قوموں کی سرکشی اور عذابِ الٰہی

سورۂ یوسف کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اور مختلف اقوام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ‘ہم نے قرآن کریم میں ماضی کی قوموں کے واقعات کا ذکر اس لیے کیا ہے تاکہ وہ ارباب فہم و دانش کے لیے سبق اور عبرت کا ذریعہ بنیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی فرمایا کہ یہ گھڑی ہوئی باتیں نہیں بلکہ پہلی آسمانی کتابوں میں بیان کردہ باتوں کی تصدیق اور وضاحت کرتی ہیں’۔ اس پس منظر میں ماضی کی دو قوموں کا تذکرہ موجودہ حالات کے تناظر میں مناسب معلوم ہوتا ہے تاکہ ہمیں ان سے سبق حاصل کرنے اور عبرت پکڑنے کا موقع ملے۔ آمین یارب العالمین!

سورة الاعراف کی آیت 130تا 137میں آل فرعون کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ فرمان الٰہی ہے کہ ‘ہم نے پہلے انہیں قحط سالی اور اموال و پیداوار میں کمی کر کے تنبیہ کی تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں مگر ان کا مزاج و نفسیات یہ تھیں کہ اگر انہیں کوئی حسنہ یعنی اچھی چیز یا بات ملتی تو کہتے کہ یہ تو ہمارا حق ہے، لیکن اگر سیئہ یعنی تکلیف اور مصیبت کا سامنا کرنا پڑا تو وہ اسے حضرت موسٰی علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں سے منسوب کر دیتے کہ یہ ان کی وجہ سے ہو رہا ہے’۔ اُن کی اس کیفیت کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کی برکت و نحوست سب اللہ تعالیٰ کے کنٹرول میں ہے مگر اکثر لوگ اس کو سمجھتے اور جانتے نہیں۔ اس کے بعد فرمایا کہ انہوں نے حضرت موسٰی علیہ السلام سے یہ کہا کہ تم ہمارے سامنے جتنی مرضی نشانیاں پیش کر دو اور ان کے ذریعے ہم پر جادو کر دو (نعوذ باللہ) ہم تم پر ایمان نہیں لائیں گے۔

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کے اس دوٹوک انکار کے بعد ہم نے (١) طوفان (٢) ٹڈیاں (٣) جوئیں (٤) مینڈک اور (٥) خون اپنی قدرت کی کھلی نشانیوں کے طور پر مسلط کردیں، مگر پھر بھی وہ اپنے تکبر پر قائم رہے اور وہ مجرم قوم ہی بنے رہے۔ لیکن جب ان پر عذاب واقع ہوگیا تو حضرت موسٰی علیہ السلام کے پاس آئے اور کہا کہ آپ اپنے رب سے وہ دعا کریں جس کا آپ کے رب نے آپ سے وعدہ کر رکھا ہے۔ اگر آپ یہ عذاب ہم سے ہٹوا دیں تو ہم آپ پر ایمان لے آئیں گے اور آپ کی قوم بنی اسرائیل کو آزادی بھی دے دیں گے۔ لیکن جب ہم نے ان سے ایک مقررہ وقت تک کے لیے عذاب ہٹا دیا تو وہ اپنے وعدہ سے پھر گئے اور عہد توڑ دیا۔ پھر ہم نے ان سے اس کا انتقام لیا اور انہیں سمندر کی موجوں میں غرق کر کے ان لوگوں کو زمین کا وارث بنا دیا جو اس سے پہلے کمزور سمجھے جاتے تھے اور غلام بنا لیے گئے تھے۔ اس طرح ہم نے بنی اسرائیل کو ان کے صبر کا بہتر صلہ دیا اور فرعون اور اس کی قوم نے جو کچھ بھی تیاریاں کر رکھی تھیں سب کو غارت کر دیا۔

یہ سورةُ الاعراف کی چند آیات کا مفہوم ہم نے عام فہم انداز میں عرض کیا ہے۔ اس سے قوموں کے طرزعمل، نفسیات اور ان کی سرکشی و بغاوت کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے قانون اور سنت کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے اور ان سے سبق اور عبرت پکڑی جا سکتی ہے۔

