گزشتہ سے پیوستہ:
پاکستان کے لیے سرِ دست امریکا کے ساتھ خوشگوار تعلقات اطمینان بخش ہیں، لیکن وہ تنی ہوئی رسی پر چل رہا ہے، کیونکہ دو بڑی حریف طاقتوں کو پوری طرح مطمئن کرنا اور راضی رکھنا آسان نہیں ہے، جبکہ دونوں کے مفادات ایک دوسرے کی ضد ہیں اور ہر فریق دوسرے پر برتری حاصل کرنے اور اسے نیچا دکھانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ چینی امریکیوں کی طرح عجلت میں اپنا ردِّعمل ظاہر نہیں کرتے، بلکہ صبر اور حوصلے کے ساتھ پسِ پردہ سفارت کاری کو ترجیح دیتے ہیں، اسے ہمارے ہاں ”گہرا اور کائیاں” کہتے ہیں، مزید یہ کہ پاکستان چین کی ناراضی مول نہیں لے سکتا۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کو اس نزاکت کا احساس ہے، اس لیے وہ امریکی صدر سے مل کر آنے کے بعد چینی قیادت کو مطمئن کرنے کے لیے چین بھی گئے ہیں، وہ کس حد تک مطمئن ہوئے ہیں، اس کا ہمیں اندازہ نہیں ہے۔ اپنے دفاع کے لیے پاکستان کا زیادہ انحصار چینی اسلحے پر ہے، کیونکہ امریکی اسلحہ بہت مہنگا ہے اور امریکا اسلحہ دے کر مختلف قسم کی پابندیاں بھی عائد کرتا ہے، مثلاً ہمارے پاس امریکی ایف سولہ جنگی جہاز ہیں، مگر انھیں بھارت کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
الغرض ٹرمپ پوری دنیا کے لیے ایک عجوبہ ہے، پہیلی ہے، مشکل مضمون ہے، بلکہ ابوالعجائب ہے۔ ٹرمپ دورِ جاہلی کے عربی شاعر امرؤالقیس کے گھوڑے کی طرح ہے، اِمرَؤالقیس اس کی تعریف میں کہتا ہے:
مِکَرٍّ مِفَرٍّ مُقْبِلٍ مُدْبِرٍ مَعاً
کَجُلْمُوْدِ صَخْرٍ حَطّہُ السَّیْلُ مِنْ عَل
ترجمہ: میرا گھوڑا جنگ کے دوران صورتحال کی مناسبت سے کبھی موقع دیکھ کر آگے بڑھ کر حملہ کرتا ہے اور کبھی موقع کی نزاکت دیکھ کر پیچھے ہٹ جاتا ہے، الغرض وہ دشمن کے مقابل پیش قدمی بھی کرتا ہے اور جنگی حکمت عملی کے تحت پیچھے بھی ہٹ جاتا ہے، یعنی وہ اتنا ذہین اور ہوشیار ہے کہ موقع کی مناسبت سے جنگی تدبیریں اختیار کرتا ہے، اُس کی مثال اُس بڑی چٹان کی ہے جسے سیلاب نے بلندی سے گرا دیا ہو۔ اس شعر میں اِمرَؤالقیس یہ کہنا چاہتا ہے: اُس کا گھوڑا اپنے سوار کے اشارے یا نیت کو سمجھتا ہے، وہ اپنی قوت اور ارادے کو مجتمع رکھتا ہے، حاضر دماغ رہتا ہے، جنگ کی ہولناکی سے وہ مخبوطُ الحواس نہیں ہوتا، وہ موقع کی مناسبت سے حکمتِ عملی اختیار کرتا ہے اور جب دشمن پر حملہ آور ہوتا ہے تو اُس کے حملے میں اتنی طاقت ہوتی ہے، جیسے تندوتیز سیلاب نے کسی چٹان کو بلندی سے گرا دیا ہو، وہ چٹان جب اوپر سے نیچے کی طرف آ تی ہے تو پہاڑ پر یا دیگر چٹانوں پرٹپے کھاکر پہیے کی طرح گھوم رہی ہوتی ہے اور طاقت اور مضبوطی کے ساتھ آگے بھی بڑھ رہی ہوتی ہے۔ خان صاحب نے اسی کو یوٹرن سے تعبیر کیا تھا اور ٹرمپ بھی یوٹرن کے ماہر ہیں، حالیہ دور میں انھوں نے” ٹیرف” پر اتنے یوٹرن لیے ہیں کہ لوگوں کو یقین نہیں کہ آئندہ وہ کیا پالیسی اختیار کریں گے۔ نیز انھیں اس کی بھی پروا نہیں کہ ایک سپر پاور کے سربراہ کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے، انھوں نے امریکا میں پہلی مرتبہ ٹویٹ پر سرکاری احکامات جاری کرنے، اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کے تقرر اور برطرفی کے فیصلے صادر کرنے اور عواقب کی پروا کیے بغیر ردِّ عمل دینے کا شعار رائج کیا، اس پر خود امریکی بھی حیران ہیں، مگر ٹرمپ بھی امریکا کے ایک طبقے کے محبوب ومقبول رہنما ہیں اور مشہور محاورے کے مطابق محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہوتا ہے۔ ہمیں لگتا ہے ٹرمپ کے لئے درآمدی ٹیرف بھاری پتھر ثابت ہوگا، کیونکہ آخرِکار اس کا بوجھ امریکی صارفین پر پڑے گا اور ٹرمپ کو ایک بار پھر پالیسی بدلنا پڑے گی۔
ٹرمپ کی شخصیت اور کردار کا تضاد یہ ہے کہ ایک طرف وہ دنیا کے مختلف خطوں کے متنازع فریقوں میں جنگ بندی کراکے اس کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں اور امن کا علمبردار بننا چاہتے ہیں، مگر دوسری طرف وہ غزہ اور فلسطین میں اسرائیل کے حامی اور پشتیبان ہیں، جہاں حالیہ انسانی تاریخ کے سب سے بڑے مظالم برپا ہیں۔ اسرائیلی وزیرِ اعظم نتن یاہو نے مظلوم انسانیت پر ظلم ڈھانے میں ماضی کے فرعونوں اور نمرودوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ غزہ ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے، غزہ انتظامیہ کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق تقریبا پون لاکھ افراد شہید ہو چکے ہیں، لاکھوں زخمی، بیمار اور معذور ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگ بھوک، پیاس، دوائوں اور علاج کے لیے ترس ترس کر موت سے ہمکنار ہو رہے ہیں۔ خوراک حاصل کرنے کے لیے بھوکے فلسطینی جب خالی برتن پکڑ کر دھکم پیل کرتے ہیں تو ان مناظر کو دیکھ کر ہر باضمیر انسان کا کلیجہ شق ہوتا ہے، لیکن اسرائیل کے پشتیبانوں پر اس کا کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا۔ لوگ کھلے میدان میں خوراک حاصل کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں تو اُن پر فضا سے بمباری کر دی جاتی ہے، روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں افراد شہید ہو رہے ہیں۔ لیکن یہاں ٹرمپ کو امن کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی، بلکہ وہ اس عہد کے دجّال اسرائیلی وزیرِ اعظم کو شہہ دے رہے ہیں، کبھی فلسطینیوں کو غزہ خالی کرنے کا مشورہ دیتے ہیں کہ انھیں منتشر کر کے مختلف علاقوں میں آباد کر دیا جائے گا۔
