پاکستان میں ایک بار پھر بحث چل پڑی ہے کہ اس نظام نے ملک کو کیا دیا، نام نہاد جمہوری نظام جس میں بنیادی سہولیات سے لیکر امن اور انصاف تک ہر شعبہ تنزلی کا شکار ہے، یہ نظام ڈلیور کرنے میں ناکام کیوں رہا ہے؟ کیا سول بیوروکریسی اس کی راہ میں بڑی رکاٹ رہی ہے؟ یا سیاست دان یا ریاستی ادارے، کئی سوال ہیں،البتہ ایک بات واضح ہے کہ کہ سول سرونٹ یعنی نوکر شاہی کا وہ نظام جو انگریز نے ترتیب دیا تھا،ان کی حکمرانی پانچ سال نہیں بلکہ تیس سال تک مسلسل رہتی ہے اور اس کے بعد بھی یہ پس پشت حکمران ہی رہتے ہیں، رہی بات سیاستدانوں کی تو یہ چند روپوں اور پروجیکٹس پر دستخط کروانے کے بعد اس نوکری شاہی کی خاموش مددگار ہوتی ہے، پچھتر برس گزرنے کے باوجود اس نوکر شاہی کا نام صرف تبدیل ہوکر رہ گیا ہے، یہ سول بیوروکریٹس ہی ہیں جو اسمبلیوں سے لیکر عدالتوں کے احکامات میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں اور کاغذی کارروائیاں کر کرکے وقت ضائع کرتے ہیںالبتہ جہاں ان کا مفاد اور حصہ ہو وہاں کاغذوں کو پر لگ جاتے ہیں، پولیس سے لیکر کسٹم تک ایف آئی اے سے لیکر مینجمنٹ تک ہر جگہ سول بیوروکریسی کی کرپشن کی ہزار داستانیں ہیں، لیکن کوئی ان کے خلاف ایکشن لینے کو تیار نہیں، صحافی بھی گھوم پھر کر سیاست دانوں اور مذہبی رہنماوں اور چند تاجروں کے خلاف لکھ کر خوش ہوجاتے ہیں، یا انہیں بلیک میل کرتے ہیں، لیکن بات اگر کسٹم آفیسرز کی ہو تو وہاں یہ چپ ہوجاتے ہیں، شاید ان کے مفادات جڑے ہوئے ہیں،اسی طرح کرائم رپورٹرز ڈی آئی جی کے ساتھ تصویر میں آنے کیلئے بیتاب نظر آتے ہیں، یہی وہ وجوہات کہ اس نظام سے بھروسہ ختم ہوگیا ہے، پاکستان جو اسلام کے نام پر بنا تھا،اس میں اسلامی نظام نفاذ نہیں ہوسکا، سپریم کورٹ کے فیصلوں کے باوجود سودی نظام کو ختم کرنے میں یہی سول بیوروکریسی رکاوٹ ہے، رہی بات ان کے اثاثوں اور دوہری شہریت کی تو،وزارت خارجہ کے افسران و ملازمین سے لیکر ہر شعبے طبقے کے صرف پرتگال میں نہیں دنیا بھر کے ملکوں کے شہری ہیں،سوائے چند ایک کو چھوڑ کر ہر افسر ہر نوکر اس چکر میں ہے کہ کسی طرح وہ یورپ و دیگر ممالک میں اپنے خاندان کو سیٹ کرواسکے، یہی وہ وجوہات ہیں جس کی بنا پر پاکستان کا نوجوان طبقہ اس نظام سے مایوس ہے، وہ حقیقی تبدیلی چاہتا ہے، وہ اس گلے سڑے نظام کا خاتمہ چاہتا ہے اور جن کو یہ احساس ہورہا ہے کہ تبدیلی نہیں آسکتی وہ ملک چھوڑ کر جارہے ہیں، اس سال صرف چھ ماہ میں تین لاکھ سے زیادہ افراد ملک سے جاچکے ہیں اور مزید ملک چھوڑنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
یہ سول بیوروکریسی ہی ہے جس نے سابقہ فاٹا اور اور بلوچستان میں ترقیاتی کاموں کی بجائے ملَکوں اور سرداروں کو مضبوط کیا، یہ سول بیوروکریسی ہے جو صرف کاغذی کارروائیوں پر کھیلتی ہے، یہ سول بیوروکریسی ہی ہے کہ کونسلر سے لیکر ضلعی چیئرمین تک، صوبائی اسمبلی کے ممبر سے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کو چند ذاتی فوائد دیکر عوام کو حقیقی فوائد سے محروم رکھتی ہے، ان کو پیٹرول،ڈیزل سے لیکر بجلی گیس تک میں رعایت ہے اور عوام کو لوڈشیڈنگ مہنگی بجلی گیس بے روزگاری کا سامنا ہے، ان کے خاندان کے افراد کو سرکاری نوکری گھر بیٹھے مل جاتی ہے اور نوجوان بے روزگار رہتے ہیں،کیا اب بھی اس ظام اور اس سے مستفید ہونے والے طبقے کی حکمرانی کے خاتمے کا وقت نہیں آیا؟
