دیکھنا کہیں کوئی روٹھ نہ جائے!

مصروف زندگی میں یہ خوبصورت اشعار شاید آپ نے بھی کبھی سنے ہوں گے۔ دو لفظ تسلی کے، جس نے بھی کہے، اس کو افسانہ سنا ڈالا، تصویر دکھا ڈالی…اور کہیں برق چمکے میں جل اٹھوں، کوئی تارا ٹوٹے میں رو پڑوں یہ دلِ ستم زدہ ہم نشیں۔ کسی کائنات سے کم نہیں! چنانچہ طبی لحا ظ سے بھی اور جذباتی لحاظ سے بھی، زندگی کے سارے کھیل کا دار ومدار گوشت کے اسی چھوٹے سے لوتھڑے پر موقوف ہے۔ وہ لوتھڑا جسے اپنی زبان میں ہم دل کہتے ہیں۔ اسی دل کے اثرات سے ہم خوش ہوتے، اور اسی دل کے اثرات سے ہم ناخوش ہوتے ہیں
شاد کر دیا، تو کبھی ناشاد کر دیا
دل کو تمہارے کھیل نے برباد کر دیا

گزشتہ ادوار میں جبکہ اقدار زندہ تھیں، مذہب پر عمل تھا، اور مادیت ہم سب سے پرے پرے چلتی تھی، ایک دوسرے کے جذبات و احساسات کا خیال رکھنا پھر ہر شخص خود پر ازخود پر واجب سمجھتا تھا۔ دل کا توڑنا تب ایک بڑا پاپ سمجھا جاتا تھا۔ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور غم خواری کیا کرتے تھے۔ کسی کی ذرا سی تکلیف پر کئی افراد ایک ساتھ مدد کو پہنچ جاتے تھے۔ لوگ خوشیاں بانٹتے تھے اور غموں میں حصہ داری کرتے تھے۔ کوئی فرد خود کو تنہا محسوس نہیں کرتا تھا۔ کسی کی بیٹی پورے گائوں کی بیٹی سمجھی جاتی تھی اور اس کی رخصتی میں گائوں کا ہر فرد کچھ نہ کچھ حصے داری ضرور کیا کرتا تھا۔ دلوںکو توڑنے کی بجائے لوگ تب دلوںکو جوڑا کرتے تھے۔ کہا کرتے تھے کہ
دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے
پچھتا ئو گے سنو ہو، یہ بستی اجاڑ کر!

ہر شخص یقین سے جانتا تھا کہ یہ دل اصل میں اللہ کا گھر ہے۔ اس لیے اس پر جو بھی وار کرے گا، اپنے اللہ کو ناراض کرے گا۔ اسی باعث ماضی کی ہر بستی میں محبت کے زمزمے بہہ رہے ہوتے تھے۔ نیکیاں کرنی تب بہت آسان ہوا کرتی تھیں اور گناہ کے لیے بڑی مشکل ہی سے کوئی جگہ دستیاب ہوتی تھی۔ وہ اگر دلوں کو جوڑا کرتے تھے تو اس کی ترکیبیں بھی جانا کرتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ دل گوشت پوست کا ا یک چھوٹا سا ٹکڑا ہے۔ جانتے تھے کہ گوشت پوست کے اس ننھے سے ٹکڑے کے تقاضے کیا ہیں؟ دکھ درد میں کام آنا، میٹھی زبان کا شہد دلوں میں اتارنا، اپنا آج کسی کے کل پر وار دینا، تحفے تحائف کے تبادلے کرنا، خلوص نچھاور کرنا، بڑوں کی عزت کرنا، زبان کو قابو میں رکھنا، وعدوں کو پورا کرنا، حقوق چھیننے کی بجائے حقوق دینے والے بننا، غیبت اور جھوٹ سے پرہیز کرنا، اور باہمی تنازعات کو خاندان کے بزرگوں ہی سے حل کروا لینا وغیرہ۔ بس یہی وہ اجزائے ترکیبی (ریسیپیز) ہیں جن سے دل جڑتے اور مضبوط ہوتے ہیں۔ کل بھی اس کے اجزائے ترکیبی یہی تھے، اور آج بھی اجزائے ترکیبی یہی ہیں۔ مجال ہے جوسر ِ مو بھی ان میں فرق آیا ہو۔ مگر وقت کا بے رحم پہیہ جب مغربی یلغار کو لے کر ہمارے ہاں داخل ہوا تو لگا جیسے وہ ہماری تمام مشرقی اقدار و تہذیب کو بہا کر لے گیا ہے۔
چلی سمتِ غرب سے اک ہوا کہ چمن سرور کا جل گیا

