جامن کے دو پیڑ

محال سی بات لگنے لگتی ہے اگر یہ پتا چلے کہ حکومت کوئی تحفہ بالکل مفت آپ کے گھر کے دروازے پر پہنچانا چاہتی ہے۔ پہلے تو پڑھ کر آنکھوں پر یقین نہیں آتا، پھر خیال آتا ہے کہ اس میں ضرور کوئی گڑبڑ ہے ورنہ حکومت اور مفت تحفہ؟ خواہ کتنا ہی کم قیمت کیوں نہ ہو۔ بہت سے ملکوں کے بارے میں روز پڑھتے سنتے ہیں کہ فلاں ملک میں حکومت فلاں سہولت کی مفت پیشکش کر رہی ہے تو لگتا ہے کہ وہ کوئی اور دنیا ہے۔ ہوتا ہے تو ہوا کرے، یہ ہمارے ہاں کیسے ممکن ہے۔ ہم تو واسا کی طرف سے صاف پانی بلکہ صرف پانی کی مصیبتیں بھگتتے پھرتے ہیں۔ وہ پانی جو پینے کے قابل نہ سہی کم از کم قابلِ استعمال تو ہو۔ وہ پانی جو قدرت کی طرف سے مفت آسمان سے برستا اور زمین سے نکلتا ہے، یہاں اس پانی کیلئے سو جتن کرنا پڑتے ہیں۔ ٹینکر مافیا اور کراچی تو لازم وملزوم ہیں۔ دوسرے شہروں میں بھی پانی کے محکمے کا بس نہیں چلتا کہ لوگوں کو پیاسا مار دے۔ لوگ پینے کیلئے ڈسپنسر اور فلٹر لگوانے پر مجبور ہیں۔ باقی رہا قابلِ استعمال پانی تو قطرے قطرے کو ترسانے کے بعد یہ محکمہ اس پر مطمئن ہے کہ لوگ لاکھوں خرچ کرکے بورنگ کروا رہے، ٹینک بنوا رہے اور موٹریں لگوا رہے ہیں۔ اس محکمے کا مقصد اب پانی بھیجنا نہیں صرف بل بھیجنا ہے۔

لوگوں نے مجبور ہو کر سولر پینل لگوا لیے، گلیوں میں نجی گارڈز رکھ لیے، بیریئر اور پھاٹک لگوا لیے، خود سڑکیں اور راستے بنا دیے۔ سرکاری اداروں کا حال دیکھ کر نجی تعلیمی ادارے کھول لیے، چندہ کرکے خود مسجدیں بنا لیں تو حکومت مزید مطمئن ہو گئی کہ اچھا ہوا اس کے کام عوام نے اپنے ذمے لے لیے لیکن پھر اس کا دھیان اس پر گیا کہ ذاتی خرچ سے لگوائی گئی ان چیزوں سے حکومت کیسے پیسے اینٹھ سکتی ہے۔ اب سارے محکمے اسی فکر میں رہتے ہیں کہ ان چیزوں سے پیسہ کیسے بٹورا جائے۔ حکومت کے ذمے جان ومال کی حفاظت، پانی کی فراہمی، بجلی کی فراہمی، مسجدوں، اسکولوں کی تعمیر اب ہے ہی نہیں، نہ وہ اپنا یہ کام سمجھتی ہے۔ اب حکومت کا کام بس یہ ہے کہ عوام کی ذاتی چیزوں سے پیسے کیسے اکٹھے کرے۔

