کبھی کولمبس کو ہندوستان کی تلاش تھی مگر وہ امریکا کی صورت میں ایک نئی دنیا دریافت کر بیٹھا۔ آج کئی صدیاں گزرنے کے بعد پاکستان نے اپنی تجارتی کشتی کو امریکا کی منڈیوں میں ڈال دیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کوئی پہلی بار امریکا تجارت کرنے جارہا ہے ، ہمارے لیے خوشی کی بات صرف اتنی ہے کہ ٹرمپ سرکار نے بھارت کے مقابلے میں ہم پر کم ٹیرف لگادیا ہے۔یوں ہمارے مالی سال کی شروعات قیمتوں میں مسابقتی برتری سے ہوگی کیونکہ امریکی ٹیرف مجوزہ 29فیصد سے کم ہوکر 19فیصد پر آ ٹھہری ہے۔ ہماری مصنوعات اب امریکی دکانوں میں بھارتی اشیاء کی بنسبت سستی دستیاب ہوں گی اور ہماری برآمدات میں بھی کتنا اضافہ ہوگا ،اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ پاکستان کی برآمدات برائے امریکا جولائی تا مارچ 2025ء کے دوران 12کھرب 10ارب روپے رہیں۔ یوں پاکستان کی کل برآمدات میں امریکی شیئر 18فیصد بنتا ہے جوکہ ٹاپ 20ملکوں میں شامل ہے۔
ویسے امریکا کے ساتھ پاکستان کی تجارت میں پلڑا ہمیشہ پاکستان کا ہی بھاری رہا ہے۔ کیونکہ اگر اسی مدت کی درآمدات کا شمار کرتے ہیں تو امریکاسے ہماری درآمدات کی مالیت محض 3ارب 70کروڑ روپے رہی ہے اورہماری درآمدات میں امریکی مصنوعات کی مالیت کا شیئر 3.2فیصد بنتا ہے۔
تازہ اطلاعات کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ نے بھارتی مصنوعات پر ٹیرف کو مزید بڑھاکر 50فی صد کردیا ہے۔ اگر یہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے یہ بھارت پر ڈیل کرنے کے لیے دباؤ کی عارضی حکمت عملی نہیں ہے اور امریکا اس پر قائم رہتا ہے تو پا کستان کے پاس امریکا کے لیے اپنی برآمدات بڑھانے اور کھربوں روپے ک زرمبادلہ کمانے کا سنہری موقع ہوگا۔ یہ کوئی خواب نہیں بلکہ حقیقت کا روپ اختیار کرنے جا رہا ہے کیونکہ اس کے پیچھے عالمی سیاست معاشی اسٹریٹیجی اور تجارتی میدان میں جہاں عالمی مقابلہ بازی جاری ہے۔ یہ پاکستان کے سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر کی سفارتی حکمت عملی کا کمال ہے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان ایک ایسا تجارتی معاہدہ طے پاگیا ہے جس میں امریکا نے پاکستانی مصنوعات پر درآمدی محصولات کم کردی ہے۔۔ اس وقت جب پاکستان کا تجارتی خسارہ 26ارب ڈالر سے زائد کا ہے ایسے میں یہ معاہدہ سالانہ کم ازکم 4ارب ڈالر کی تجارت لاسکتا ہے۔ اس معاہدے میں امریکا کو کیا نظر آرہا تھا کہ اس نے بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو ٹیرف میں کمی کرکے اس کی مصنوعات کے دروازے کھول دیے۔ صدرٹرمپ ایک زبردست عالمی تجارتی وژن رکھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ پاکستانی مصنوعات سستی لیبر کے باعث مشین سے زیادہ انسانی ہاتھوں کی کارکردگی کی بنا پر بہترین مصنوعات پیش کرتی ہیں۔اس معاہدے کے بعد پاکستان کی فیکٹریوں سے نکلنے والے تولیے، کھیلوں کا سامان، سرجیکل آلات اور دیگر مصنوعات سستے ہوجائیں گے تو امریکی انہی کو ترجیح دیں گے، کیونکہ پاکستان کا نام ہی کافی ہے اور یوں سفارتی تعلقات، امداد لینے کی پالیسی سے بدل کر زیادہ ٹیرف سے کم ٹیرف اور برآمدی مالیت پہلے سے 20فیصد سے زیادہ کے امکانات کو قوی بنا دے گا۔ اسی طرح پاکستان کی کل درآمدات میں امریکا کا حصہ محض 3.2فیصد تھا اس میں بھی اضافہ ہوگا۔
امریکا کی جانب سے یہ اقدام صرف معاشی نہیں حیران کن بھی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب امریکا جنگ سے زیادہ تجارت کو ترجیح دے رہا ہے۔ پاکستان کو تجارت کے ذریعے اپنا اتحادی بنانا یہ امریکا کی وہ گیم ہے جو وہ اکثر کھیلتا رہتا ہے لیکن اس میں ہمارا معاشی فائدہ ہے، کیونکہ عین اس وقت یہ ہماری ضرورت ہے کہ کراچی کے بندکارخانے کھلتے چلے جائیں اور پڑھے لکھے نوجوانوں کی تقدیر بدلتی چلی جائے۔ پاکستان اس معاہدے کو یورپ اور گلف ممالک میں جاکر کیش کروائے۔ پاکستان برآمدی فائل اب وائٹ ہاؤس کی میز سے اٹھائے، اس میں طرح طرح کی جدتیں پیدا کرے اور برطانیہ اور یورپی یونین کے دفاتر میں داخل کرے کہ پاکستان اب عالمی تجارت کا اہم کھلاڑی بن چکا ہے۔ ہمیں جو جی ایس پی کے تحت مراعات دی گئیں ہیں وہ خیرات میں نہیں ہم نے خود اس کا اہل ثابت کر دکھایا ہے۔ اس طرح رواں مالی سال کے اختتام تک ہماری برآمدات کی مالیت 32ارب ڈالر سے بڑھ کر 40ارب ڈالر کے لگ بھگ اور تجارتی خسارہ 20ارب ڈالر سے کم ہوجاتا ہے تو اس کا مطلب ہم نے درست تجارتی روڈمیپ کا انتخاب کرلیا ہے۔یہ ہماری ایک بڑی سفارتی کامیابی ہے۔
آخر میں تجارت سے ہٹ کر ایک گزارش ہے کہ اس کے ساتھ ہی پاکستان کو سفارتی سطح پر قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے بھی اپنی کوششوں کو اختتامی مراحل تک لانے کی کوشش کرنا ہوگی جس کے لیے وقت اب مزید انتظار کی حد سے بھی کہیں آگے جا چکا ہے، کہیں دیر نہ ہوجائے۔