تھا جو ناخوب، بتدریج خوب ہوا والی بات ہوگئی۔ اخلاق و اصول کی جگہ مادیت نے مقام اپنا لیا۔ ایثار و قربانی نے غتر بود ہوکر سنگ دلی کو جگہ فراہم کی، دلوں میں تنگی آنے لگی، محبت کی جگہ نفرت پروان چرھنے لگی۔ پہلے ایک صفت معاشرے سے غائب ہوئی، پھر دوسری صفت غائب ہوئی، پھر تیسری، اور پھر چوتھی۔ حتی کہ کسی دردمند شاعر کو مجبور ہوکر پھر یہ آنسو بھی بہانے پڑے کہ
نہ محبت، نہ مروت، نہ خلوص اے شعری!
میں تو شرمندہ ہوں اس دور کا انساں ہوکر

لوگوں کے نزدیک نیکی اس دور میں کسی چیز کا نام نہیں ہے۔ مذہب پرانے دور کا کوئی مسئلہ تھا، اخلاقی قدریں انسان کو مادی سہولیات فراہم نہیں کرتیں۔ دوسروں کی فکر سے زیادہ ذاتی فکر مقدم ہونی چاہئے۔ حق دینے کی بجائے حق چھین لینا چاہئے۔ بزرگوں کا احترا م ماضی کے دور میں اچھا لگتا تھا۔ اور لوگوں کو حقیر جاننا اور انہیں بے وقعت کرنا وقتِ حاضر کا تقاضا ہے وغیرہ۔ دل جو فرشتوں کے نزدیک انسانی زندگی میں سب سے مقدم مقام رکھتا ہے اور جس کا توڑنا خانہ کعبہ کے توڑ دینے کے برابر سمجھا جاتا ہے، آج لوگوں کے نزدیک وہ محض ایک کھلونے کی حیثیت رکھتا ہے۔ لوگ اسے توڑتے ہیں، دن رات توڑتے ہیں، بار بار توڑتے ہیں، اور ہزار بار توڑتے ہیں۔ کسی کو ایذا دینا، کسی کوبے عزت کرنا، اس کے ساتھ جھوٹ بولنا، غلط وعدے کرنا، بچوںکو اغوا کرلینا، زیادتی کرلینا، پینے کے پانی کی مار مارنا، طعنے دینا، دروازوں کے آگے گندگی کا ڈھیر ڈال دینا، انتقام کی آگ میں عورتوں کو سڑکوں پر برہنہ رقص کروانا، بزرگوںکو بھیگی بلی بنا دینا، وغیرہ آج کے دور کے یہ سب مقبولِ عام چلن ہیں۔ اور اسی اذیت ناک چلن کے مظاہر آج ہم سب دیکھتے بھی چلے جا رہے ہیں۔ برکتیں اٹھ گئی ہیں، محبتیں پیسے سے ناپی جانے لگی ہیں، بیماریوں نے ڈیرے ڈال دئیے ہیں، اور ہر شخص یہ محسوس کرنے لگا ہے کہ اس بھری دنیا میں کوئی بھی تو ہمارا نہیں۔ پہلے اکا دکا خون بھی جو بہا کرتے تھے، تو آبادی کی آبادی خوف و ہراس میں مبتلا ہو جاتی تھی۔ لیکن آج دسیوں اور بیسیوں خون اجتماعی طورپر ایک ساتھ کئے جاتے ہیں اور معاشرے پر اس کا مطلق بھی اثر نہیں ہوتا۔ پہلے اگر کسی دوسرے کی بدحالی پر بھی آنکھیں نم ہو جایا کرتی تھیں، تو آج سب کو برباد ہوتا دیکھ کر بھی کسی کی آنکھوںسے آنسو نہیں ٹپکتے
فانی جس میں پانی کیا دل کے لہو کا کال نہ تھا
ہائے وہ آنکھ آج پانی کی دو بوندوں کو ترستی ہے
کہنے والے یہ بھی کہہ گئے
جہنم کا دھواں بھر جائے ایسی آنکھ میں یا رب
کسی کے دکھ پر جو تھوڑی بہت بھی نم نہیں ہوتی