ان حالات میں کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ حکومت لوگوں کو بالکل مفت تحفے دے سکتی ہے، چنانچہ جب میں نے اشتہار پڑھا کہ پنجاب ہارٹی کلچر اتھارٹی (پی ایچ اے) جو صوبے میں پارکوں، گرین بیلٹس اور آرائشی پودوں کی نگران ہے نے کہا ہے کہ وہ صوبے میں ہر گھر کیلئے بالکل مفت دو پودے نہ صرف فراہم کرے گی بلکہ اس کے مالی خود لگا کر جائیں گے تو مجھے یقین نہیں آیا۔ تفصیل یہ تھی کہ محکمے کی ہیلپ لائن پر کال کرکے اپنے مطلوبہ پودے لکھوا دیں۔ انار آم جامن پلکن رات کی رانی شہتوت چاندنا کچنار گل چین املتاس ہار سنگھار وغیرہ دو کا انتخاب کر لیں۔ پی ایچ اے 20 جولائی سے اس مہم کا آغاز کر رہی تھی۔ میں نے کال ملائی تو شناختی کارڈ نمبر اور پتا پوچھا گیا، مطلوبہ پودے دریافت کیے گئے۔ بتایا گیا کہ آٹھ یا نو دن کے اندر پودے لگا دیے جائیں گے۔ سب کام مکمل ہوا تو موبائل پر میرا آرڈر نمبر وصول ہو گیا۔ مجھے خوشی ہوئی کہ ایک اچھی مہم کا آغاز ہوا ہے اور حکومتِ پنجاب نے شاید پہلی بار گھروں پر کوئی کام کی چیز مفت پہنچانے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں مریم نواز صاحبہ کا زیادہ یا کم حامی کبھی نہیں رہا لیکن پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ان کے دور میں کئی کام بہت بہتر نظر آ رہے ہیں۔ جس طرح بلاامتیاز بازاروں اور سڑکوں پر شہروں اور دیہات سمیت پورے پنجاب میں تجاوزات کا خاتمہ کیا گیا، پرانے سیوریج کا نظام جو لوگوں کیلئے عذاب بنا ہوا تھا بہتر کیا گیا، ریڑھی بانوں کیلئے جدید اور خوبصورت ریڑھیوں کا انتظام کرکے ایک قاعدے میں پابند کیا گیا، وہ سب بلاشبہ قابلِ تعریف اقدام ہیں اور ان کی پذیرائی کی جانی چاہیے۔ مخالفت برائے مخالفت کو چھوڑ دیا جائے تو دیکھا جا سکتا ہے کہ اس برسات میں لاہور میں اس طرح سڑکیں سمندر اور دریا نہیں بنیں جیسے ہر سال ہوا کرتی تھیں۔ لاہور سمیت پنجاب کے اکثر شہروں میں کئی ترقیاتی کام بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ سب کچھ بہترین نہ سہی، عثمان بزدار کی گم سم وزارتِ اعلی کے مقابلے میں بہرحال بہت فرق نظر آتا ہے۔

