بھارت میں جاری ہلچل کی خبر ہمارے ہاں نہ پہنچ جائے

ایک صحافی کے طور پر مجھے روزانہ پاکستان کے کئی اُردو اور انگریزی اخبارات کے ساتھ متعدد عالمی اخبارات، جرائد بھی دیکھنے پڑتے ہیں۔ ان میں بعض اہم بھارتی اخبارات اور انڈیا ٹوڈے، فرنٹ لائن جیسے میگزینز بھی شامل ہیں جبکہ اہم ویب سائٹس کے ساتھ بعض بھارتی اُردو اخبار بھی پڑھتا ہوں تاکہ مختلف پہلوئوں اور زاویوں سے آگہی مل سکے۔ میرا تاثر یہ ہے کہ بھارت سے مسلسل بری، افسوسناک اور وہاں کی اقلیتیوں کے لیے پریشان کن خبریں آ رہی ہیں۔ صورتحال اس قدر گمبھیر ہوچکی کہ بھارتی حکمرانوں کی عقل وفہم پر ماتم کرنے کا جی چاہتا ہے۔ حیرت ہے کہ اٹھارہ بیس کروڑ بھارتی مسلمانوں اور کروڑوں کی تعداد میں دلت اور دیگر اقلیتیوں کو پسماندہ، پریشان اور ذہنی طور پر ڈسٹرب رکھ کر وہ کیسے بھارت میں امن اور سکون قائم رکھ سکتے ہیں۔

بھارتی مسلمانوں کے لئے بہت سے مسائل چل رہے ہیں۔ متنازع وقف قانون نے بھی انہیں خاصا مضطرب کر رکھا ہے۔ اب یہ خبر آئی ہے کہ نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (این سی ای آر ٹی) کی 8ویں جماعت کی نئی سوشل سائنس کی کتاب سے مغلیہ دور کی دو اہم حکمران خواتین ملکہ رضیہ سلطانہ اور شہنشاہ جہانگیر کی اہلیہ ملکہ نورجہاں کے نام ہٹا دیے گئے ہیں۔ دی وائر اُردو کی رپورٹ کے مطابق پرانی کتاب میں 1236ء سے 1240ء تک حکومت کرنے والی رضیہ کو ان کے بھائیوں سے زیادہ اہل بتایا گیا تھا اور ان کے سکوں اور نوشتہ جات کا ذکر کیا گیا تھا۔ اسی طرح پرانی درسی کتابوں میں بتایا گیا ہے کہ نورجہاں کے نام پر مہریں جاری کی جاتی تھیں، جن میں ایسے پیغامات تھے جو انہیں جہانگیر کی برابری کا درجہ دیتے تھے۔ لیکن نئی کتاب میں ان دونوں خواتین کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ ان کی جگہ جو نئے خواتین کردار شامل کئے گئے اُن میں رانی درگاوتی، جنہیں اکبر کے خلاف بہادری سے لڑنے والی حکمران کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مراٹھوں پر مبنی باب میں تارابائی کو ایک نڈر جنگجو رانی کہا گیا ہے۔ یہ بھی پتہ چلا کہ نئی کتاب میں مغل حکومت کو جابر بتایا گیا ہے اور عدم برداشت اور مذہبی تشدد سے بھرا ہوا قرار دیا گیا ہے۔ اب اس سب کا کیا فائدہ ہوگا؟ یہ تو کسی کو پتہ نہیں، البتہ مقصد شاید یہ ہے کہ مسلم آبادی کو ذہنی کوفت دی جائے اور تاریخ کو اپنے من پسند انداز میں تبدیل کردیں۔ اس سے سوائے مذاق بننے کے کچھ نہیں ہوگا۔