کس قدر حیرت کی بات ہے کہ جہاں محبت کے پل تعمیر کرنے چاہئیں، وہاں نفرتوں کی دیواریں چنی جا رہی ہیں۔ اور جہاں ہمیں سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہئے، وہاں ہم سب کو ٹکرے ٹکڑے کر کے بانٹ رہے ہیں۔ وقت تقاضا کر رہا ہے کہ اخوت و محبت کی اسی فضا کو پروان چڑھایا جائے، اور انہی ایا م کو ایک بار پھر لوٹایا جائے جب کوئی اکیلا فرد مصیبت میں مبتلا ہوتا تھا تو دستگیری کرنے کے لئے دسیوں ہاتھ اس کی جانب اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ اور جب نیکیاں کرنی آسان اور برائیاں کرنی مشکل ہوتی تھیں۔ پہلے آمدنیاں کم تھیں، اور گھر سادے تھے، مگر معاشرہ تھا کہ جنت نشان نظر آتا تھا۔ آج آمدنیاں لاکھوں میں پہنچ گئی ہیں، گھر محلات کی صورت اختیار کرگئے ہیں، مگر معاشرہ ہے کہ جہنم کا نمونہ بنا نظر آرہا ہے۔
جہلِ خرد نے دن یہ دکھائے!!
گھٹ گئے انساں، بڑھ گئے سائے

اس لئے ہم وہ لوگ جو خود کو اللہ کے بندے قرار دیتے ہیں، اس بات کا عہد کریں کہ محبت و اخوت کی اسی قدیم فضا کو دوبارہ پروان چڑھائیںگے۔ دوسروں کے لئے دستِ تعاون دراز کریں گے، نفرتوں کے انگارے دور کریں گے، اور شفقتوں کی کلیاں کھلائیںگے۔ آئو کہ خورشیدِ نو کا سامانِ سفر تازہ کریں۔ نہ کسی کا دل دکھائیں گے اور نہ کسی سے غلط وعدے کریں گے۔ نہ کسی کی بے عزتی کریں گے اور نہ بزرگوں کے احترام میں کمی آنے دیں گے۔ نہ کسی کو اپنی جانب سے تکلیف دیں گے اور نہ کسی نیکی کو پروان چڑھانے میں پیچھے رہیں گے۔ وقت آواز دے رہا ہے کہ لوگو باز آجائو اپنے متکبرانہ روئیے سے، کسی پر طنز کی بوچھار کرنے سے، کسی کی راہ میں مسائل کھڑے کر دینے سے، اور کسی کو انتظار کی صلیب پر لٹکائے رکھنے سے۔ یاد رکھو! تمہارے شعوری یالاشعوری رویے سے لوگوں میں بہت منفی جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ لوگ تم سے مایوس ہوتے اور خود کو بے سارا محسوس کرتے ہیں۔ دیکھو، کہ تمہارے طرزِ عمل سے کہیں کوئی مایوس تو نہیں ہو رہا؟۔ کوئی دکھ تو نہیں جھیل رہا؟۔ دانش مند تم سے ایک بار پھر کہتے ہیں: کہ تمہارے رویوں سے…
دیکھنا کہیں کوئی روٹھ نہ جائے! کہیں کوئی ٹوٹ نہ جائے