”مکالمہ” کے معنی ہیں: کسی خاص موضوع پر بات چیت کرنا اپنا اپنا موقف بیان کرنا اور کسی متفقہ نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کرنا اسے عربی میں ‘محادثہ اور حِوار’ بھی کہتے ہیں۔ اردو میں اس کیلئے عام طور پر مذاکرات کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے اسی کو انگریزی میں Dialouge کہتے ہیں۔ ظاہر ہے: ہمارے ہاں اس سے سیاسی بحران سے نکلنے کیلئے مکالمہ یا مذاکرہ مراد ہے۔ خان صاحب کا اب تک موقف یہ رہا ہے کہ وہ صرف مقتدرہ سے بات کریں گے کیونکہ اختیار انہی کے پاس ہے اور وہ موجودہ حکومت یا سیاسی نظام کو کٹھ پتلی سے تعبیر کرتے ہیں۔ کٹھ پتلی سے مراد ہے: ‘جوکسی کے اشارے پر چلے’ چنانچہ ان کی جماعت نے ایک بار سیاسی حکومت سے مذاکرات شروع کیے مگر خان صاحب نے جلد ختم کر دیے۔ مذاکرات کیلئے سب سے پہلے یہ طے کیا جانا ضروری ہوتا ہے کہ موضوع کیا ہے اور فریقین کا اس مسئلے پر موقف اور ان کے دعوے کی بنیاد کیا ہے۔ اسے عدالتی زبان میں Locusstandi کہتے ہیں۔ کیونکہ اگر موضوعِ بحث ہی طے نہ ہو تو کسی متفقہ یا قابلِ قبول حل تک پہنچنا دشوار ہوتا ہے۔ مذاکرات میں بعض اوقات حکم یا ثالث اور بعض صورتوں میں ضامن بھی مقرر کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی فریق اپنا موقف خود بھی پیش کر سکتا ہے اور وکیل کی خدمات بھی حاصل کر سکتا ہے۔
اس کی مثال یہ ہے: 2013ء کے قومی انتخابات پر عمران خان کا اعتراض یہ تھا کہ یہ انتخابات منصفانہ نہیں تھے بلکہ دھاندلی زدہ تھے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ پینتیس پنکچر لگائے گئے ہیں یعنی قومی اسمبلی کے پینتیس حلقوں کے نتائج کو دھاندلی کے ذریعے تبدیل کیا گیا ہے۔ آخرکار فریقین (حکومت اور پی ٹی آئی) نے ایک جوڈیشل کمیشن قائم کرنے پر اتفاق کیا اور اسے یہ ذمہ داری تفویض کی گئی کہ آیا: 2013ء کے قومی انتخابات میں Systematically & By Design یعنی باقاعدہ منصوبہ بندی اور پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق دھاندلی کی گئی ہے؟ پنکچر کو اُردو زبان میں سوراخ یا چھید کہتے ہیں یعنی ٹائر کی ٹیوب میں سوراخ یا چھید کرکے ہوا نکال دینا کہ وہ چلنے کے قابل نہ رہے۔ یہ الزام اُس وقت کے پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ نجم سیٹھی پر لگایا گیا تھا۔ سیٹھی صاحب نے اس الزام کو عدالت میں چیلنج کیا تو بعد میں خان صاحب نے اسے واپس لے لیا اور محض اپنا سیاسی بیان قرار دیا۔ سپریم کورٹ کے قائم کردہ جوڈیشل کمیشن نے تحقیقات کے بعد قرار دیا کہ 2013ء کے قومی انتخابات میں ‘باقاعدہ منصوبہ بندی اور پہلے سے طے شدہ پروگرام’ کے مطابق دھاندلی کا الزام ثابت نہیں ہوا، البتہ بعض مقامات پر مقامی طور پر دھاندلی ہو سکتی ہے اور ہوتی رہتی ہے۔ 2018ء کے قومی انتخابات پر بھی ووٹنگ سے پہلے (Pre Poll) اور مابعد ووٹنگ (Post Poll) دھاندلی کے الزامات لگائے گئے تھے اور کہا گیا تھا کہ پہلے آرٹی ایس کا نظام قائم کیا گیا اور پھر انتخاب کے بعد دانستہ اسے بٹھاکر دھاندلی کی گئی مگر چونکہ اس وقت کی حکومت پر اس حوالے سے اتنا دبائو نہیں پڑا کہ کوئی جوڈیشل کمیشن قائم کیا جاتا کیونکہ اس وقت کی اپوزیشن کو نیب نے گھیر رکھا تھا۔ پھر 2024ء کے قومی انتخابات میں پی ٹی آئی نے دھاندلی کے الزامات لگائے اور یہ تنازع اب تک جاری ہے۔
دو سال کی اسیری کے بعد کوٹ لکھپت جیل لاہور سے پی ٹی آئی کے رہنمائوں جناب شاہ محمود قریشی، محمود الرشید، اعجاز چودھری، عمر سرفراز چیمہ اور یاسمین راشد نے اپنے دستخطوں سے ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا: ‘سیاسی بحران کا حل نکالنے کیلئے مقتدرہ اور سیاسی حکومت دونوں سے مذاکرات کیے جائیں یہی ایک واحد ذریعہ ہے کہ جس کو اختیار کر کے سیاسی بحران سے نکلا جا سکتا ہے’۔ انہوں نے یہ بھی کہا: تحریک انصاف کے سرپرستِ اعلیٰ سے آزادانہ ملاقات کا موقع دیا جائے تاکہ ان سے رہنمائی حاصل کر کے جماعت کا متفقہ موقف طے کیا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا: بیرسٹر سلمان اکرم راجا اور بیرسٹر گوہر علی خان ہم سے ملاقات کریں اور ہمیں تازہ ترین صورتِ حال سے آگاہ کریں، کیونکہ دو سال سے جیل کے اندر رہتے ہوئے ہم حالات سے پوری طرح باخبر نہیں ہیں۔
