سانحۂ بلوچستان۔قاتلوں کو تاویل کی رعایت نہ دیں

کوئٹہ کے نواحی علاقے ڈیگاری میں ہونے والے المناک واقعے نے ہر ایک کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس حوالے سے سامنے آنے والی کہانی میں بعض تضادات ہیں اور موقف کمزور لگ رہا ہے۔ اس علاقے تک میڈیا کی رسائی نہیں تو ڈائریکٹ انفارمیشن حاصل کرنا قدرے مشکل ہے۔ جو اطلاعات چھن چھن کر ہم تک پہنچ رہی ہیں، ان کا تجزیہ ہی کر کے رائے بنا سکتے ہیں۔ تین باتیں تو بالکل صاف اور واضح ہیں۔ پہلی یہ کہ ایک مرد اور عورت کو نہایت بے رحمی اور سفاکی سے مجمع کے سامنے قتل کیا گیا۔ دوسرا یہ کہ اس کا فیصلہ مقامی جرگے نے کیا، جس پر عمل درآمد ہوا۔ تیسرا یہ کہ اس معاملے میں بے خوفی، بے شرمی اور ڈھٹائی اس انتہا تک پہنچی تھی کہ ایسا خونیں جرم کرتے ہوئے اسے چھپانے کی بجائے اس کی ویڈیو بنواتے رہے اور قتل کے 4، 5ہفتوں بعد، جب یہ معاملہ نمایاں نہیں ہوا، تب اس ویڈیو کو وائرل کیا گیا۔ یعنی قاتلوں کا گروہ نہ صرف اس قتل پر شرمسار نہیں، اس پر فخر کر رہا ہے بلکہ اسے قانون کا ذرا برابر بھی ڈر نہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کی نام نہاد جھوٹی غیرت کا یہ مظہر گھر گھر پہنچے اور ہر جگہ ان کی ہیبت بیٹھ جائے۔

ویڈیو جب پولیس تک پہنچی اور اس کے بعد میڈیا پر آئی تو ابتدا میں لگا کہ شاید یہ کسی لڑکے اور لڑکی کی محبت کا روایتی کیس ہے جو قبائلی رسم و رواج کی نذر ہوگیا۔ پھر کچھ مزید تفصیلات آئیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ عورت شادی شدہ اور 5بچوں کی ماں تھی جو محبت کی وجہ سے گھر چھوڑ کر ایک مرد کے ساتھ چلی گئی اور پھر 40دنوں کے بعد واپس آگئی اور خاتون اسی شوہر کے ساتھ رہنے لگی جس کو چھوڑ کر گئی تھی۔ جس کے ساتھ گئی تھی، وہ مرد بھی اپنے گھر رہنے لگا، چند ماہ بعد پھر دونوں میں تعلق پیدا ہوا، مرد نے ٹک ٹاک ویڈیوز کے ذریعے خاتون کی بدنامی شروع کر دی تو تنگ آ کر دونوں قبیلوں نے انہیں پکڑا اور جان سے مار دیا۔ اس کہانی میں تنگ آ کرکے الفاظ نہ صرف خوفناک ہیں بلکہ وہ قاتلوں کی کھلی حمایت کے برابر ہیں۔ گزشتہ روز وزیراعلیٰ بلوچستان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ دونوں مقتولین میں شادی نہیں ہوئی تھی اور دونوں کے 5، 5 بچے ہیں۔ وزیراعلیٰ نے تاہم یہ بات زور دے کر کہی کہ ان کی حکومت جرگہ سسٹم کو سپورٹ نہیں کرے گی اور قاتلین کو سزاہوگی۔ یہ بھی کہا کہ کیس حکومت کی مدعیت میں دائر کیا جائے گا تاکہ فریقین صلح کر کے کیس ختم نہ کر دیں۔