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ وطن عزیز کی آدھی سے زیادہ بیوروکریسی پرتگال میں پراپرٹی لے چکی ہے اور شہریت لینی کی تیاری کر رہی ہے۔ اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ یہ نامی گرامی بیوروکریٹس ہیں اور یہ مگر مچھ اربوں روپے کھا کے آرام سے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے ہیں۔خواجہ آصف نے کہا کہ بزدار کا ایک قریب ترین بیوروکریٹ بیٹیوں کی شادی پر صرف چار ارب سلامی وصول کر چکا،اب آرام سے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہا ہے۔وزیر دفاع کا مزید کہنا تھا کہ سیاستدان تو ان کا بچا کھچا کھاتے ہیں، ان کے پاس پلاٹ ہے نہ غیر ملکی شہریت کیونکہ الیکشن لڑنا ہوتا ہے۔
خواجہ صاحب باتوں سے کچھ نہیں ہوتا، آپ خود پچھلے چالیس برسوں سے اسی نظام کا حصہ ہیں، آپ نے ہی چالیس برسوں میں اس نظام کو مضبوط کیا ہے، آپ کی جماعت ہی اس ملک میں اسلامی نظام کی راہ میں بڑی رکاوٹ رہی ہے، آپ کی جماعت ان کے اشاروں پر نانچتی رہی ہے، چودہ اگست ایک بار پھر آنے کو ہے، لیکن پاکستان آج بھی کالے انگریز کے اشاروں پر چل رہاہے، اسرئیل کو تسلیم کرنے کیلئے ذہن سازی کی جاری ہے، کشمیر کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے، خواجہ صاحب آپ کو ہندوستان میں ستارے اور مسلم پڑوسی ملک افغانستان میں کانٹے نظر آتے ہیں، اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے صرف بیانات سے کام نہیں چلے گا۔
حقیقی تبدیلی تب ہی ممکن ہے جب نوجوان سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے چکر سے باہر آئیں گئے،ورنہ یہ سیاسی مداری اپنے مفادات کیلئے ملک میں نظام تبدیل نہیں کرنے دیں گے، مزید یہ کہ تبدیلی کے لیے چند عملی اور واضح اقدامات ضروری ہیں۔ پہلی اور ضروری شرط ہے احتساب کا ایک مضبوط، خودمختار اور غیرجانب دار ادارہ جو ہر سطح پر شفاف تفتیش کر سکے ، صرف بیوروکریٹس ہی نہیں بلکہ سیاسی رہنما، عسکری افسران اور ان کے خاندانی نیٹ ورکس بھی اس میں شامل ہوں۔ دوسرا، تقرریوں اور ترقیوں میں مکمل شفافیت لائی جائے، میرٹ کو مضبوط بنایا جائے اور سیاسی سفارشات کو ختم کیا جائے تاکہ سرکاری مشینری عوام کے لیے موثر بنے۔ تیسرا، بلدیاتی انتظامیہ کو حقیقی خودمختاری دی جائے تاکہ فیصلے مقامی ضروریات کے مطابق کیے جا سکیں اور وسائل براہ راست عوام تک پہنچیں۔ چوتھا، عدالتوں اور انتظامی مشینری کے مابین حدود کو واضح کیا جائے، آئینی اداروں کے دائرہ کار اور ذمہ داریوں کی نفاذی قانون سازی ضروری ہے تاکہ ایک ادارہ دوسرے پر غیر ضروری دباؤ نہ ڈال سکے۔ پانچواں، میڈیا اور صحافتی آزادی کو تحفظ دیا جائے، صحافیوں کو قانونی تحفظ اور شفافیت کے قوانین کے تحت سہولت ملے تاکہ وہ بے خوفی سے بدعنوانیوں کی نشاندہی کر سکیں۔
معاشی اصلاحات بھی اسی عمل کا لازمی جز ہیں، ٹیکس اصلاحات، مالیاتی شفافیت، عوامی منصوبوں کا معیار کنٹرول اور عوامی پیسوں کا ریکارڈ شائع کیا جائے۔ نوجوان طبقے کے لیے روزگار کے واضح راستے کھولے جائیں، ہنر مند تربیت اور چھوٹے کاروبار کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ ہجرت کا رجحان کم ہو۔ آخر میں اسلامی اصولوں کو محض نعروں کی بجائے انصاف، شفافیت اور مساوات کے عملی زاویوں کے طور پر نافذ کیا جائے، یہ تبھی ممکن ہے جب قانون، ادارہ جاتی اصلاحات اور عوامی شراکت ساتھ چلیں۔ اگر یہ اقدامات مستقل اور بے لاگ کیے جائیں تو نوکر شاہی کے تسلط کو کافی حد تک محدود کیا جا سکتا ہے اور عوامی اعتماد بحال ہو سکے گا۔