دوسری طرف یہ خبر بھی آئی ہے کہ مسلمان سکالروں کے لیے مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ جسے بند کردیا گیا تھا اور اس کے لیے کئی ماہ تک باقاعدہ جدوجہد اور احتجاج کیا گیا، سکیم تو بحال ہوگئی، مگر اب مولانا آزاد فیلوشپ سکالرز کے لیے پرانے انکم سرٹیفکیٹ جمع کرانے لازمی قرار دیے گئے۔ طلبہ اور اسکالرز پریشان ہیں کہ چند دنوں کے وقت میں وہ کئی برسوں کے پرانے انکم سرٹیفکیٹ کہاں سے لائیں۔ سب سے تشویشناک اور قابل مذمت خبر بھارتی صوبہ بہار سے آئی ہے۔ بہار میں اگلے مہینے یعنی ستمبر میں صوبائی اسمبلی کے الیکشن ہو رہے ہیں۔ بہار کے الیکشن بی جے پی اور مودی جی کے لیے بہت اہم ہیں کیونکہ یہاں اِس وقت ان کے اہم اتحادی نتیش کمار کی صوبائی حکومت ہے۔ بہار میں الیکشن سے کچھ ہی عرصہ قبل الیکشن کمیشن آف انڈیا نے ایک عجیب وغریب فیصلہ کیا ہے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا بہار میں اسپیشل انٹینسو ریویژن (ایس آئی آر) کروا رہا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ووٹرلسٹوں کی جانچ کی جا رہی ہے مگر یہ سادہ جانچ نہیں بلکہ ایک طرح سے نئی ووٹر لسٹ بنانے کی کوشش ہے اور خدشہ ہے کہ کروڑوں کی تعداد میں غریب مسلمان، دلت اور دیگر پسماندہ قبائل کے ووٹر ووٹ ڈالنے سے رہ جائیں گے۔ بھارتی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ کوئی عام ریویو نہیں بلکہ یہ دراصل گیم چینجز ٹائپ اقدام ہے جسے اگر روکا نہیں گیا تو نہ صرف بہار بلکہ اگلے مرحلے میں پورے بھارت میں اس پر عملدرآمد ہوگا اور بی جے پی مخالف ووٹ بنک کا بڑا حصہ خود الیکشن ہی سے باہر کر دیا جائے گا۔

معروف بھارتی تجزیہ نگار یوگیندر یادو نے ایک تفصیلی رپورٹ میں لکھا ہے کہ بہار کی کل آبادی تقریباً 13کروڑ ہے۔ ان میں سے کوئی 8کروڑ بالغ ہیں جن کا نام ووٹر لسٹ میں ہونا چاہیے۔ ان میں سے تقریباً 3 کروڑ لوگوں کا نام 2003ء کی ووٹر لسٹ میں تھا، باقی 5کروڑ لوگوں کو اپنی شہریت کا ثبوت اکٹھا کرنا ہوگا۔ ان میں سے نصف یعنی ڈھائی کروڑ لوگوں کے پاس وہ مخصوص سرٹیفکیٹ نہیں ہوں گے جو الیکشن کمیشن مانگ رہا ہے۔

یوگیندر یادو نے اپنے تفصیلی تجزیے میں بھارتی حکومت اور الیکشن کمیشن کے بعض دعوؤں کو رد کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: یہ غلط ہے کہ اس طرح کی نظرثانی پہلے بھی ہوچکی ہے۔ اس بار جو ہو رہا ہے وہ غیر معمولی ہے۔ ووٹر لسٹ کی کمپیوٹرائزیشن کے بعد بار بار نئی لسٹ تیار کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ 22سال میں پہلی بار ہو رہا ہے۔ پہلے کبھی ووٹر لسٹ میں اپنا نام ڈلوانے کی ذمہ داری ووٹر پر نہیں ڈالی گئی تھی۔ پہلے کبھی بھی ووٹر سے شہریت ثابت کرنے کے لیے کاغذات نہیں مانگے گئے۔ پہلے کبھی انتخابات سے تھوڑا پہلے نئی فہرست تیار نہیں کی گئی۔ ابھی چھ مہینے پہلے بہار کی پوری ووٹر لسٹ پر نظر ثانی کی گئی تھی۔ لاکھوں نام شامل اور حذف کیے گئے۔ نظرثانی شدہ فہرست جنوری میں شائع کی گئی تھی۔ کسی میں بڑی گڑبڑ کی شکایت نہیں کی گئی تھی۔ جو کمی بیشی رہ گئی تھی ان کو دور کرنے کے لیے مسلسل نظر ثانی کی جا رہی تھی۔ ہر گھر میں عام طور جو شناختی کارڈ یا سرٹیفکیٹ ہوتے ہیں، اُن میں سے کوئی بھی الیکشن کمیشن تسلیم نہیں کرے گا۔ آدھار کارڈ، نہ راشن کارڈ، نہ الیکشن کمیشن کا شناختی کارڈ، نہ منریگا جاب کارڈ۔ الیکشن کمیشن نے جن 11سرٹیفکیٹ کو تسلیم کیا ہے، ان میں سے کچھ تو بہار پر لاگو ہی نہیں ہوتے ہیں یا کہیں دیکھنے کونہیں ملتے۔ کچھ چند لوگوں کے پاس ہی ہوتے ہیں، مثلاً پاسپورٹ (2.4فیصد)، پیدائش کا سرٹیفکیٹ (2.8 فیصد)، سرکاری ملازمت یا پنشنر شناختی کارڈ (5 فیصد) یا کاسٹ سرٹیفکیٹ (16 فیصد) عام گھرانوں میں نہیں پائے جاتے۔ بچ گیا میٹرک یا ڈگری کا سرٹیفکیٹ جو بہار میں آدھے سے کم لوگوں کے پاس ہے۔

