے کیا کہا، اس کا پہلا جواب کیا تھا؟ ”الم نربک فینا ولیدا ولبثت فینا من عمرک سنین۔ وفعلت فعلتک التی فعلت وانت من الکافرین” (الشعرائ:١٨، ١٩) اور تجھے ہم نے نہیں پالا، ہمارے گھر میں نہیں پلے تم، تم بچے تھے، تمہیں پالا کس نے تھا؟ ہم نے پالا تھا، کتنے سال ہمارے گھر میں گزارے ہیں۔ آج کے چودھریوں کی زبان میں: کتنے سال ہمارے ٹکروں پر پلے ہو، کتنے سال ہمارے گھر میں رہے ہو۔ ”وفعلت فعلتک التی فعلت” اور جاتے ہوئے بندہ بھی مار گئے تھے، قاتل بھی ہو، اب آزادی کے لیے آ گئے ہو؟
یہ باتیں کس نے کیں؟ فرعون نے۔ موسیٰ علیہ السلام نے کیا خوبصورت جواب دیا۔ ایک جملہ ہے۔ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آزادی کیا ہے۔ ”تلک نعمة تمنھا علیّ ان عبدت بنی اسرائیل” (الشعرائ: ٢٢) کیا احسانات جتا رہے ہو، میری قوم کو غلام بنا رکھا ہے، یہی تمہارا احسان ہے؟ چار روٹیاں کھلا کر سر پہ چڑھ گئے ہو؟ چار دن روٹیاں کھلا کر میری قوم کو غلام بنا رکھا ہے، یہ تمہارا احسان ہے؟ میں نہیں مانتا، جاؤ۔ میں قوم کو لے کر جاؤں گا۔ اور پھر لے کر گئے یا نہیں گئے؟ لمبی بات ہے۔ نتیجہ کیا نکلا تھا؟ جس دن موسٰی علیہ السلام نے اپنی قوم کو لے کر بحیرہ قلزم سمندر پار کیا ہے۔ دیکھیں، اللہ کا ضابطہ کیا ہے۔ جب قومیں اپنے عزم پر ڈٹ جاتی ہیں تو سمندر بھی راستے دیتے ہیں، کہ ہم نے آزاد ہونا ہے۔ سمندر پھاڑا اللہ نے، لیکن اس عزم پر پھاڑا ہے نا۔ جب قومیں کسی مشن پہ کسی مقصد پہ اڑ جاتی ہیں تو سمندر بھی راستے دیتے ہیں۔ دیتے ہیں یا نہیں دیتے؟ ”اضرب بعصاک البحر فانفلق فکان کل فرق کالطود العظیم” (الشعرائ:٦٣)۔
اس دن فرعون لشکر سمیت غرق ہو گیا۔ اللہ پاک نے آزادی دی۔ وہ آزادی کا دن بنی اسرائیل تو مناتے ہی تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کے ساتھ ہم آہنگی فرمائی۔ بخاری شریف کی روایت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے ہجرت کر کے، یہودی وہاں زیادہ تھے، دس محرم کو روزہ رکھا کرتے تھے۔ کیوں بھئی؟ یہ شکرانے کا روزہ ہے۔ کس وجہ سے؟ آج ہمارا یومِ آزادی ہے، اس دن اللہ پاک نے فرعون کو غرق کیا تھا، ہمیں سمندر پار کروایا تھا، یہ ہمارا یومِ آزادی ہے۔ حضورۖ نے کیا جملہ فرمایا؟ ”نحن احق بموسیٰ منکم” موسٰی کے ساتھ ہمارا تعلق تم سے زیادہ ہے، یہ شکرانے کے روزے ہم بھی رکھیں گے۔
تو یہ میں نے آزادی کی بات کی ہے، قرآن پاک نے آزادی کا کس لہجے میں ذکر کیا ہے کہ آزادی قوموں کا حق ہوتی ہے، دین کا تقاضا ہوتی ہے۔ اور ایک اشارہ میں نے کیا ہے کہ دین نافذ کرنے سے پہلے آزادی ضروری ہوتی ہے۔ احکام بعد میں نافذ ہوتے ہیں، آزادی پہلے ہوتی ہے۔ تورات بعد میں ملی ہے، پہلے آزادی لی ہے۔ قوموں کا پہلا کام کیا ہوتا ہے؟ آزادی حاصل کرنا۔ یہ مغالطہ ہوتا ہے کہ یہ سیاسی باتیں ہیں۔ نہیں نہیں، یہ قرآن پاک کی باتیں ہیں۔ آزادی کی بات کرنا، آزادی کے حصول کی بات کرنا، آزادی کے تحفظ کی بات کرنا؛ یہ سیاسی باتیں ہیں یا دینی باتیں ہیں؟ یہ پیغمبر کا مشن ہے اور قرآن پاک نے ذکر کیا ہے۔
اس پس منظر میں، جب انگریزوں نے یہاں قبضہ کر لیا تھا۔ لمبی تاریخ میں جاؤں گا تو لمبا قصہ ہو جائے گا۔ یہ ایک ہی ملک ہوتا تھا: پاکستان، انڈیا، بنگلہ دیش، اور برما بھی ساتھ تھا۔ مسلمان حکمران تھے، مغلوں کی حکومت تھی۔ ہزار سال کے لگ بھگ مسلمانوں نے حکومت کی ہے۔ پھر انگریزوں نے ہم سے چھین لی تھی۔ جب قومیں نااہل ہو جاتی ہیں تو دشمن غالب آجاتے ہیں۔ وہ تاریخ بھی چھوڑیں۔ انگریزوں نے یہاں قبضے کا آغاز کیا تھا 1857ء میں۔ انگریزوں نے سراج الدولہ کو شہید کر کے بنگال پہ قبضہ کیا تھا۔ سراج الدولہ وہاں کے حکمران تھے۔ ہماری آزادی کی پہلی جنگ سراج الدولہ کی ہے۔ دوسری ٹیپو سلطان نے لڑی تھی۔ تیسری شہدائے بالاکوٹ کی ہے۔ چوتھی بنگال کے حاجی شریعت اللہ کی اور تیتو میر کی ہے۔ پھر سندھ کے پیر آف پگاڑا کی ہے۔ سرحد کے فقیر ایپی کی ہے۔ حاجی صاحب ترنگزئی کی ہے۔ پنجاب کے سردار احمد خان کھرل کی ہے (رحمہم اللہ تعالیٰ)۔
فیصل آباد میں بیٹھا ہوں، یہاں جب آتے ہیں تو ستیانہ روڈ کے درمیان میں ایک چوک پر لکھا ہے ”احمد خان کھرل شہید چوک”۔ میں نے کئی حضرات سے پوچھا یہ کون ہے؟ پتہ نہیں کون ہے یہ۔ سردار احمد خان کھرل شہید، جس نے انگریزوں سے جنگ لڑی۔ بڑی لمبی تاریخ ہے۔ یہاں پنجاب میں انگریزوں کا مقابلہ کس نے کیا ہے؟ سردار احمد خان کھرل نے اور کافی عرصہ سامنے کھڑا رہا ہے۔ اس کو دھوکے سے مار دیا تھا۔ میں نے چند ہیروؤں کے نام لیے ہیں۔ (جاری ہے)