گزشتہ دو دن سے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں پاک پتن میں پنجاب پولیس کا ایک تھانیدار اپنے ساتھی پولیس والوں کے سامنے ایک نہتی خاتون کے گھر میں اس پر تھپڑوں اور ٹھڈوں سے شدید تشدد کرتا نظر آرہا ہے۔ خاتون کی چیخیں بلند ہو رہی ہیں مگر ظالم پولیس والے کو رحم نہیں آ رہا۔ اس کے ساتھی تماشائیوں کی صورت میں کھڑے ہیں۔ قریب ہی ایک خاتون پولیس والی بھی کھڑی ہے۔ کوئی بھی مظلوم عورت کی مدد کو آگے نہیں بڑھ رہا۔
اس خاتون کا کہنا ہے کہ کچھ عرصہ قبل اس کے خاوند نے اسے طلاق دے دی تھی اور اب اس کے سسرالی اس سے مکان خالی کروانا چاہتے ہیں جبکہ بچے بھی اس کے پاس ہیں جن کا خرچہ اسے نہیں دیا جا رہا ہے۔ وہ تو پہلے ہی پریشان ہے کہ اپنے بچوں کو کیسے پالے گی اوپر سے سسرال والوں نے پولیس سے مل کر مکان سے بے دخل کرنے کے لیے اس پر شدید تشدد کروایا ہے۔ دوسری طرف ویڈیو وائرل ہونے پر عوام کی طرف سے شدید ردِعمل آنے کے بعد ڈی پی او پاک پتن جاوید چدھڑ نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ پولیس چوکی فریدکوٹ کے اے ایس آئی ملک اعجاز نے دورانِ ریڈ خاتون پر تشدد کیا ہے جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے بتایا کہ اے ایس آئی کو معطل کرنے کے بعد اس کے خلاف مقدمہ درج کر کے اسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ پولیس کے محکمے میں ایسی کالی بھیڑوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وزیرِاعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کے وژن کے تحت خواتین کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے اور اختیارات سے تجاوز کرنے والے پولیس اہل کاروں کی پنجاب پولیس میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ کسی بھی شخص کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
یہ سچ ہے کہ ایک گندی مچھلی سارے تالاب کو گندا کر دیتی ہے۔ جس طرح ایک نالائق آدمی اپنے خاندان کے لیے رسوائی کا باعث بن جاتا ہے اسی طرح ایک برا اہل کار اپنے پورے محکمے کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ثابت ہوتا ہے۔ ہم ایک لمحے کو فرض کر لیتے ہیں کہ جس خاتون پر پولیس افسر نے تشدد کیا ہے وہ ایک کریمنل تھی، کیا پولیس کے پاس ایسا کوئی اختیار موجود ہے کہ خاتون چاہے کریمنل بھی ہو اگر وہ نہتی ہو،آگے سے مزاحمت بھی نہ کر رہی ہو، گھر کی چاردیواری کے اندر ہو جہاں سے اُس کا فرار ہونا بھی ممکن نہ ہو، گرفتار کرنے والے ایک خاتون سمیت پانچ پولیس اہلکار ہوں پھر بھی اس خاتون کی اپنی چاردیواری کے اندر اس کے معصوم بچوں کے سامنے اس پر تھپڑوں اور ٹھڈوں کی بارش کر دی جائے۔ یہ ظلم ہی نہیں ہے، قانون کی بھی سخت خلاف ورزی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ جب سے ڈاکٹر عثمان انور آئی جی پنجاب تعینات ہوئے ہیں وہ محکمہ پولیس میں اصلاحات لانے اور محکمے کا مورال بلند کرنے میں مسلسل کوشاں ہیں۔ تھانہ کلچر کو تبدیل کرنے کی انہوں نے بھرپور کوشش کی ہے اور اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آئے ہیں۔ پکار 15، خدمت مراکز اور فرنٹ ڈیسک کے بعد وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی ہدایات پر سی سی ڈی کا قیام ان کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔ پنجاب میں جرائم کی شرح میں بڑی کمی واقع ہو چکی ہے۔ عادی مجرم سر چھپاتے پھر رہے ہیں اور انہیں جائے پناہ نہیں مل رہی۔ یہ بھی سچ ہے کہ تمام پولیس والے برے نہیں ہیں۔ اس محکمے میں اکثریت اچھے لوگوں کی ہے جو دن رات معاشرے سے جرائم کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں۔ عوام کے تحفظ کے لیے پولیس شہادتیں بھی دے رہی ہے اور اس کے جوان مجرموں کی گولیوں کا نشانہ بن کر ہمیشہ کے لیے معذور بھی ہو رہے ہیں۔ پولیس بڑی بہادری اور جواں مردی کے ساتھ کریمنلز کے خلاف برسرِ پیکار ہے۔ چند کالی بھیڑوں یا گندی مچھلیوں کی وجہ سے اس محکمے کو برا کہنا انصاف نہیں ہے۔ قلیل تنخواہ کے عوض ہر وقت موت کے منہ میں رہنے والے پولیس کے جوان لائقِ تحسین ہیں۔ ملک اعجاز نے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے ظلم و سربیت کا جو مظاہرہ کیا ہے وہ اس کا ذاتی فعل ہے۔ یہ محکمانہ پالیسی نہیں ہے۔ اگر ملک اعجاز نے اختیارات سے تجاوز کیا ہے تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی اسی وجہ سے گیا ہے۔ ڈی پی او پاک پتن جاوید چدھڑ نے فوری ایکشن لے کر انصاف کا تقاضا پورا کیا ہے۔ امید ہے کہ ملک اعجاز محکمے کی طرف سے قرار واقعی سزا بھی پائے گا۔
جہاں تک تشدد کا شکار ہونے والی مظلوم خاتون کا تعلق ہے تو وہ یقینا اتنی سکت نہیں رکھتی کہ ملک اعجاز کے خلاف سٹینڈ لے سکے۔ محکمے کی نیک نامی میں اضافے کے لیے ڈی پی او پاک پتن اور آئی جی پنجاب کو ہی مظلوم کی دادرسی کرنا ہو گی۔ اگر یہ واقعہ کسی سویلین شخص نے کیا ہوتا تو زیرو ٹالرینس کی پالیسی کے تحت اپنے ہی ساتھیوں کی گولی کا شکار ہو چکا ہوتا۔ جس طرح خواتین کو چھیڑنے والے اپنے ہی نیفے میں اڑسے ہوئے پستول کی گولی چلنے سے اپنے مخصوص اعضاء سے محروم ہو رہے ہیں بالکل اسی طرح اے ایس آئی ملک اعجاز اپنے ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہو کر پیشی کے وقت کسی پولیس اہل کار سے پستول چھین کر تھپڑ اور ٹھڈے مارنے والے اپنے دائیں ہاتھ اور دائیں پاؤں پر گولیاں برسا کر ان اعضاء سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو سکتا ہے۔ بس اس کا ضمیر جگانے کی ضرورت ہے۔ یہ عمل پولیس میں موجود دیگر کالی بھیڑوں کے کے لیے وارننگ اور باعثِ عبرت ثابت ہوگا۔