ہمارے یہاں متحدہ عرب امارات میں بہت اہم موضوعات پر جمعے کا خطبہ تیار کیا جاتا ہے۔ اس بار جمعہ کے خطبے کا عنوان تھا: ”لوگ انتہا پسند کیوں بنتے ہیں؟” وطن عزیز پاکستان میں چونکہ یہ وبا بڑی شدت سے پھیلی ہوئی ہے اس لیے ہم آج کے کالم میں اسی موضوع پر کچھ عرض کرنا چاہیں گے۔
عربی زبان میں انتہا پسندی کو”تطرُّف” کہا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ امور کو صرف ان کے ظاہری اطراف سے تھاما جائے، لہٰذا ایک انتہا پسند شخص دین کی تعلیمات کو ان کے ظاہری پہلوؤں سے پکڑ لیتا ہے، اس کی وسعت اور اعتدال سے ہٹ جاتا ہے، اس کے اصل معنی و مفہوم سے انحراف کرتا ہے اور اپنی فکر و عمل میں، قول و فعل میں دین کی جامع تعلیمات اور مقاصد سے منہ موڑ لیتا ہے، چاہے یہ اِفراط کی صورت میں ہو یا پھر تفریط کی صورت میں۔ یہ اتنا خطرناک مرض ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لگاتار تین بار ارشاد فرمایا: خبردارغلو کرنے والے ہلاک ہوگئے، خبردارغلو کرنے والے ہلاک ہوگئے، خبردارغلو کرنے والے ہلاک ہوگئے۔
پاکستان آج جس بڑے فکری اور معاشرتی خطرے سے دوچار ہے، وہ انتہاپسندی کی وہ لہر ہے جو ہر طبقے اور ہر نظریے میں جڑ پکڑ چکی ہے۔ ہم نے اس مرض کو محض مذہبی گروہوں سے جوڑ کر دیکھنے کی غلطی کی، حالانکہ یہ ذہنیت سیاسی جماعتوں، قوم پرست حلقوں اور حتی کہ سیکولر سوچ رکھنے والوں میں بھی اسی شدت سے موجود ہے۔ مذہبی انتہاپسند مخالف فرقے یا مذہب کو ختم کرنے کو دین داری سمجھتا ہے، سیاسی انتہاپسند ہر اختلافی آواز کو غداری کا نام دیتا ہے اور سیکولر انتہاپسند آزادی و رواداری کے نام پر دوسروں کی مذہبی یا ثقافتی اقدار کو روندنے میں عار محسوس نہیں کرتا۔ نتیجہ سب کا ایک ہی ہے: نفرت، ٹکراؤ اور معاشرتی انتشار۔
انتہاپسندی کی ایک تازہ مثال حال ہی میں 14اگست کے موقع پر سامنے آئی، جب جامعہ الرشید کے سرپرست مفتی عبد الرحیم صاحب نے افواجِ پاکستان سے اظہارِ یکجہتی کیلئے اپنی ایک وردی والی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی۔ اختلاف رائے تو یہاں بھی کیا جا سکتا تھا، لیکن افسوس بعض سیاسی، مذہبی اور سیکولر حلقوں نے اعتراضات کی ایسی بوچھاڑ کی جس میں اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل گیا۔ شائستہ مکالمے کی جگہ گالی گلوچ، تمسخر اور بدزبانی نے لے لی۔ یہ رویہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انتہاپسندی کسی ایک گروہ تک محدود نہیں رہی، بلکہ معاشرتی مزاج کا حصہ بنتی جا رہی ہے، جہاں برداشت اور وقار کی زبان معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ یہ بیماری دھیرے دھیرے ذہنوں میں اترتی ہے۔ پہلے مخالف کو محض غلط کہا جاتا ہے، پھر اس کی نیت اور کردار پر حملے ہوتے ہیں اور آخرکار اس کو مٹانا ضروری قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس دوران قرآن و سنت کی اصل تعلیمات پس منظر میں چلی جاتی ہیں اور ان کی جگہ بگڑی ہوئی تشریحات، من گھڑت فتوے اور جھوٹے بیانیے لے لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح فرمایا: اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جن کے پاس کھلے کھلے دلائل آچکے تھے، اس کے بعد بھی انہوں نے آپس میں پھوٹ ڈال لی اور اختلاف میں پڑگئے، ایسے لوگوں کو سخت سزا ہوگی۔ (آل عمران)
اسی طرح فساد پھیلانے والوں کے بارے میں ارشاد ہے: اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ (البقرہ: 205) لیکن جب انسان انتہاپسندی میں ڈوب جاتا ہے تو یہ آیات بھی اپنی اصل معنویت کھو دیتی ہیں، کیونکہ وہ ان کا مطلب اپنی مرضی کے مطابق بدل لیتا ہے۔ غلو چاہے عبادت میں ہو، سیاست میں یا نظریات میں، انجام ہمیشہ تباہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خارجیوں کے بارے میں خبر دی کہ وہ قرآن پڑھیں گے مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، اور وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ یہ انتباہ صرف ماضی کے کسی گروہ تک محدود نہیں بلکہ ہر اس شخص یا جماعت پر صادق آتا ہے جو دین یا کسی نظریے کا لبادہ اوڑھ کر خونریزی، نفرت اور فساد کو فروغ دے۔
ہمارے ہاں انتہاپسندی کے پھیلاؤ میں سب سے بڑا کردار جھوٹے پروپیگنڈے اور گمراہ کن مواد کا ہے۔ نوجوانوں کو سوشل میڈیا پر ایڈٹ شدہ ویڈیوز، اشتعال انگیز تقاریر اور جذباتی نعرے دکھا کر یہ باور کرایا جاتا ہے کہ مخالف کو مٹانا ہی اصل جہاد یا اصل انصاف ہے۔ یہی ہتھکنڈے مذہبی شدت پسند استعمال کرتے ہیں، یہی سیاسی مخالفین کے خلاف چلنے والی مہمات میں دیکھے جاتے ہیں، اور یہی انداز بعض سیکولر حلقے اپناتے ہیں جب وہ اپنی سوچ سے اختلاف رکھنے والوں کو حقیر اور پسماندہ کہہ کر ان پر نفسیاتی حملے کرتے ہیں۔ اس صورتحال میں خاموش رہنا خود جرم ہے۔ خاندان کی سطح پر والدین کو اپنے بچوں کے رویوں پر نظر رکھنی چاہیے۔ اچانک سخت لہجہ، شدت پسند جملے، یا مخصوص گروہوں کی اندھی حمایت کو معمولی نہ سمجھا جائے۔ ان کے سوالات کے جواب پیار، دلیل اور بصیرت سے دیے جائیں۔ اساتذہ اور دینی رہنما بھی اپنی ذمہ داری محسوس کریں کہ دین اور نظریات کی اصل روح نوجوانوں تک پہنچائیں، نہ کہ محض ردعمل پر مبنی بیانیے۔ ریاست اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی نفرت انگیز مواد، چاہے وہ کسی بھی نظریے کے نام پر ہو، پھیلانے والوں کے خلاف سختی سے کارروائی کرنی چاہیے۔ اگر ہم نے اس کا سدباب نہ کیا تو چاہے انتہاپسند مذہبی ہو یا سیاسی، سیکولر ہو یا قوم پرست، ہمارا معاشرہ مستقل خانہ جنگی کا شکار رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں افراط و تفریط سے بچا کر اعتدال کی راہ پر چلائے۔