”یہ حقیقت میں ان لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہے جنہیں زندگی میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس کا اثر یہی ہوگا کہ خواتین، غریب، مہاجر مزدور اور دلت قبائلی پسماندہ طبقے کے لوگ سرٹیفکیٹ دینے میں پیچھے رہ جائیں گے اور ان کے ووٹ کٹ جائیں گے۔ تعلیم یافتہ ہونا شہریت کے لیے شرط بن جائے گا۔ اگر بہار میں غیر قانونی غیرملکی شہریوں کا مسئلہ ہے تو یہ بنیادی طور پر بنگلادیش سے آنے والے مسلمانوں کا نہیں بلکہ ترائی کے نیپالیوں کا ہے، جو زیادہ تر ہندو ہیں۔ ممکن ہے کہ اس نظرثانی کی وجہ سے چند ہزار بنگلادیشی شہریوں اور دسیوں ہزار نیپالی شہریوں کے نام ووٹر لسٹ سے حذف ہو جائیں۔ لیکن اس کی وجہ سے تقریباً ڈھائی کروڑ ہندوستانی شہریوں کے نام بھی حذف ہونے کا امکان ہے۔ مکھی کو مارنے کے لیے ناک پر ہتھوڑا نہیں چلایا جاتا۔”

دلچسپ بات یہ ہے کہ انڈین سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو مشورہ دیا کہ وہ ادھار کارڈ، راشن کارڈ یا خود اپنا جاری کردہ ووٹر آئی ڈی کارڈ کو بھی تسلیم کر لے، مگر الیکشن کمیشن نے بھارتی سپریم کورٹ کو کورا جواب دے دیا کہ نہیں ہم اپنی مرضی سے ووٹر لسٹ پر نظرثانی کریں گے۔ انڈیا میں نجانے اس ڈرامے کا ڈراپ سین کیا ہوتا ہے؟ بہار کے بعد دیگر صوبائی انتخابات میں بھی اس کھیل کو دُہرایا جاتا ہے یا نہیں، یہ پتہ چل جائے گا۔ بھارت میں سول سوسائٹی، جمہوری، سیاسی حلقے اس پر احتجاج کر رہے ہیں۔ ہمیں تو فکر پاکستان کی لاحق ہوگئی ہے کہ کہیں ہمارے الیکشن کمیشن کو یہ نادر آئیڈیا پسند نہ آجائے۔ پنجاب میں خاص کر صوبائی حکومت اپنی اپوزیشن جماعت کے ووٹ بنک سے پریشان بلکہ خاصی نالاں ہے۔ کہیں یہاں پر بھی نئی ووٹر لسٹ کے بہانے کروڑوں ووٹرز کو ووٹ کے حق سے محروم کئے جانے کا نہ سوچ لیا جائے۔ ہمارے ہاں تو آج کل پُرامن سیاسی احتجاج کرنا بھی ممکن نہیں اور جوڈیشل ایکٹو ازم کا تو خیر سے کب کا خاتم ہوچکا، ریلیف کہاں سے ملے گا؟ امید کرنی چاہیے کہ بھارت سے آنے والی یہ خبریں ہمارے الیکشن کمیشن اور حکومتی منصوبہ سازوں سے اوجھل رہ جائیں۔