حکومت اور اپوزیشن کا توازن ہر جمہوری نظام کی بنیاد ہوتا ہے۔ حکومت وہ ادارہ ہے جو ملک کے انتظامات چلاتی ہے، قوانین بناتی ہے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کرتی ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن حکومت کی نگرانی کرتی ہے، اس کی کمزوریوں اور غلطیوں کی نشاندہی کرتی ہے اور بہتر حکمرانی کے لیے متبادل تجاویز پیش کرتی ہے۔ یہ دونوں قوتیں اگر مل کر کام کریں تو ملک کی سیاسی صحت مضبوط ہوتی ہے اور عوام کا اعتماد جیتا جاتا ہے۔
تاریخ میں دیکھیں تو قدیم یونان میں جمہوریت کا آغاز ایسے ہوا جہاں شہری اپنے نمائندوں کے ذریعے حکومت کرتے اور اپوزیشن کی صورت میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ وہاں کی عوامی اسمبلی میں مختلف خیالات کو سنا جاتا اور اس طرح حکومتی فیصلے متوازن بنتے۔ اس زمانے سے یہ بات واضح ہوئی کہ صرف ایک طاقتور حکومت کافی نہیں ہوتی، بلکہ ایک مضبوط اپوزیشن بھی ضروری ہے تاکہ حکومت اپنی طاقت کا ناجائز استعمال نہ کرے۔ برطانیہ کی تاریخ میں بھی اپوزیشن کا کردار بہت نمایاں ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ میں اپوزیشن پارٹی حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرتی ہے، حکومت کو جوابدہ رکھتی ہے اور عوامی مسائل کو پارلیمنٹ میں اٹھاتی ہے۔ اس طرح ایک ایسا نظام قائم ہوتا ہے جہاں اختلافات کے باوجود سیاسی عمل مستحکم رہتا ہے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے۔
اسلامی تاریخ میں بھی اس توازن کی مثال ملتی ہے۔ خلفائے راشدین کے دور میں صحابہ کرام حکومت کی کارکردگی پر کھل کر بات کرتے اور اصلاح کا مطالبہ کرتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلالی صحابی کی خلافت میں بھی انصاف اور حق کی بات اہم تھی اور حکومت اپنی غلطیوں کی نشان دہی سن کر اصلاح کی کوشش کرتی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب خلیفہ بنے تو انہوں نے اپنے پہلے خطاب میں صحابہ کرام سے فرمایا کہ اگر تم لوگ اگر میرے اندر کوئی کجی دیکھو تو میری اصلاح کرو۔ اس کے نتیجے میں معاشرے میں آزادی اظہار کا یہ عالم تھا کہ ایک صحابی نے بر سر منبر آپ سے وضاحت مانگی کہ جب مال غنیمت میں سب لوگوں کو ایک چادر ملی تھی دو آپ نے یہ دو چادریں کیسے پہنی ہوئی ہیں۔ حضرت عمر نے اس سوال کابالکل بھی برا نہیں منایا بلکہ وضاحت دے دی کہ یہ دوسری چادر ان کے بیٹے کے حصے میں آئی تھی جو اس نے انہیں ہدیہ کی ہے۔
اس تاریخی پس منظر سے واضح ہوتا ہے کہ اپوزیشن یا اصلاحی حلقوں کی موجودگی ایک صحت مند معاشرے کے لیے ناگزیر ہے۔ پاکستان کی تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے کہ جب اپوزیشن کو دبایا گیا، تو سیاسی عدم استحکام بڑھا۔ 1977ء میں جب جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا نافذ کیا اور اپوزیشن کو محدود کیا، تو ملک میں سیاسی بحران اور عوامی بے چینی نے جنم لیا۔ ہمارے ملک میں اکثر اپوزیشن کو دبا کر ہی حکومت کی جاتی ہے جس کی وجہ سے ملک میں سیاسی عدم استحکام رہتا ہے اور فیصلے یک طرفہ ہوتے ہیں جن میں اکثر عوامی مفادات کو پس پشت ڈال کر کسی جماعت یا گروہ کے مفادات کو مد نظر رکھا جاتا ہے۔
اپوزیشن کی طاقت اس بات میں بھی ہے کہ وہ حکومت کو جوابدہ بناتی ہے۔ جب حکومتی پالیسیوں پر تنقید کی جاتی ہے، تو حکومت اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنے یا بہتر فیصلے کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس سے حکمرانی میں شفافیت اور احتساب کا نظام قائم ہوتا ہے۔ اپوزیشن کی عدم موجودگی میں حکمران اپنی طاقت کا غلط استعمال کر سکتے ہیں، جس سے بدعنوانی اور ناانصافی جنم لیتی ہے۔ اپوزیشن عوام کی نمائندگی کا ایک اہم ذریعہ ہے، خاص طور پر جب حکومت عوام کی امیدوں پر پورا نہ اترے۔ اپوزیشن عوامی مسائل کو پارلیمنٹ یا دیگر فورمز پر اٹھاتی ہے، جس سے عوام کو سیاسی نظام میں اعتماد اور شمولیت کا موقع ملتا ہے۔ یہ سیاسی شعور پیدا کرنے اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کا باعث بنتا ہے۔
اگر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان صحت مند تعلق قائم ہو، تو سیاسی استحکام آتا ہے۔ اپوزیشن حکومت کی اصلاح کا ذریعہ بنتی ہے اور حکومت بھی اپوزیشن کی تجاویز کو سنجیدگی سے لیتی ہے۔ اس سے ملک میں ترقی، امن اور خوشحالی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو چاہیے کہ وہ ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر ملک و قوم کی خدمت کو اولین ترجیح دیں۔ اگر دونوں مخلص ہو کر کام کریں تو جمہوری نظام مضبوط ہوگا اور عوام کی زندگی میں بہتری آئے گی۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت اپوزیشن کی آواز کو دبانے کی بجائے سنجیدگی سے سنے اور اپوزیشن بھی تعمیری تنقید اور تعاون کے ذریعے ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے۔
موجودہ دور میں جہاں دنیا بھر میں جمہوریت کے نظام کو چیلنجز کا سامنا ہے، وہاں ہمیں اس تاریخی سبق کو یاد رکھنا چاہیے کہ حکومت اور اپوزیشن کا توازن ہی ایک مضبوط اور ترقی یافتہ ملک کی ضمانت ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس توازن کو قائم رکھیں اور سیاسی اختلافات کو جمہوری عمل کی طاقت سمجھیں نہ کہ قومی ترقی کی رکاوٹ بنیں۔