دنیا میں اللہ تعالیٰ کی جتنی نعمتیں ہیں اُن میں سب سے بڑی نعمت ایمان ہے۔ اس کی حفاظت ہر مسلمان پر فرض ہے۔ اگر اسلام کی حفاظت کے لیے مسلمانوں کو جان، مال اور نسل (اولاد) سب کچھ قربان کر دینے کی نوبت آئے تو بھی اس سے دریغ نہ کرے۔ آج دنیا کی لذتوں کی قدر ہے، آخرت میں جنت کی لذت لیں گے تو سمجھ میں آئے گا کہ جنت کے مقابلے میں دنیا کی لذت کی کوئی حیثیت نہیں۔ لیکن یہ دنیا اُسی حد تک مفید ہے جب تک کہ اس کے ذریعے اللہ کی فرماںبرداری کی جائے۔
قارون کو اللہ تعالیٰ نے ”حافظِ تورات” بنایا تھا مگر دنیا کی محبت اس میں اتنی داخل ہوگئی کہ وہ زکوٰة دینے سے انکار کرنے لگا اور دین سے پھر گیا۔اللہ تعالیٰ نے اسے پوری دولت کے ساتھ زمین میں دھنسا دیا۔ اس کے دھنسنے سے پہلے بہت سے لوگ اس کی دولت پر رال ٹپکا رہے تھے مگر جب معلوم ہوا کہ وہ عذاب میں گرفتار ہوگیا تو لوگوں نے کہا: توبہ توبہ، دنیا کوئی چیز نہیں، مال ودولت سب فانی ہیں، باقی صرف اللہ کی ذات ہے اور آخرت کا ثواب سب سے بہتر ہے اور وہ ایمان اور عمل صالح پر جمنے کے بعد ہی نصیب ہوگا۔دنیا میں اللہ کا پیغام نبیوں نے پہنچایا ہے، خود اس پیغام پر ایمان لائے اور عمل کر کے دوسروں کو بتایا۔ لوگوں کو ایمان کی دعوت دی، ماننے والوں کو جنت کی خوش خبری دی اور نہ ماننے والوں کو جہنم سے ڈرایا۔ اس دنیا میں نبیوں کے علاوہ کسی کے ایمان کے باقی رہنے کی کوئی گارنٹی نہیں۔ پھر بھی انبیائے کرام علیہم السلام نے ایمان کی فکر کی، ایمان کے ضائع ہونے سے ڈرنے اور ڈرتے رہنے کی تلقین فرمائی۔ مگر آج حیران کن امر یہ ہے کہ جن لوگوں نے انگریز اور ان کے افعالِ بد کے خلاف جدوجہد کی ان کی اولاد الحاد کے ہاتھوں ڈھیر ہو گئی
ایمان دے کے مول لیا عشق فتنہ گر
بازی لگا کے جیت کا گھر دیکھتے رہے
جاوید اختر انڈین فلم انڈسٹری کے نامور کہانی نویس اور گیت نگار ہیں۔ وہ اعلانیہ ملحد ہیں۔ ان کے بچے زویا اور فرحان اختر بھی اسی نظریے کے علمبردار ہیں۔ جاوید کی بیوی ہنی کا تعلق ایران سے ہے اور وہ زرتشتی مذہب سے تعلق رکھتی ہیں۔ اس خاندان کی تاریخ دیکھیں تو حیران کن حقائق ہمارے سامنے آتے ہیں۔ جاوید اختر کے پردادا علامہ عبدالحق خیرآبادی اپنے وقت کے بڑے عالم دین تھے۔ انہوں نے تسہیل الکافیہ، شرح مرقات، حاشیہ حمداللہ، حاشیہ مسلم الثبوت اور حاشیہ قاضی مبارک جیسی علمی و دینی کتب تصنیف کی تھیں، جو آج بھی برصغیر کے مدارس کے نصاب کا حصہ ہیں۔ یہ علمی و دینی خانوادہ صدیوں پر محیط روایت کا امین تھا، مگر آج اس خانوادے کے فکر و فہم کی عظیم میراث جاوید اختر اور ان کے بچوں تک آ کر دم توڑ چکی ہے۔ یہ المیہ صرف ایک خاندان تک محدود نہیں بلکہ اس صف میں کئی نامور نام آتے ہیں۔ پاکستانی فلم اور ڈرامہ انڈسٹری کے مشہور اداکار سعود کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ان کا تعلق مولانا قاسم نانوتوی کے خاندان سے ہے۔ وہی مولانا قاسم نانوتوی جنہوں نے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی اور علم و فکر کی ایک نئی تحریک برپا کی۔ بھارتی فلم انڈسٹری میں اہم مقام رکھنے والے نورالدین کا تعلق بھی اسی نانوتوی خاندان سے ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد جو نہ صرف جید عالم دین تھے بلکہ تحریک آزادی ہند کے رہنما، صحافی اور مفسر قرآن بھی تھے۔ عامر خان جو بھارتی فلم انڈسٹری کے سپر اسٹار ہیں ان کی دادی آمنہ مولانا ابوالکلام آزاد کی بہن فاطمہ کی بیٹی تھیں۔