ابتدا میں نجانے کہاں سے یہ کہانی آئی کہ خاتون کا نام شیتل اور مرد کا نام زرک ہے۔ شاید یہ کسی قبائلی لوک کہانی کے کردار بھی ہیں۔ بہرحال اب یہ واضح ہوچکا ہے کہ اصل نام یہ نہیں۔ مقتولین کا تعلق کوئٹہ سے لگ بھگ 45 کلومیٹر مشرق میں واقع گاؤں ڈیگاری سے ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ڈیگاری اور اس کے ساتھ دیگر ملحقہ علاقے مارواڑ اور مارگٹ دشوار گزار پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہیں۔ یہاں بلوچوں کے ساتکزئی اور سمالانی قبائل کے علاوہ دیگر بلوچ قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد آباد ہیں۔ ان علاقوں میں کوئلے کی کانیں ہیں جبکہ مقامی لوگ بکریاں چرانے کا کام بھی کرتے ہیں۔ جو ویڈیو سامنے آئی، اس میں کئی لوگ براہوی بولتے سنائی دیے۔ بظاہر لہجہ وہی ہے جو کوئٹہ اور مستونگ کے بعض علاقوں میں بولا جاتا ہے۔ ویڈیو میں خاتون نور بانو یہ بھی کہتی ہے کہ صرف گولی مارنے کی اجازت ہے اسکے علاوہ کچھ نہیں۔ شاید وہ یہ کہنا چاہ رہی تھی کہ مارپیٹ یا تذلیل نہ کی جائے۔ ایک آواز یہ بھی سنائی دیتی ہے کہ قرآن مجید ان کے ہاتھ سے لے لو۔ ویڈیو میں خاتون کے ہاتھ میں قرآن پاک نہیں دکھایا گیا، مگر اندازہ یہی ہے کہ اس کے ہاتھ ہی میں ہوگا۔ چند لمحوں کے بعد گولیاں چلنے کی آوازیں آتی ہیں، لمحاتی وقفے کے بعد دوبارہ گولیاں چلتی ہیں اور مرد کو بھی قتل کر دیا جاتا ہے۔

پولیس کے مطابق مقتولہ کا نام بانوستک زئی جبکہ مقتول سمالانی قبیلے کا احسان اللہ سمالانی ہے۔ خاتون کی عمر 37، 38 سال جبکہ احسان اللہ 45، 50 سال کا بتایا جا رہا ہے۔ بانو کو 8 اور احسان اللہ کو 9 گولیاں ماری گئیں۔ یہ المناک واقعہ کوئی ڈیڑھ ماہ قبل یعنی 4 جون کو ہوا تھا۔ دونوں مقتولین کو الگ الگ قبرستانوں میں دفنایا گیا۔ ممکن ہے قبیلے والوں کو خدشہ ہو کہ ان کی روحیں آپس میں نہ مل جائیں۔ پولیس ایف آئی آر کے مطابق سردار نے اپنے فیصلے میں کہا کہ یہ کاروکاری کے مرتکب ہوئے ہیں، انہیں قتل کرنے کا فیصلہ سنایا اور پھر 15 لوگ ان دونوں کو لے کر سنجیدی میدان پہنچے۔

مجھے اس کہانی میں شک ہے کہ مقتولہ خاتون بانو مقتول احسان اللہ کے ساتھ چلی گئی تھی اور پھر 40 دن بعد وہ واپس آئی، اس کے شوہر نے اسے قبول کر لیا اور وہ اکٹھے رہنے لگے، چند ماہ بعد پھر سے بانو اور احسان اللہ کے مابین رابطہ اور تعلقات کی خبرملی تب دونوں مقامی سطح پر قبائلی ردعمل سامنے آیا۔ یہ بات ہضم ہونے والی نہیں۔ جس طرح کا یہ قبائلی علاقہ اور سماج ہے، وہاں پر کوئی خاتون اپنے خاوند اور بچوں کو چھوڑ کر کسی دوسرے مرد کے ساتھ چلی جائے اور پھر مہینے ڈیڑھ بعد واپس آئے تو اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اسے قبول کر لیا جائے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ وہ اگر گھر چھوڑ کر گئے تھے تو واپس کیسے اور کیوں آئے؟ پھر اگر بالفرض واپسی ہوگئی تھی تب بھی کم از کم مرد کے لیے اس گاؤں میں رہنا ممکن نہیں تھا۔ یہ سب من گھڑت کہانی لگ رہی ہے۔ اصل حقائق معلوم نہیں کیا ہیں، ان تک رسائی شاید ممکن بھی نہ ہو کہ وہ دونوں دنیا سے چلے گئے اور ان کا اگر کوئی محرم راز ہوا بھی تو وہ اپنی جان بچانے کے خوف سے خاموش ہی رہے گا۔