چنانچہ پنجاب حکومت کا یہ فیصلہ بھی بنیادی طور پر بہت اچھا ہے، اگر اس پر ٹھیک عملدرآمد ہو کہ گھروں میں مفت پودے فراہم کیے جائیں گے۔ ایک طرف یہ پودے صوبے کی خوبصورتی بڑھائیں گے، ہریالی میں اضافہ ہو گا، ماحولیاتی تبدیلیوں اور اسموگ کے معاملات بہتر کرنے میں مدد ملے گی۔ یہ ویسے بھی شجرکاری کا موسم ہے۔ بہت سے لوگوں کو نرسریاں جانے کا وقت نہیں ملتا، کئی جگہ مالی نہیں ہوتا۔ لوگ خوش ہوں گے کہ کبھی نہ کبھی بالآخر ان سے کچھ لینے کی بجائے کچھ دیا گیا ہے۔ حکومت کا تاثر بہتر ہوگا۔ غرض منصوبہ بہت اچھا تھا لیکن بات وہی کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ دل میں یہی آتا رہا کہ فیصلہ اچھا سہی کیا پی ایچ اے کا عملہ اس پر ٹھیک عملدر آمد ہونے دے گا؟ یہ ایک بڑا سوال تھا اور اس کا جواب بہت جلد مل گیا۔ فون آیا کہ آپ کے پودے لا رہا ہوں، لوکیشن بھیجئے۔ کچھ دیر میں پی ایچ اے کا مالی گھر آگیا۔ حیرت ہوئی کہ سب کام ٹھیک کیسے ہو رہا ہے۔ پھر پوچھنے پر اس نے بتایا کہ جو پودے آپ نے لکھوائے تھے وہ تو ہمیں اوپر والوں نے نہیں دیے، جامن کے دو پودے البتہ دیے ہیں، آپ وہی لگوا لیں۔ جامن میرے مطلوبہ پودوں میں تھا ہی نہیں۔ پوچھا کہ مطلوبہ پودے کیوں نہیں ملے؟ بولا: وہ ختم ہو چکے ہیں۔ اندازہ کیجیے کہ 20 جولائی کو اس مہم کا آغاز ہوا۔ اسی دن کال کی گئی۔ دو دن بعد پودے بھیجے گئے تو ساتھ یہ خوشخبری بھی تھی کہ پودے ختم ہو چکے ہیں۔ جامن لگوانا ہے تو لگوا لیں۔ جامن کا درخت ہر جگہ کہاں لگ سکتا ہے۔ اس کیلئے کھلی جگہ چاہیے اور کسی کو پھول دار بیل چاہیے تو وہ جامن کا کیا کرے گا۔ یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اچھے اور قدرے مہنگے پودے حکام نے اپنے افسروں دوستوں اور عملے کیلئے رکھ لیے اور وہ پودے بھیج دیے گئے جن کی کسی کو ضرورت ہی نہیں۔ ایسا دودھ جس میں مینگنیاں تھیں، تحفے میں بھیج دیا گیا۔

یہ حشر کرتا ہے ہر محکمہ کسی بھی اچھے فیصلے کا۔ ظاہر ہے کہ حکومت یا پی ایچ اے کے ڈائریکٹر نے خود جاکر پودے نہیں لگانے، عملہ ہی یہ کام کرے گا۔ دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو ایک ہی دن میں مطلوبہ پودے ختم ہو گئے۔ اگر ایسا ہے تو اس فضول منصوبہ بندی کا ذمہ دار کون ہے۔ وہ پودے اتنی کم تعداد میں کیوں تھے جو ایک دن بھی نہیں نکال سکے۔ دوسرا امکان جو زیادہ قرین قیاس ہے یہ کہ پودے موجود تھے لیکن عملے افسران اور حکام نے اپنے اور اپنے دوستوں کیلئے بچا کر رکھ لیے اور سستے پودے بھیج کر خانہ پری کر دی۔ ایک چھوٹے سے پودے میں کتنے پیسے بچا لیے ہوں گے انہوں نے؟ ایک پودا کوئی لاکھوں کروڑوں کا تو ہوتا نہیں لیکن اگر ایسا ہوا ہے تو یہ ظاہر کرتا ہے کہ محکموں کے عملوں میں نیچے سے اوپر تک کس طرح بددیانتی اور کرپشن کا راج ہے جو کسی اچھے فیصلے کو بھی چلنے نہیں دیتا۔

یہ تحریر وزیراعلی تک تو کہاں پہنچے گی، یہ تو شاید ڈی جی پی ایچ اے تک بھی نہ پہنچ پائے لیکن اگر لاکھ میں سے ایک امکان کے طور پر کسی فیصلہ ساز تک پہنچ جاتی ہے تو وہ یہ بات سمجھ لے کہ اگر لوگ بورنگ کروا سکتے ہیں، سولر لگوا سکتے ہیں تو دو پودے بھی خرید سکتے ہیں۔ فیصلہ ساز یہ فیصلہ کریں کہ اس مہم کی بربادی کا ذمہ دار کون ہے؟ وہ فیصلہ کریں کہ صوبے میں جامن کے لاکھوں نئے پیڑوں سے حکومت کو کیا فائدہ ہو گا؟ جو مجھے درکار تھا آپ نے بھیجا نہیں، اس لیے یہ جامن کے دو پودے آپ ہی کی نذر ہیں، میں بغیر جامن ہی خوش ہوں…