ٹرمپ اور نیتن یاہو انسانیت کے مجرم ہیں

عالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق غاصب و ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کے جنگی جرائم کے لیے عالمی عدالت انصاف کو مطلوب ملزم وزیر اعظم نیتن یاہو نے امریکا کے بدکردار صدر ٹرمپ کی پشت پناہی سے غزہ میں بدترین نسل کشی کے باوجود اپنے شیطانی عزائم میں ناکامی اور خفت مٹانے کی خاطر اب ایک بار پھر تمام بین الاقوامی قوانین کو روندتے ہوئے غزہ پر مکمل قبضے کے منصوبے پر کام شروع کردیا ہے اور خود اسرائیلی فوج کے سربراہ ا یال زامیر کی شدید مخالفت اور مزاحمت کے باوجود ٹرمپ اور نیتن یاہو کی جوڑی فلسطینیوں کو ان کو ان کی جدی پشتی سرزمین سے نکالنے کے لیے کمر بستہ ہے۔

معرو ف اسرائیلی اخبار ہاریٹز کی رپورٹ کے مطابق نیتن یاہو صرف اپنی حکومت اور سیاست بچانے کے لیے اسرائیل کو پوری دنیا کے سامنے ذلیل کروارہا ہے اور غزہ کے دوملین شہریوں کو بھوک کے ہتھیار سے شکست دینے کی اس کی حکمت عملی ناکام ہوچکی ہے، وہ حکمت عملی جو اس نے امریکا کے غیر متوازن ذہنیت کے حامل صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایما اور اپنی کابینہ کے زیادہ زہریلے صہیونی وزرا سموتریش اور بن گویر کے مشورے پر اختیار کی تھی مگر یہ حکمت عملی پوری دنیا میں اسرائیل کی پہلے سے بڑھی ہوئی بدنامی میں مزید اضافے کا باعث بنی۔ اخبار کے مطابق غزہ کی ناکہ بندی کی ناکام حکمت عملی کی طرح اب غزہ پر مکمل قبضے کے تباہ کن عزائم کو بھی ٹرمپ انتظامیہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ خود امریکا سمیت دنیا کے مختلف شہروں میں لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل کر غزہ پر بھوک مسلط کرنے کی امریکا و اسرائیلی پالیسی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں مگر ٹرمپ اور نیتن یاہو کی جوڑی ٹس سے مس نہیں ہورہی۔

آج دنیا کا ہر چشم بینا رکھنے والا شخص دیکھ رہا ہے کہ کس طرح ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت غزہ میں لاکھوں بے گناہ انسانوں کو بھوک کے ہتھیار سے موت کی بھٹی میں جھونکا جارہا ہے۔ یہ انسانیت کے خلاف اتنا بڑا اور بھیانک جرم ہے کہ تاریخ صدیوں تک اس کے ذمہ داروں پر نفرین بھیجتی رہے گی، ان ذمہ داروں میں پہلے نمبر پر امریکا کے بدکردار، اسلام دشمن اور متعصب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا نام آئے گا جو اپنی سفلی افتاد طبع ، متلون مزاجی اور اخلاقی دیوالیہ پن کے لحاظ سے کسی چھوٹی تجارتی کمپنی کی سربراہی کا بھی اہل نہیں ہے مگر یہ شاید یہ امریکا کی بدقسمتی اور اس کی صدیوں کی بد اعمالیوں کی سزا ہے کہ ایسا بدبودار کردار اس وقت امریکا جیسے سپر پاور کہلانے والے ملک کے منصب صدارت پر براجمان ہے۔ ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ٹرمپ اور نیتن یا ہو کی شیطانی جوڑی کے انسانیت کے خلاف جرائم ناقابل معافی ہیں اوریہ پوری انسانی برادری کا فرض ہے کہ وہ انسانیت کو اس ذہنی مریض جوڑی کے شر سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔ ورنہ تاریخ دنیا کے دیگر حکمرانوں بالخصوص تہذیب اور انسانیت کے علم بردار یورپی ممالک کے حکمرانوں کو بھی معاف نہیں کرے گی۔

