چند سبق آموز احادیث

(حصہ ہشتم)
نوٹ: سبق آموز احادیث کی سات قسطیں شائع ہو چکی ہیں، یہ آٹھویں ہے اور وقتاً فوقتًا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
حضرت ثوبان بیان کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا وقت آنے والا ہے کہ دوسری امتیں باہم مل کر تم پر یلغار کریں گی، جیسے (بھوکے) کھانے کے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں، سائل نے پوچھا: (یارسول اللہ!)کیااُس وقت مسلمان تعداد میں کم ہوں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (نہیں!)، بلکہ اُس وقت تم تعداد میں زیادہ ہو گے، لیکن سیلاب کے جھاگ کی طرح بے اثر ہو جائو گے اور اللہ تعالیٰ دشمن کے دلوں سے تمہارا رعب و دبدبہ نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں ”وَھْن” ڈال دے گا، سائل نے پوچھا: (یارسول اللہ !): یہ ”وَھْن” کیا چیز ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا کی محبت اور موت کا خوف، (ابودائود: 4297)”۔

اس حدیث میں دو اخلاقی اور نفسیاتی بیماریوں کا ذکر ہے: ”ایک دنیا کی محبت اور دوسری موت کا خوف”۔ انہی بیماریوں نے پچھلی امتوں کو تباہ وبرباد کیا اور آج ہم بھی ان میں مبتلا ہیں۔ پس قرآنِ کریم نے بتایا کہ ایک طرف یہود ونصاریٰ کا دعویٰ تھا کہ وہ اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں، اس کا تقاضا یہ تھا کہ وہ موت کی آرزو کرتے تاکہ جلد جنت میں اپنی منزل کو پالیں، لیکن موت سے اُن کے خوف کو قرآنِ کریم نے جابجا نہایت وضاحت سے بیان فرمایا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتایا کہ اس امت میں بھی آہستہ آہستہ پچھلی امتوں کی اعتقادی، اخلاقی اور نفسیاتی کمزوریاں سرایت کر جائیں گی، حدیث مبارک میں ہے:”حضرت ابوسعید بیان کرتے ہیں: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ضرور اپنے سے پہلی امتوں کی پوری طرح پیروی کرو گے، بالشت برابر اور ہاتھ برابر حتیٰ کہ اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہیں تو تم بھی ضرور اُس میں داخل ہو گے، ہم نے عرض کی: یارسول اللہ! (کیا آپ کی مراد) یہود ونصاریٰ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور کون، (بخاری: 3456)”۔ اہلِ فلسطین کو مسلمانوں نے جس طرح اسرائیل اور ان کے پشتیبان امریکا اور اہلِ مغرب کے رحم وکرم پر چھوڑا ہے، اُس سے فرمانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت واضح ہو جاتی ہے۔

قرآنِ کریم نے یہود کا بھی یہی تضاد بتایا ہے، ایک طرف اللہ تعالیٰ نے یہود کی خوش فہمی کو بیان کیا: (١) ”اور یہودونصاریٰ نے کہا:ہم اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں (اے رسولِ مکرم!) کہہ دیجیے: (اگر تمہارا دعویٰ درست ہے تو)پھر وہ تمہارے گناہوں پر تمہیں عذاب کیوں دے گا، بلکہ تم اللہ کی مخلوق میں سے بشر ہو، جنھیں اللہ نے پیدا کیا ہے، وہ جسے چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گا، (المائدہ:18)”۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہود ونصاریٰ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے لیے تیار ہیں، بلکہ یہ علیٰ سبیل البدلیّت (Alternatively) ہے، یعنی یہودیوں کی یہ خوش فہمی تھی کہ جنت صرف اُن کے لیے ہے اور نصاریٰ کی خوش فہمی یہ تھی کہ صرف اُن کے لیے ہے۔ ان دونوں کی اسی خوش فہمی کو دوسرے مقام پر بھی قرآنِ کریم نے بیان کیا ہے: ”اور اہلِ کتاب نے کہا: جنت میں صرف یہودی یا نصرانی جائیں گے، یہ اُن کی من پسند آرزوئیں ہیں، آپ کہہ دیجیے: اگر تم (اپنے دعوے میں) سچے ہو تو دلیل پیش کرو، (البقرہ:111)”۔ قرآنِ کریم نے یہود کی اس خوش فہمی اور زعمِ باطل کا جابجا ردّ کیا ہے اور عقلِ سلیم کو مُنصِف بنایا ہے کہ اگر واقعی کسی کا اس بات پر یقین ہے کہ جنّت صرف اُس کے لیے ہے، تو پھر اُسے اُس کے حصول میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کرنی چاہیے، ظاہر ہے کہ جنت اور اُس کے درمیان صرف زندگی حائل ہے، تو اسے موت کی تمنا کرنی چاہیے۔

حدیث پاک میں ہے: ”حارث بن مالک انصاری کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گزر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: حارث! تم نے کیسے صبح کی، انھوں نے جواب دیا: (یارسول اللہ!) میں نے اس حال میں صبح کی کہ میں سچا اور پکا مومن تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (حارث!) تمہیں پتا ہے تم کیا کہہ رہے ہو، کیونکہ ہر چیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے، پس تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے، انھوں نے عرض کیا: دنیا سے مجھے رغبت نہیں رہی، (اپنی منزل کو پانے کے لیے) میں راتوں کو (قیام الیل کر کے) بیداررہتا ہوں اور دن میں (روزے رکھ کر) پیاسا رہتا ہوں، میری کیفیت یہ ہے کہ گویا میں عرشِ الٰہی کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں اور گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ جنتی میرے سامنے ایک دوسرے سے مل رہے ہیں اور جہنمیوں کی چیخیں نکل رہی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: حارث! تم نے (حقیقتِ ایمان کو) جان لیا، پس اس کو لازم پکڑو، (المعجم الکبیر للطبرانی: 3367)”۔ ابوعبداللہ حکیم ترمذی نے روایت کیا: ”حارثہ نے کہا:مجھے ایسے لگتا ہے کہ میں عرشِ الٰہی کو سامنے دیکھ رہا ہوں، میرے سامنے جنتی ایک دوسرے سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور جہنمی فریادیں کر رہے ہیں، میرے دل میں دنیا کی رغبت نہیں رہی، میرے نزدیک پتھر، ڈھیلا، سونا اور چاندی برابر ہیں(یعنی ان چیزوں سے ضرورت کی حد تک واسطہ رکھتا ہوں اور سونے چاندی کو دل میں جگہ نہیں دیتا)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے حقیقتِ ایمان کو جان لیا، اسے لازم پکڑو، یہ بندگی کا ایسا مقام ہے کہ اللہ نے تمہارے دل کو نورِ ایمانی سے بھر دیا ہے اور اب یہ نُور علیٰ نور ہے، (نوادرالاصول:ج: 1، ص: 145)”۔ (جاری ہے)