سوال یہ ہے کہ ٹھیٹھ مذہبی خاندانوں سے تعلق رکھنے کے باوجود مذکورہ خاندانوں میں بے دینی اور الحاد در آنے کی متعدد وجوہا ت ہیں۔ مثلاً جب کسی خاندان میں مذہب اور اہلِ مذہب کا مذاق اُڑانا معمول بن جائے تو یہ محض زبان کی لغزش نہیں رہتی بلکہ ایک فکری رویہ بن جاتا ہے جو آہستہ آہستہ دلوں سے دین کی حرمت اور سنجیدگی کو مٹا دیتا ہے۔ قرآن بار بار خبردار کرتا ہے کہ اللہ کی آیات کا مذاق نہ اڑاؤ کیونکہ یہ رویہ دل کو سخت اور آنکھوں کو اندھا کر دیتا ہے۔ جب کسی خاندان کے بچے مسلسل یہ رویہ دیکھتے ہیں جس میں دین کے شعائر، علماء یا دینی تعلیمات کو طنز کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو وہ لاشعوری طور پر دین کو کم تر سمجھنے لگتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آنے والی نسلیں مذہب کے احترام کے بجائے اسے محض سماجی روایت اور فرسودہ نظریہ تصور کرتی ہیں اور اس طرح دین ان کی زندگیوں سے نکل جاتا ہے
محبت ابتدا میں کچھ نہیں معلوم ہوتی ہے
مگر پھر دشمنِ ایمان و دیں معلوم ہوتی ہے
دوسری وجہ عقلیت پسندی ہے۔ عقل اور وحی کا صحیح مقام یہ ہے کہ عقل رہنمائی کے لیے وحی کی محتاج رہے مگر جب انسان وحی کو پسِ پشت ڈال کر محض اپنی عقل کو فیصلوں کا آخری معیار بنا لیتا ہے تو وہ حقیقت کو محدود انسانی فہم کی عینک سے دیکھنے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں جتنے بھی فکری انحرافات پیدا ہوئے ان کی جڑ میں وحی سے بے نیازی اور عقل پر غیر مشروط اعتماد کارفرما تھا۔ وحی انسان کو کائنات کے محدود فہم سے نکال کر اس کی حقیقتوں سے جوڑتی ہے اور عقل کو وحی سے الگ کر دینے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان خواہ کتنا ہی صاحب علم کیوں نہ ہو وہ اپنی زندگی کے بڑے سوالات مثلاً مقصدِ حیات، خیر و شر اور آخرت کے انجام کو درست طور پر نہیں سمجھ سکتا۔ اس رویے کا سب سے زیادہ نقصان آنے والی نسلوں کو ہوتا ہے جو دین کے حقیقی تصور کو جاننے کے بجائے محض عقلی مفروضوں میں الجھ کر رہ جاتی ہیں
حسنِ بتاں کا عشق میری جان ہوگیا
یہ کفر اب تو حاصل ایمان ہوگیا
خواہشات کی غلامی بھی انسان کو بے لگام اور اس کی فطرت مسخ کر دیتی ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ جو شخص اپنی خواہش کو اپنا خدا بنا لے وہ گمراہی کے راستے پر چل پڑتا ہے۔ جب نسلوں کی تربیت خواہشات کی بنیاد پر ہو، ان کے فیصلے مادی منفعت، شہرت اور وقتی فائدے پر ہوں تو دین پر استقامت باقی نہیں رہتی۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نئی نسل دین کو صرف اسی حد تک قبول کرتی ہے جہاں تک وہ ان کی خواہشات سے نہ ٹکرائے
دین و ایمان پر گری بجلی
لگ گئی آگ پارسائی میں
اسی طرح ایک بڑی وجہ اولاد کی دینی تربیت سے غفلت ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ اگر والدین اولاد کو دینی ماحول فراہم نہ کریں، دین کے احکام کو روزمرہ زندگی میں نہ برتیں اور محض دنیاوی کامیابی کو معیار بنائیں تو بچے بھی اسی کو کامیابی سمجھنے لگتے ہیں
کر اپنی نظر سے مرے ایمان کا سودا
اے دوست تجھے میری محبت کی قسم
دنیاوی علم بلاشبہ ضروری ہے مگر جب اسے دین کے علم پر ترجیح دی جائے اور وحی کے علم کو غیر متعلق سمجھا جائے تو نئی نسل کے ذہن میں دین محض ایک تاریخی یا ثقافتی چیز بن کر رہ جاتا ہے
میں ہوں بیچتا دھرم و ایمان و دیں
اگر کوئی آ کر خریدار ہو
دینی علم انسان کو اپنی اصل پہچان، مقصدِ زندگی اور اخلاقی بنیادیں سکھاتا ہے اور جب نئی نسل کی تعلیم و تربیت میں یہ پہلو کمزور پڑ جائے تو ان کی سوچ سے اللہ کا تصور، آخرت کا خوف اور حلال و حرام کی تمیز مٹنے لگتی ہے
ایک ایمان ہے بساط اپنی
نہ عبادت نہ کچھ ریاضت ہے
نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ظاہری طور پرتو ترقی یافتہ بن جاتے ہیں مگر باطنی طور پر ایمان کی روشنی سے محروم ہو جاتے ہیں اور یہ محرومی نسل در نسل چلتی ہے
کافر کی چشم ناز پہ کیا دل جگر کا ذکر
ایمان تک نثار کیا ہائے کیا کیا
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی نسلوں کو اس سے محفوظ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!