گزشتہ کچھ عرصہ سے غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے یا اضافہ تو نہیں ہوا مگر واقعات زیادہ رپورٹ ہوئے ہیں جو مسلسل میڈیا کی زینت بن رہے ہیں۔ میڈیا پر وائرل ہونے والے کسی بھی واقعہ کی تصدیق یا تکذیب تب تک ممکن نہیں ہوتی جب تک اس کی مکمل تحقیق نہ کر لی جائے کیونکہ بسا اوقات واقعہ کچھ اور ہوتا ہے مگر اسے کسی اور رنگ میں پیش کر کے عوامی جذبات کو ابھارا جاتا ہے۔ بعد میں میں معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ تو اس طرح تھا ہی نہیں بلکہ یہ حقیقت کے برعکس رپورٹ کیا گیا۔
بہرحال غیرت کے نام پر قتل تو ہمارے معاشرے کی ایک شرمناک حقیقت ہے جو انسانیت سوز ظلم ہے جس میں کئی طرح کی خرابیاں پائی جاتی ہیں، یہ اپنی اولاد کو اپنا غلام سمجھنے کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے۔ کچھ لوگ اولاد پر اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ خاص طور پر شادی کے معاملہ میں بعض والدین کی” غیرت” گوارا نہیں کرتی کہ بچے اپنی پسند کا اظہار کریں۔ یہاں خالصتاً والدین کی مرضی تھوپنے کی کوشش کی جاتی ہے جس میں بچوں کو اپنی رائے تک دینے کی اجازت نہیں ہوتی۔ خاندان کے بزرگ بچے یا بچی سے اس کی رضامندی پوچھنے تک کی زحمت نہیں کرتے بلکہ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچوں کا رشتہ طے کیا جا رہا ہوتا ہے اور انہیں معلوم ہی نہیں ہوتا بلکہ بزرگ خود ہی چپکے چپکے سب معاملات طے کر دیتے ہیں جس کا رشتہ طے کیا جا رہا ہے، اسے باہر کہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا رشتہ طے ہو رہا ہے یا بعض کیسز میں ہو چکا ہے اور اسے کان و کان خبر کی نہیں۔ اب یہ لاکھ روئے پیٹے، چیخے چلائے لیکن اب والدین کا مان بن جاتا ہے، بیٹی کو خاص طور پر کہا جاتا ہے کہ بیٹیوں پر والدین کو بڑا مان ہوتا ہے جہاں انہوں نے رشتہ طے کر دیا اب وہاں بیٹیاں ان کا مان رکھتی ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کی بہت بڑی جہالت ہے کہ اولاد کو جھوٹی عزتوں اور مان کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے ۔پھر کیا ہوتا ہے اگر بچوں لڑکا ہو یا لڑکی وہ رشتہ اگر پسند نہ ہو تو ساری زندگی سمجھوتہ کرتے ہی گزر جاتی ہے۔ اصل میاں بیوی کے پیار اور سکون کا مزہ وہ نہیں لے سکتے ۔یوں والدین کی جہالت کی وجہ سے ان کی زندگی برباد ہو جاتی ہے۔ کئی بار چاہ کر بھی وہ ایک دوسرے کو نہیں چاہ سکتے۔
اچھا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ لڑکے والے رشتہ لے کر آتے ہیں لڑکی انہیں پسند ہے اور لڑکی والوں کو بھی لڑکا پسند آ گیا، لڑکا اچھا اور سلجھا ہوا ہے، اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن کہیں سے انہیں معلوم ہو جائے کہ لڑکی کی پہلے سے خواہش تھی کہ میری شادی یہاں ہو تو اب صرف اس وجہ سے وہاں رشتہ نہیں کیا جاتا کہ لڑکی کی اتنی جرات کہ وہ کسی کو پسند کرے، اگر ہماری لڑکی بھی چاہتی ہے کہ یہاں شادی ہو تو اب تو بالکل یہاں نہیں کرنی یعنی معاشرہ جہالت کی انتہاؤں کو چھو رہا ہے۔
خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی مواقع پر لڑکوں ہی نہیں لڑکیوں کی مرضی اور پسند کو بھی مد نظر رکھا ہے جبکہ اللہ کے رسول سے زیادہ غیرت والا کون ہو سکتا ہے؟ اپنی بیٹی سیدہ فاطمة الزہرہ رضی اللّہ عنہا سے بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے رشتہ کے لیے اجازت طلب کی۔ اسی طرح ایک صحابیہ کی شادی اس لیے ختم کرا دی کہ وہ اس شادی کے لیے رضامند نہیں تھیں۔ ہمارا دین جو غیرت اور شرم و حیا کے فروغ میں اپنا ثانی نہیں رکھتا وہ تو ہمیں یہ ترغیب دے رہا ہے کہ بچوں پر اپنی مرضی مسلط نہ کرو بلکہ رشتہ طے کرنے سے پہلے ان کی اجازت طلب کرو اگر وہ انکار کر دیں تو انہیں مجبور نہ کرو، ان پر کسی طرح کا جبر نہ کرو چاہے وہ جبر مار پیٹ کی صورت میں ہو یا جذباتی طور پر ہو جیسے والدین بچوں کے انکار پر رونا اور آنسو بہانا شروع کر دیتے ہیں یا اپنے دوپٹے اور پگڑیاں اتار پر پاؤں میں رکھ دیتے ہیں۔ اب بچے والدین کے آنسو یا پاؤں میں دوپٹے یا پگڑیاں دیکھ کر خاموش ہو جانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ سب جاہلانہ اور غیر شرعی بلکہ غیر اخلاقی حرکات ہیں جنہوں نے کئی زندگیاں تباہ کی ہیں۔
میں یہاں پر بھاگ کر شادی کرنے یا کورٹ میرج کو ہرگز سپورٹ نہیں کر رہا ،بے شک اسلام میں نوجوانوں کو شادی کے لیے اپنے ولی ( والدین،سرپرست وغیرہ ) سے مشورے کا پابند بنایا گیا ہے اور ولی کی اجازت کے بغیر شادی کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے جس میں بہت سی مصلحتیں ہیں لیکن اگر کوئی ایسے کر لے تو یہ اتنا بڑا جرم نہیں کہ اس پر اسے قتل کر دیا جائے ۔ حنفی مذہب میں دو بالغ مرد اور عورت شرعی گواہوں کی موجودگی میں باہمی رضامندی سے نکاح کرلیں تو نکاح ہوجاتا ہے۔ یہ کوئی قابل تعزیر جرم نہیں ہے، اسے غیر اخلاقی حرکت ضرور کہا جا سکتا ہے لیکن اس پر کسی کو قتل کر دینا اس سے کہیں بڑا اور ناقابل معافی جرم ہے اور اگر اس کے پیچھے وجہ جاننے کی کوشش کی جائے تو ہمیں یہی نتیجہ ملتا ہے کہ اگر بچے بھاگ کر یا چھپ کر شادی کرتے ہیں تو اس کے پیچھے بھی والدین کی غلطی ہوتی ہے کہ والدین کے سخت رویے کی وجہ سے بچے ان سے خوفزدہ رہتے ہیں اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ اگر ہم نے والدین کے سامنے اپنی پسند کا اظہار کر دیا تو ہمیں سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا اور والدین کبھی بھی ہماری پسند پر راضی نہیں ہوں گے جس کی وجہ سے وہ ایسا قدم اٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
اس سے بچنے کے لیے والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے ہی بچوں کی دینی خطوط پر اچھی تربیت کریں تاکہ بچے کسی بھی طرح کی غیر اخلاقی حرکات میں پڑیں ہی نہیں اور دوسرا یہ کہ بچوں کو اپنے ساتھ اتنا مانوس کریں اور بچوں کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کر کے رکھیں کہ بچے آپ سے خوفزدہ نہ ہوں بلکہ اپنے دل کی ہر بات آپ کے سامنے رکھ سکیں اور آپ سے اس پر گفتگو کر سکیں یوں اگر بچوں کو کوئی شادی کے لیے پسند آتا بھی ہے تو وہ اس کے ساتھ بھاگنے یا کوئی غلط قدم اٹھانے کی بجائے صورتحال آپ کے سامنے رکھیں گے۔ پھر آپ اس پر غور کریں اور بچوں کی پسند کے مطابق ان کی شادیاں کروانے کی کوشش کریں۔ جب بچوں کو اس بات کا اطمینان ہوگا کہ ہمارے والدین ہماری پسند و ناپسند کا خیال رکھیں گے تو بچے کسی بھی طرح کا غیر اخلاقی قدم اٹھانے سے پہلے آپ سے اس موضوع پر بات کریں گے اور آپ کے سامنے اپنے دل کی بات رکھیں گے۔
یہ تو والدین کی ذمہ داری تھی کچھ ذمہ داریاں حکومت کی بھی ہیں کہ پہلے تو عوام کی دینی اور اخلاقی تعلیم و تربیت پر توجہ دے ان میں شعور پیدا کرے، انہیں معلوم ہو کہ غیرت کس کو کہتے ہیں اور اولاد کی شادیاں کرانے میں ان کی پسند و ناپسند کا ان کی زندگی پر کیا اثر پڑتا ہے اور اگر کوئی بچہ یا بچی اپنی پسند سے شادی کر لے تو اس کے ساتھ کیسا رویہ رکھا جائے اور جو لوگ غیرت کے نام پر قتل میں ملوث ہیں انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ اس سلسلے کو بند کیا جا سکے۔