یورپی ممالک بھی نیٹو میں امریکا کے زیرِ اثر ہیں، وہ اگرچہ بظاہر مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کرتے ہیں، اسرائیلی پالیسیوں کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں، فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی بات کرتے ہیں، لیکن عملاً اُن کا کوئی اِقدام نظر نہیں آتا۔ جب حقِ وطن، حقوقِ انسانیت، حقوقِ نسواں اور حقوقِ اطفال کو بڑے پیمانے پر پامال ہوتا دیکھ کر مغربی ممالک کے عوام میں ہمدردی کی ایک لہر پیدا ہوتی ہے، احتجاج اور مظاہرے ہوتے ہیں، تو اُن کی حکومتیں اپنے اوپر دبائو کو کم کرنے کے لیے بیان دے دیتی ہیں، لیکن اُن کا کوئی اثر مرتب ہوتا ہے اور نہ کوئی عملی اِقدام سامنے آتا ہے۔ مسلم ممالک کے حکمرانوں کی حالت اور ردِّعمل اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہے، 57مسلم ممالک سے اب تک قراردادوں اور زبانی مطالبات کے سوا کچھ برآمد نہیں ہوا، نہ کوئی عملی اقدام کیا ہے اور مطالبہ بھی اُن سے کیا جاتا ہے جو ان مظالم کے ذمے دار ہیں، میر تقی میر نے کہا تھا:
میر کیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
امیر ترین عرب ممالک نے بھی اب تک مظلوم فلسطینیوں کی مدد، بحالی اور بچائو کے لیے کوئی عملی منصوبہ نہیں بنایا، جبکہ اس انتہائی اندوہناک، کربناک اور اذیت ناک صورتِ حال میں بھی ٹرمپ اپنے ”معاہدۂ ابراہیمی” کے لیے سرگرمِ عمل ہے تاکہ اسرائیل کو پورے عالَمِ عرب اور بالآخر پورے عالَمِ اسلام میں نفوذ کا موقع مل سکے۔ پاکستان جیسے ممالک میں عوامی سطح پر جلسے، جلوس اور ریلیاں اپنے غصے، جذبات اور اہلِ فلسطین سے ہمدردی کا اظہار تو ہیں، لیکن دنیا اس کا اثر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ حماس کو دل سے عرب ممالک بھی قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، اُن کا اندیشہ یہ ہے کہ اگر غزہ اور فلسطین میں انھیں کامیابی مل گئی تو پھر اُن کے ہاں بھی ایسی تحریکات ابھر سکتی ہیں۔
ٹرمپ نے آذربائیجان اور آرمینیا میں صلح کرانے کے موقع پر دونوں کی سرحدوں پر واقع آرمینیا کے علاقے ”زنگی زُور راہداری” کو ننانوے سال کے پٹے پر لے لیا ہے کہ وہ اسے ترقی دے گا، امریکی صدر نے اسے TRIPPیعنی ”ٹرمپ راہداری برائے عالمی امن وخوشحالی” کا نام دیا ہے۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ علاقہ ٹرمپ نے ایران، روس اور پورے خطے پر نظر رکھنے اور اڈے بنانے کے لیے لیا ہے۔ اس سے ایران کے اُس جانب آزادانہ زمینی روابط ختم ہو جائیں گے۔ پس واضح ہے کہ ٹرمپ کا یہ اقدام چین کے بِلٹ اینڈ روڈ انیشیٹیو (BRI)کے جواب میں کیا جارہا ہے، پہلے چین نے اسے ”ون بیلٹ ون روڈ” کا نام دیا تھا، لیکن بعد میں اسے BRIکا نام دیا گیا ہے اور اس کا مقصد ایشیائ، یورپ، افریقہ اور لاطینی امریکا کے ممالک کو بنیادی ڈھانچے، تجارت اور اقتصادی رابطوں کے ذریعے جوڑنا ہے۔ یہ منصوبہ دو حصوں پر مشتمل ہے:سلک روڈ اکنامک بیلٹ یعنی موٹرویز کا جال اور 21ویں صدی کی میری ٹائم سلک روڈ یعنی سمندری راستوں کو عالمی سطح پر مربوط کرنا ہے۔ چین فوجی تصادم میں الجھے بغیر خاموشی سے اپنی طے شدہ منزل کی طرف رواں دواں ہے۔