کہاں جائیں حضور!

علیٰ الصبح یا رات گئے فون کی گھنٹی بجے تو عموماً خیر کی خبر نہیں ہوتی۔ ایک ڈیڑھ ماہ پہلے اس گھنٹی میں بھی ایسا ہی تھا۔ دفتر کی طرف والی سڑک کے چوکیدار نے اطلاع دی کہ آپ کے دفتر کے ایئر کنڈیشنر آوٹرز جو باہر سڑک کی طرف چھجے پر لگے ہوئے تھے نظر نہیں آ رہے۔ صبح صبح ایسی خبر مل جائے تو آغاز ہی میں ذائقہ کڑوا ہو جاتا ہے۔ دفتر پہنچے تو معلوم ہوا کہ تین آوٹرز غائب ہیں۔ ان کے بغیر اے سی چل نہیں سکتے تھے اور قیامت کی گرمی اور حبس میں اے سی بغیر گزارا ہوتا نہیں۔ چوکیدار کو بلایا قریبی سی سی کیمروں کی فوٹیج حاصل کی۔ آوٹرز خاصے بھاری ہوتے ہیں اور زمین سے دس بارہ فٹ اوپر لگے ہوئے ہوں تو کیبل کاٹ کر انہیں لے جانا خاصا مشکل کام ہے۔ اس لیے بظاہر ایک آدمی کا کام نہیں لگتا تھا۔ چوکیدار سے جو پرانا آدمی تھا سختی سے پوچھ گچھ کی گئی۔ کچھ علم نہ ہوا۔ متعلقہ تھانے میں نامعلوم ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی۔ تفتیشی افسر صاحب تشریف لائے۔ وہ خود ہل جل کے زیادہ قائل نہیں تھے، اس لیے ان کی تفتیش میں سہولت کے لیے قریبی کیمروں کی فوٹیج کے لیے بھی ہمیں ہی بھاگ دوڑ کرنا پڑی۔ سیف سٹی کیمروں کی فوٹیج کے لیے بھی بطور مدعی گئے۔ نزدیکی دکانوں کی ایک دو فوٹیج میں رات تین بجے کے قریب وہ منہ ڈھانپے ہوئے لوگ بھی نظر آئے جو بظاہر اس کارروائی میں ملوث تھے۔ ایک مشکوک رکشا بھی دکھائی دیا جس پر یہ آوٹر رکھ کے لے جائے گئے ہوں گے۔ رکشا نمبر اور مالک کا نام بھی مل گیا۔ پولیس سے زیادہ ہم بھاگ دوڑ کرتے رہے۔ یعنی اس مالی نقصان کے بعد جو وقت کا نقصان کرنا تھا سب کیا۔ اس سے زیادہ کچھ بھی ہمارے بس میں نہ تھا۔ مجرموں کو گرفتار کرنا تو ہمار اکام نہیں تھا۔ اندازہ تھا پولیس نے بس رسمی کارروائی ہی کرنی ہے، نقصان کی تلافی ہو یا مجرم پکڑے جائیں یہ امکان تو صفر فیصد سے زیادہ نہیں۔ سو جو نقصان ہونا تھا ہوگیا آئندہ کے لیے ایسی چوری کی روک تھام کا خود بندوبست کرنا ہوگا۔ صرف اے سی آوٹرز خریدنے کے لیے جو بھاگ دوڑ کرنی پڑی سو الگ۔

