مشینی کتے

یکطرفہ شرمناکی
جماعتِ اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا کہنا ہے کہ سینیٹ کے انتخاب میں جو شرمناک کھیل کھیلا گیا وہ افسوسناک ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے سینیٹ کے انتخاب میں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کا کردار شرمناک ہے۔ حافظ جی نے یہ واضح نہیں کیا ایسی کیا شرمناکی ہے جو انھیں اپوزیشن جماعتوں میں نظر آئی ہے اور مسٹر گنڈا پور کی حکومت میں نظر نہیں آئی۔ گنڈا پور تو ان جماعتوں کو فارم 47والا کہتے ہیں اور جماعت اسلامی کا بھی موقف یہی ہے۔ پھر ایسی کون سی مجبوری تھی کہ گنڈا پور نے کم از کم ایک سیٹ اپوزیشن کو یعنی جعلی ارکان اسمبلی کو ہدیے میں پیش کی۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اپوزیشن تھوڑا اور زور لگاتی تو یہ نتیجہ اس کے الٹ بھی ہو سکتا تھا۔ یعنی چھ اس کی ہوتیں اور پانچ حکومت کی بلکہ اگر زرداری فارمولا چلتا تو پی ٹی آئی کو چار نشستیں ہی ملنا تھیں۔ سات نشستیں اپوزیشن کو مل جاتیں۔ کہیں حافظ صاحب یہ تو نہیں کہنا چاہ رہے کہ اپوزیشن نے سات کی بجائے 5نشستوں پر کیسے قناعت کی اور سمجھوتا کر لیا۔ ہو سکتا ہے دو نشستوں کے خسارے کو حافظ جی شرمناک کہہ رہے ہوں۔
٭٭٭
روبوٹ برادری، خطرۂ انسان
چینی روبوٹکس کمپنی یو بی ٹیک نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے دنیا کا پہلا ایسا انسان نما روبوٹ تیار کر لیا ہے جو نہ صرف خود کار طریقے سے کام کر سکتا ہے بلکہ چارجنگ کم ہونے پر خودکار طریقے سے اپنی بیٹری بھی تبدیل کر سکتا ہے۔ کمپنی کے مطابق یہ واکر ایس ٹو نامی روبوٹ تین منٹ سے بھی کم وقت میں بغیر بند ہوئے اپنی بیٹری تبدیل کر سکتا ہے جس سے یہ مسلسل کام کرنے کے قابل ہوجاتا ہے اور اس میں انسانی مداخلت کی ضرورت نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے۔ انسان نے اپنی سہولت کے لیے بہت روبوٹ بنا لیے ہیں۔ آئے روز روبوٹ برادری کو جو ترقی ملتی جا رہی ہے۔ اس نے بہہہہہت سارے انسانوں کو نکما اور فارغ کردیا ہے بلکہ یہ روبوٹ انسانوں کے لیے بہت بڑا خطرہ بن گئے ہیں۔ بہت ساری ملازمتیں اور نوکریاں داؤ پہ لگی ہوئی ہیں۔ گویا روبورٹ برادری میں اضافہ کر کے ترقی یافتہ ممالک نے اپنے ملک میں بیروز گاری کا سامان پیدا کیا ہے ۔ یہ بھی خبریں ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک تیزی سے قاتل روبوٹ تیار کررہے ہیں۔ مصنوعی ذہانت سے ایسی مشینیں تیار کی جا رہی ہیں جو خودکار طریقے سے اپنے ہدف چنیں گی اور انہیں نشانہ بنائیں گی۔ اب یہ روبورٹ کب کس کو اپنا مخالف اور دشمن سمجھ لیں اور ان مشینوں کو استعمال کرنے والا کب کیسے انھیں استعمال کر لے۔ جیسے بعض وڈیرے بے بس اور کمزور لوگوں پر کتے چھوڑ کے تماشا دیکھتے ہیں، یہی کام یہ ترقی یافتہ ممالک اپنے مخالفین پر مشینی (انسان نما) کتے چھوڑ کر کریں گے۔
٭٭٭
یہ ہوئی نہ بات!!!