جنابِ شاہ محمود قریشی اپنی جماعت کے وائس چیئرمین بھی ہیں اور تجربہ کار سیاست دان ہیں۔ دوسرے دستخط کنندگان بھی اپنی جماعت کے سینئر رہنمائوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ہماری رائے میں ان تجربہ کار سیاست دانوں کا موقف درست ہے اور بحران سے نکلنے کیلئے مشترکہ کاوشوں اور ‘کچھ لو اور کچھ دو’ سے کوئی حل نکل آئے تو ملک وملت کیلئے بہتر ہوگا۔ خان صاحب کی ہمشیرہ بھی میڈیا سے گفتگو میں ایسی پیشکش کر چکی ہیں۔ خان صاحب کے بارے میں دشواری یہ ہے کہ تحریک انصاف انہی کی ذاتِ گرامی کا نام ہے۔ جماعت میں باقی کسی کی کوئی حیثیت ہے نہ کسی کے پاس حتمی فیصلہ کرنے کا کوئی اختیار ہے۔ خان صاحب جب چاہیں ان کے سارے فیصلوں کو ویٹو کر سکتے ہیں۔ یہ سارے رہنما خود بھی یہی کہتے رہتے ہیں۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ خان صاحب کے بارے میں کوئی پیش گوئی کی جا سکتی ہے اور نہ ان کا کوئی ضامن بن سکتا ہے۔ وہ کسی اور کو طنزاً ‘جنگل کا بادشاہ’ کہتے ہیں لیکن اپنی جماعت کی حد تک وہ خود بھی ‘جنگل کے بادشاہ’ سے آگے کی چیز ہیں۔
شیخ مجیب الرحمن جب میانوالی جیل سے رہائی پاکر بنگلادیش کے وزیراعظم بنے تو ان سے اخباری نمائندے نے پوچھا: آپ کی خوبی کیا ہے انہوں نے کہا: میں اپنی قوم سے محبت کرتا ہوں۔ پھر سوال ہوا: آپ کی خامی کیا ہے انہوں نے کہا: میں اپنی قوم سے بہت زیادہ محبت کرتا ہوں۔ یہی مسئلہ پی ٹی آئی کا ہے کہ اگر کوئی سوال کرے: آپ کی قبولیتِ عامہ کا راز کس میں پنہاں ہے تو جواب آئے گا: سوشل میڈیا اور اگر پوچھا جائے: آپ کے مسائل ومصائب کا سبب کیا ہے تو جواب آئے گا: سوشل میڈیا۔ سوشل میڈیا کا یہ نیٹ ورک ملک کے اندر اور بیرونِ ملک قائم ہے۔ یہ لوگ جب چاہیں خان صاحب کے علاوہ اپنی جماعت کے کسی بھی فرد یا اعلیٰ عہدیدار کا ستیاناس کر سکتے ہیں، پگڑی اچھال سکتے ہیں، سرِ بازار رسوا کر سکتے ہیں، دو ٹکے کا نہیں چھوڑتے اور یہ خان صاحب کے علاوہ کسی کو جوابدہ بھی نہیں ہیں۔ مقتدرہ سے تعلقات کی خرابی میں بھی سب سے بڑا دخل انہی کا ہے۔ دوسرے اپنا دامن بچانے کیلئے کبھی ان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں اورکبھی ان کو اپنا لیتے ہیں، الغرض اس مسئلے کا حل خان صاحب کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے۔ مقتدرہ کی ترجیحی خواہش یہ ہے کہ جو نظم قائم ہے وہ موجودہ دورانیے کے اختتام تک چلتا رہے تاکہ معیشت ترقی کی شاہراہ پرگامزن ہو اور دوسروں کے سہارے سے بے نیاز ہوکر اپنے پائوں پر کھڑی ہو۔ غالباً ان کی دانش میں اس مقصد کے حصول کیلئے اس نظام کا کچھ عرصے چلتے رہنا ضروری ہے، لیکن خان صاحب کے پاس اتنے انتظار کیلئے مہلت نہیں ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ فریقین کے کسی قابلِ قبول حل تک پہنچنے کیلئے لازم ہے کہ دونوں طرف کے مذاکرات کار بااختیار ہوں فیصلہ سازی کا اختیار رکھتے ہوں سوچ اور فکر میں متوازن ہوں ایک دوسرے کیلئے گنجائش نکالنے کی خاطر وسعتِ نظر کے حامل ہوں اور اس حقیقت سے بھی آشنا ہوں کہ کسی کم از کم قابلِ قبول حل تک پہنچنے کیلئے ہر فریق کو اپنے موقف سے تھوڑا تھوڑا پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ فریقِ ثانی کو کچھ نہ کچھ جگہ دینا پڑتی ہے۔ ایک دوسرے کی عزت کا خیال رکھا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنمائوں نے بھی یہی کہا ہے مگر خان صاحب کیلئے یہی کام سب سے مشکل بلکہ عملاً ناممکن ہے، کیونکہ ان کی گفتگو کا آغاز اور اختتام دوسروں کی تحقیر توہین، تذلیل اور استہزا سے ہوتا ہے۔ جو عادتیں دل ودماغ میں راسخ ہوکر فطرتِ ثانیہ بن جائیں پختہ عمر میں ان سے چھٹکارا پانا عملاً ناممکن ہو جاتا ہے اور اصل مسئلہ یہی ہے۔ ہماری دعا ہے: اللہ کرے کوئی ایسا راستہ نکل آئے جس میں ملک وملت کا مفاد ہو۔