زیادہ تکلیف اس وقت ہوتی ہے جب آپ بالآخر اپنے کاموں میں لگ جاتے ہیں اور پولیس بھی اسے غنیمت جان کر چپ ہوکر بیٹھ جاتی ہے۔ فائل کسی خانے میں چلی جاتی ہے، تھانے کا عملہ دیگر معاملات میں لگ جاتا ہے اور آپ صبر کے گھونٹ پی کر زندگی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ ایک اور زخم آپ کے دل پر لگ جاتا ہے۔ نظام کی نئی خرابیاں اور نئے مسائل آپ پر آشکار ہونے لگتے ہیں۔ زخموں پر نمک اُس وقت چھڑکا گیا جب معلوم ہوا کہ ہمارے ہی علاقے میں چند نشئی ایک اور جگہ کے اے سی آوٹرز چوری کرتے ہوئے رات کے وقت پولیس کے ہتھے چڑھ گئے اور تھانے میں بند ہیں۔ خیال ہوا کہ شاید یہی وہ گینگ ہے جس نے ہماری بھی چوری کی ہے۔ اس کی اطلاع اپنے تفتیشی افسر کو دی گئی۔ کچھ امید سی ہونے لگی کہ نقصان کی تلافی ہو یا نہ ہو مجرم شاید پکڑے جائیں گے۔ تفتیشی افسر ملنے آیا تو امید بھرے لہجے میں اس سے پوچھا تواس کی بے نیازی قابل دید تھی بولا: وہ نشئی تو تھانیدار نے اسی دن چھوڑ دیے تھے۔ میں حیرت زدہ ہوگیا۔ کہنے لگا: یہ جو نشئی لوگ ہیں ان کا معاملہ بڑا مشکل ہے۔ نہ ان کے رشتے دار ان کے پیچھے آتے ہیں نہ ان کی صحت اس قابل ہوتی ہے کہ ان سے باز پرس کی جائے۔ نشے کے عادیوں کو حوالات میں دورے پڑنے لگتے ہیں۔ غش کھا جاتے ہیں بے ہوش ہو جاتے ہیں۔ تفتیش ایک طرف رہی فوری طور پر ہسپتالوں میں لے جانا پڑتا ہے، لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ پولیس کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں کہ ان کی موت ہم پر ہی نہ پڑ جائے۔ کوئی اور ادارہ انہیں قبول نہیں کرتا۔ رشتے دار انہیں قبول نہیں کرتے، لہٰذا تھانے ان سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں اور انہیں زیادہ دیر تحویل میں نہیں رکھتے۔

اگر یہ بات سچ ہے جو سچ ہی لگتی ہے تو پھر یہ نشئی ایک دو دن بعد دوبارہ سڑکوں پر آجاتے ہوں گے۔ رات کے وقت شہر کے مختلف علاقوں پارکوں باغوں اور نیم تاریک علاقوں میں ان کا راج ہوتا ہے۔ کوئی بھی ایسی چیز جو اٹھا کر کاٹ کر توڑ کر کسی بھی طرح اونے پونے بیچ سکیں یہ ہمیشہ اس کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ ان میں کئی لوگ میکینک یا مستری ہوتے ہیں۔ بجلی کے تار، آوٹرز، جنریٹرز کے پرزے، سڑک کنارے لگی ٹیلی فون کیبنٹ سوئچ بٹن، بلب کچھ بھی مل جائے۔ شہر میں کئی اڈے ہیں جو یہ چوری کا مال اونے پونے خرید لیتے ہیں جن کا نقصان ہوا وہ وہی کرسکتے ہیں جو ہم نے کیا۔ پولیس رپورٹ۔ فوٹیج مجرم پکڑنے کی کوشش۔ کچھ دن یہ سب چلتا ہے پھر ہر چیز پر گرد بیٹھ جاتی ہے۔ پھر اگلی واردات پھر اگلی واردات۔ یہی شہر بلکہ ملک بھر کا مقدر ہے اور یہی ہمارا نصیب۔ نشہ انہیں کہاں سے ملتا ہے کون سے اڈے ہیں کون بیچتا اور کون خریدتا ہے۔ کیا یہ پولیس کو علم نہیں ہوگا؟