غزہ میں آج کل مسلط کردہ بھوک اور افلاس کے ہاتھوں انسانیت پر جو کچھ بیت رہا ہے، وہ ناقابل بیان ہے۔ تازہ اطلاعات کے مطابق غزہ میں خوراک کی کمی کے بعد اب پانی کا ایک سنگین بحران جنم لے رہا ہے جس سے غزہ کے لوگوں کی مصیبتوں میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ قابض اسرائیل کی منظم پالیسیوں اور دانستہ رکاوٹوں کے نتیجے میںانسانی بحران کی شدت میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سرکاری دفتر برائے اطلاعات نے بتایا ہے کہ ایک دن میں 80 امدادی ٹرک ہی غزہ کی پٹی میں داخل ہو سکے جبکہ موجودہ حالات میں غزہ کی پٹی کو روزانہ کم از کم 600 امدادی اور ایندھن سے بھرے ٹرکوں کی ضرورت ہے۔ محاصرے کے باعث نہ دوا میسر ہے نہ تشخیص کی سہولیات۔ یہ محض اموات نہیں بلکہ ایک تیزی سے بڑھتی ہوئی وبا کا الارم ہے۔ غزہ میں سماجی خدمات سے وابستہ غیر سرکاری تنظیموں کے اتحاد ‘ این جی اوز نیٹ ورک’ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امجد الشوا نے خبردار کیا کہ غزہ کا محصور علاقہ ایک ایسی ہمہ گیر قحط کی طرف بڑھ رہا ہے جو دو ملین سے زاید انسانی جانوں کو نگل سکتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ غزہ میں غذائی اور طبی نظام مکمل طور پر منہدم ہو چکا ہے اور قابض اسرائیل کی مسلسل محاصرانہ پالیسی اور امداد کی فراہمی میں دانستہ تاخیر اس صورتحال کو مزید خطرناک بنا رہی ہے۔ غزہ کے ہسپتال روزانہ دو سو سے زاید ایسے مریضوں کو وصول کر رہے ہیں جو شدید بھوک، کمزوری اور غذائی قلت کا شکار ہیں۔ یہ دل دہلا دینے والا منظر نامہ بچوں، بزرگوں اور خواتین سمیت ہر عمر کے افراد کو متاثر کر رہا ہے۔ اب تک بھوک کے باعث شہید ہونے والوں کی تعداد 180 سے تجاوز کر چکی ہے، جن میں اکثریت معصوم بچوں کی ہے۔ لیکن اصل اعداد و شمار اس سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں کیونکہ بڑی تعداد میں بزرگ، بیمار اور معذور افراد طبی سہولیات کی عدم دستیابی کے سبب خاموشی سے دم توڑ رہے ہیں۔ اسی اثنا میں انسانی حقوق کی فلسطینی تنظیم ”الضمیر” نے انکشاف کیا کہ غزہ میں امریکا اور قابض اسرائیل کی جانب سے قائم کردہ امدادی مراکز کے قریب 54 فلسطینی شہری لاپتا ہو گئے جن کے بارے میں کوئی اطلاع دستیاب نہیں۔ یہ تمام افراد امداد حاصل کرنے کی نیت سے ان مراکز تک پہنچے تھے، مگر اس کے بعد ان کے بارے میں کوئی اطلاع سامنے نہیں آئی۔ حالیہ دنوں میں امدادی مراکز کے قریب لاپتا ہونے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ان مراکز پر موجود افراد کو صہیونی درندگی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ان کی لاشیں بھی وہاں سے ہٹانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ بعض صورتوں میں قابض اسرائیلی بلڈوزر لاشوں کو بھی کچل کر مٹی میں ملا دیتے ہیں۔ سات اکتوبر سنہ2023ء سے شروع ہونے والی اس انسانیت سوز جارحیت میں اب تک مجموعی طور پر 60,933 شہادتیں ہو چکی ہیں اور زخمیوں کی تعداد 150,027 تک جا پہنچی ہے۔ غزہ میں گزشتہ تقریباً 2 سال سے جاری اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اوسطاً ہر گھنٹے میں ایک فلسطینی بچہ شہید ہوا۔ 7 اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیلی بمباری اور محاصرے کے نتیجے میں اب تک 18 ہزار 592 فلسطینی بچے شہید ہو چکے ہیں جو گزشتہ 22 ماہ کے دوران غزہ میں ہونے والی کل اموات کا 31 فیصد ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس صریح دہشت گردی، کھلی سفاکیت اور ننگی جارحیت پر انسانیت کا ضمیر آخر کب جاگے گا اور کب عالمی برادری زبانی احتجاج اور پھسپھسے اقدامات سے آگے بڑھ کر انسانیت کے خلاف جرائم روکنے اور مجرموں کا محاسبہ کرنے پر کمر بستہ ہوگی؟ اور ایک چیختا ہوا سوال یہ بھی ہے کہ امت مسلمہ غزہ کے مسلمانوں کی نسل کشی پر خواب غفلت سے کب بیدار ہوگی؟