سورۂ بنی اسرائیل آیت ٧٧ میں قرآن کریم میں اللہ ربُّ العزت نے یہ بھی وضاحت کے ساتھ فرما دیا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی سنت و قانون میں تبدیلی دیکھو گے اور (تحویل) لچک بھی کبھی نہیں پاؤ گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت تک اللہ تعالیٰ کا ضابطہ یہی ہے کہ قوموں کی سرکشی، بغاوت، ظلم اور نا انصافیوں پر پہلے تنبیہ کرتے ہیں مگر جب اس تنبیہ اور سرزنش سے ان کا رویہ تبدیل نہیں ہوتا تو پھر اس سے زیادہ سخت عذاب سے دوچار کر دیتے ہیں جو دائمی ہوتا ہے اور پھر توبہ اور واپسی کے سب دروازے بند ہو جاتے ہیں۔اسی طرح اللہ ربُّ العزت نے سورہ یونس آیت ٨٩ میں ماضی کی متعدد اقوام کی سرکشی اور ان پر نازل ہونے والی تنبیہات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ایک قوم کے سوا ساری سرکش قومیں اپنی سرکشی پر قائم رہیں اور عذاب کا شکار ہوئیں۔ البتہ ایک قوم جو بچ گئی جو حضرت یونس علیہ السلام کی قوم تھی جو موصل کے علاوہ نینوا میں مبعوث ہوئے تھے۔ اس قوم پر جب عذاب کے آثار نمودار ہوئے تو وہ سب کے سب اللہ تعالیٰ کے حضور جھک گئے اور توبہ و استغفار کر کے حضرت یونس علیہ السلام پر ایمان لے آئے جس پر ان سے وہ وقتی عذاب ٹل گیا، جیسا کہ سورۂ یونس میں فرمان خداوندی ہے کہ ”ومتعناھم الٰی حین” ہم نے انہیں ایک وقت تک مہلت دے دی۔

قرآن کریم کے بیان کردہ اس تاریخی پس منظر میں آج پوری دنیا کی عمومی صورتحال کو دیکھا جا سکتا ہے، البتہ اُمت مسلمہ کی صورتحال کسی حد تک مختلف ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ آپ علیہ السلام کی اُمت کو مجموعی طور پر پہلی امتوں کی طرح عذاب سے دوچار نہیں کریں گے، لیکن کیا جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اور اس پر اللہ تعالیٰ کے وعدے کا مطلب یہ ہے کہ یہ اُمت ہر قسم کی سزا، عذاب، تنبیہ اور سرزنش سے محفوظ ہو گئی ہے؟ یہ بات توجہ طلب ہے اور اس عمومی مغالطہ سے ہمارا نکلنا ضروری ہے۔ جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اور اس کی برکت سے اُمت کو مجموعی طور پر عذاب سے محفوظ رکھنے کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ حدیث مبارکہ میں مذکور ہے جبکہ مختلف احادیث مبارکہ میں اس اُمت پر آنے والی مصیبتوں، آزمائشوں اور تنبیہات کا ذکر بھی موجود ہے جن میں سے صرف ایک کا تذکرہ موجودہ صورتحال کا اندازہ کرنے کے لیے شاید کافی ہو۔

مشکوٰة المصابیح میں ترمذی شریف کے حوالہ سے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت منقول ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب: (١) غنیمت کے مال کو ہاتھوں ہاتھ لوٹا جائے گا (٢) امانت کے مال کو غنیمت سمجھ لیا جائے گا (٣) زکوٰة کو تاوان اور بوجھ سمجھا جانے لگے گا (٤) دین کے مقصد سے ہٹ کر تعلیم حاصل کی جائے گی (٥) ایک شخص بیوی کی اطاعت اور ماں کی نافرمانی کرے گا (٦) دوست کو قریب اور باپ کو دور کر دے گا (٧) مسجدوں میں شوروغل بلند ہونے لگے گا (٨) قبیلہ کا سردار اس کا فاسق شخص ہو گا (٩) قوم کا لیڈر سب سے رذیل آدمی ہو گا (١٠) کسی شخص کی عزت اس کے شر سے بچنے کے لیے کی جائے گی (١١) ناچنے والی عورتیں اور گانے بجانے کے آلات عام ہو جائیں گے (١٢) شرابیں پی جائیں گی (١٣) اُمت کے بعد والے لوگ پہلے لوگوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیں گے۔ تو پھر (١) سرخ آندھی (٢) زلزلوں (٣) زمین میں دھنسائے جانے (٤) شکلیں بدل جانے (٥) اور پتھروں کے برسنے کے انتظار میں رہنا اور پھر ایسی لگاتار نشانیاں سامنے آئیں گی جیسے کسی ہار کی ڈوری ٹوٹ جائے اور اس کے موتی مسلسل گرنے لگ جائیں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اُن تنبیہات اور ماضی کے واقعات سے سبق حاصل کرنے اور حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی طرح اجتماعی توبہ و استغفار کی توفیق سے نوازیں، آمین یارب العالمین۔