دیہی سندھ اور بلوچستان کے بعض علاقوں میں کاروکاری کے نام پر قتل کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ عام طور سے صرف شبہے میں بھی ایسا کر دیا جاتا رہا ہے۔ ضروری نہیں کہ واقعی خاتون گھر چھوڑ کر جائے، کئی ایسے کیسز بھی رپورٹ ہوئے، جس میں من گھڑت الزام اور اہل خانہ میں سے کسی کے حسد، بغض یا ہمسایوں میں سے کسی کی سازش نے معاملہ اتنا سنگین کر دیا کہ قتل تک بات جا پہنچی۔ ویڈیو میں ایک اور بات صاف نظر آ رہی ہے، وہ خاتون کی استقامت اور جرأت۔ اس کے اندر موت کا خوف نہیں جھلک رہا۔ ایسا تب ہوتا ہے جب کوئی انسان بے گناہ ہو اور اس میں ِگلٹ موجود نہ ہو۔ بہرحال ایک بات جس پر ہر ایک کو یکسو اور کلیئر ہوجانا چاہیے، وہ یہ کہ کسی انسان کی جان لینے کا حق کسی بھی فرد، گروہ، قبیلے، جرگے وغیرہ کو ہرگز ہرگز حاصل نہیں۔ اس پر ہم سب کو واضح موقف لینا چاہیے۔ ایسا ہر قتل غلط، ناجائز، ظلم عظیم ہے۔ سزا دینا صرف عدالت کا کام ہے اور وہاں غیر جانبداری سے ملزموں کو سننا، ان کے موقف کو جاننا لازمی ہے۔ ہر گناہگار اور مجرم کو بھی اپنی بات کہنے کا حق حاصل ہے، وہ اپنا موقف بیان کرے اور پھر عدالت شواہد کی بنیاد پر فیصلہ سنائے۔ شریعت بھی یہی کہتی ہے، قانون، اخلاقیات بھی یہی بتاتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ ہمیں غیرت کے اس جھوٹے اور وحشیانہ تصور سے باہر آجانا چاہیے۔ کسی مرد کو اگر یہ شبہ ہے کہ اس کی بیوی اس کے ساتھ وفادار نہیں، اس کے کسی دوسرے سے تعلقات ہیں تو اس کے پاس ایک ہی آپشن ہے، اپنی بیوی سے بات کرے، اس کا موقف جاننے کی کوشش کرے۔ اگر وہ مطمئن نہیں ہوتا تو پھر علیحدگی اختیار کرے۔ طلاق دے کر اس سے الگ ہوجائے۔ اس سے زیادہ کچھ کرنے کا اسے اختیار نہیں اور نہ ہی غیرت کے نام پر وہ اپنی بیوی یا کسی دوسرے کی جان لینے کا حق رکھتا ہے۔

اس کیس میں دو باتیں بہت ہی اہم ہیں۔ جن کی وجہ سے ضروری ہے کہ اس واقعے کے مرتکب ہر مجرم کو سخت ترین سزا ملے۔ انہیں نشان عبرت بنایا جائے تاکہ آئندہ کوئی ایسا کام کرنے سے پہلے یہ سمجھ لے کہ پھر اسے بھی نہیں بچنا۔ جس مقامی جرگے اور لوگوں نے یہ فیصلہ سنایا، انہوں نے قانون کا مذاق اڑایا، شریعت کی بھی توہین کی اور من مانی کی بدترین مثال قائم کی۔ انہیں ہرگز نہ چھوڑا جائے۔ جن لوگوں نے یہ ویڈیو وائرل کی وہ بھی مجرموں کے ساتھی ہیں۔ ورنہ اگر کسی نے مقتولین کی ہمدردی میں ویڈیو وائرل کرنا ہوتی تو وہ 35 دن انتظار نہ کرتا۔ اسی دن یا اگلے دن ہی ویڈیو انٹرنیٹ پر آ جاتی۔ اس لیے وائرل کرنے والوں کو بھی قانون کی گرفت میں آنا چاہیے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ سماج کی تربیت کی جائے۔ علمائے دین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو شریعت کی تعلیمات سے آگاہ کریں۔ انہیں بتائیں کہ جب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایسے مقدمات آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طرزعمل کیا تھا؟ یہ بھی کہ غیرت کے نام پر قتل کرنے کی اجازت ہوتی تو تب ایسا کر دیا جاتا۔ شریعت نے اس کا پورا طریقہ بتا دیا ہے۔ ایک خاص کیس کے بعد مزید رہنمائی کے لیے قرآنی آیات بھی نازل ہوئیں اور لِعان کا طریقہ بھی طے ہوگیا۔ شریعت، قانون اور جدید انسانی شعور سب اس پر متفق ہیں کہ کسی ایسے کیس میں ملوث فرد یا افراد کی جان نہیں لی جا سکتی۔ انہیں سزا دلوانے کے لیے خاص طریقہ کار موجود ہے، اس پر عمل کیا جائے۔ یا پھر دوسری صورت میں علیحدگی اختیار کر لی جائے اور اپنا معاملہ رب پر چھوڑ دے۔ وہی بہترین متبادل بھی دیتا ہے اور انصاف کرنے والا بھی ہے۔