گزشتہ روز پاکستان اور افغانستان کے درمیان میں دوطرفہ تجارت کے فروغ کے لیے آٹھ زرعی اجناس کی تجارت پر ترجیحی ٹیرف کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ یکم اگست سے اس معاہدے پر عمل شروع ہوگا۔ فی الحال اس کی مدت ایک سال رکھی گئی ہے۔ اس معاہدے کے تحت دونوں ملک آٹھ زرعی اجناس پر محصولات 60فیصد سے کم کر کے 27فیصد کرنے کے پابند ہوں گے۔ وزارت صنعت و تجارت کی جانب سے مولوی حمد اللہ زاہد اور وزارت تجارت پاکستان کے سیکریٹری جاوید پال نے افغان دارالحکومت کابل میں اس معاہدے پر دستخط کیے ہیں ۔ معاہدے کے مطابق افغانستان سے پاکستان برآمد کیے جانے والے انگور، انار، سیب اور ٹماٹر جبکہ پاکستان سے افغانستان جانے والے آم، کینو، کیلا اور آلو پر یہ ٹیرف کم کیا گیا ہے۔ مستقبل میں اس معاہدے میں توسیع کی جا سکے گی اور اس میں مزید چیزیں بھی شامل کی جا سکیں گی۔
٭٭٭
حکومتی خوف
فرانسیسی خبر رساں ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں، بدترین لوڈشیڈنگ اور بجلی کے شعبے میں انتہائی بدانتظامی کے باعث شہری تیزی سے قومی گرڈ کو چھوڑ کر شمسی توانائی (سولرپاور) کی طرف جارہے ہیں۔ یہ رجحان اب صرف امیر طبقے تک محدود نہیں رہا بلکہ متوسط اور نچلے طبقے کے گھرانوں میں بھی تیزی سے پھیل رہا ہے۔ 2020ء میں شمسی توانائی کا حصہ صرف 2 فیصد تھا اور پانچ سال میں یہ بڑھتے ہوئے 24فیصد ہوچکا ہے۔ یعنی 5سالوں میں اس رجحان نے پانچ فیصد ترقی کی ہے۔ قومی گرڈ صارفین میں اس کمی نے حکومت کو خاصا خوف زدہ کیا ہے، اس لیے حکومت نے درآمدی پینلز پر 10فیصد ٹیکس عائد کردیا ہے۔ حکمران طبقے کے بیانات سے کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ حکومت اس عوامی رجحان کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے نہ تو اس کے پیچھے عوام کے لیے کسی حکومتی پالیسی کا ہاتھ ہے نہ ہی حکومت اسے دل سے پسند کرتی ہے اور شاید اس بڑھتے ہوئے رجحان کے سامنے بند باندھنے کے لیے ہی ٹیکس لگایا گیا ہے ۔ یہ رجحان در اصل عوام کی طرف سے مجبوری و مایوسی کا اظہار ہے اور اپنی مدد آپ کے تحت انھوں نے یہ راستہ اختیار کیا ہے۔ حکومت کو چاہیے وہ عوام کو سزا دینے کی بجائے سہارا دے۔
٭٭٭
ہندوستانی پی ٹی آئی
کیا آپ جانتے ہیں کہ ہندوستان میں بھی پی ٹی آئی ہے؟ نہیں جانتے تو چلیے آج جان لیجیے! ہندوستان کے ایک خبر رساں ادارے، ایجنسی کو پی ٹی آئی کہتے ہیں۔ ہندوستانی پی ٹی آئی مخفف ہے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کا۔ 1947ء سے پہلے یہ اے پی آئی ہوا کرتی تھی یعنی ایسوسی ایٹڈ پریس آف انڈیا۔ بٹوارے کے بعد اس نے اپنا نام تبدیل کر لیا۔ اب اس کا پورا نام پریس ٹرسٹ آف انڈیا لمیٹڈ ہے۔ ہندوستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق یہ نجی نیوز ایجنسی ہے تاہم بعض حلقوں میں اسے نیم سرکاری سمجھا جاتا ہے اور کچھ لوگ سرکاری ہی سمجھتے ہیں ۔ اس لیے کہ یہ سرکاری پالیسی کی ترجمان رہی ہے۔ البتہ اب کچھ ذرائع کے مطابق اس نے ہندوستانی حکومت پر تنقید ی خبروں کو زیادہ اہمیت دینا شروع کیا ہے۔ گویا آزاد پنچھی ہونے کا ثبوت دینے کا موڈ رکھتی ہے۔