یہ زہر جس طرح طالب علموں کے خون میں سرایت کر رہا ہے جس طرح مزدور پیشہ طبقہ خاص طور پرنشے کا شکار ہورہا ہے، جس طرح معاشرے میں طرح طرح کے زہر نشے کے نام پر رگوں میں اتارے جارہے ہیں وہ معاملہ تو الگ ہے، لیکن یہ نشے کے عادی جس طرح رات کے اندھیرے میں چوریاں کر کے ہر بار بچ نکلتے ہیں یہ ایک الگ پہلو ہے اور اس سے بھی تشویشناک بات یہ ہے کہ اس کا کوئی مداوا نظر بھی نہیں آتا۔ اگر پولیس انہیں گرفتار نہیں کرتی یا تحویل میں نہیں رکھ سکتی تو پھر عام آدمی کس کے پاس جائے؟ کوئی اور ادارہ ہے اس کام کے لیے؟

میں نے یہ واقعہ صرف اس معاملے کی تازہ تر صورتحال اجاگر کرنے کے لیے لکھا ہے، ورنہ لوگوں کے کتنے کتنے بڑے نقصان ہوتے ہیں اور ہو رہے ہوں گے یہ ہمیں علم ہی نہیں۔ اس طرح کی ڈھیروں ڈھیر وارداتیں ہوتی ہیں اور بہت سے لوگ ایف آئی آر درج ہی نہیں کرواتے۔ اس سب کو لاحاصل سمجھ کر خون کے گھونٹ پی کر بیٹھ رہتے ہیں۔ وارداتیوں کا حوصلہ بڑھتا جاتا ہے کہ نہ انہیں پولیس تحویل میں لے سکتی ہے نہ انہیں سڑکوں پر کارروائی کرنے سے کوئی روک سکتا ہے۔ پولیس ان سب چیزوں سے بے نیاز ہے۔لوگوں نے اپنی حفاظت کے لیے چوکیدار رکھ لیے مسلح گارڈ رکھنے شروع کردیے۔ رہائشی علاقوں میں بیریئرز اور پھاٹک لگا لیے۔ سی سی ٹی وی کیمرے لگوا لیے۔ اپنی دکانوں اور دفتروں کے باہر سڑکوں پر بلب لگوا لیے تاکہ وارداتیں کم ہو جائیں۔ یہ سارے کام حکومت کے تھے جو ہمیں کرنا پڑے۔ چلیں یہ سب کر لیے۔ اب کیا کریں؟ اب عام آدمی مزید کیا کرے؟ اب کیا ہم تھانے بھی کھول لیں؟

پولیس کی بے نیازی کہیں ختم ہوتی ہے اور پھرتیاں دکھائی دیتی ہیں تو وہ اوپر سے آئے احکامات ہیں۔ابھی ایرانی صدر پاکستان میں لاہور کے دورے پر بھی آئے۔ ہر علاقے کی پولیس نے ایئر پورٹ سے مزار اقبال تک کے علاقے نہ صرف کاروبار کے لیے بند کروا دیے بلکہ راہگیروں کے لیے بھی گزرنا ممکن نہ رہا۔ بھاری کنٹینرز اس طرح لگا دیے گئے کہ اگر مریض ہسپتالوں تک جانا چاہیں تو کسی طرح بھی ممکن نہ ہو۔ یہ سارا علاقہ شہر کا مرکزی علاقہ ہے اور بڑی مارکیٹس اس میں آتی ہیں۔ یہ تو شہر کی سب سے بڑی سڑک کا حال تھا۔ دیگر علاقے بھی بالکل بند کر دیے گئے۔ معزز مہمان ہمارے لیے قابلِ احترام ہیں لیکن پورا شہر بند کرنے کے بجائے کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ انہیں ہیلی کاپٹر میں ایئر پورٹ سے مزار اقبال تک لے جایا جاتا؟ زیادہ سے زیادہ چند ہیلی کاپٹرز ہی تو درکار تھے۔ لاکھوں شہری قید سے بچ جاتے اور اربوں روپے کا کام ٹھپ نہ ہوتا۔ پہلے ہی کون سی چھٹیاں کم ہوتی ہیں کہ ایک ناگہانی چھٹی شہر کے سر مڑھ دی گئی۔