کبھی کبھی ایک خبر صرف خبر نہیں قیامت ہوتی ہے۔ سوات کے ایک مدرسے میں قاری کے ہاتھوں تشدد سے شہید ہونے والا بچہ صرف افسوسناک خبر ہی نہیں، ایک سوال بھی ہے، ایک دہلا دینے والا طمانچہ ہے ہمارے نظامِ تعلیم کے منہ پر جسے ہم نے دین کے نام پر قائم کر رکھا ہے۔مجھے اپنے بچپن کے دن یاد آئے، جب کچھ قراء حضرات ایسے بھی تھے جن کے درے، جھاڑو کے تنکے، مسواکیں اور لوہے کے کنگھے ہاتھوں میں تسبیح سے زیادہ آرام دہ محسوس ہوتے تھے۔ بچے قرآن حفظ کرتے کرتے نہ صرف الفاظ کو دہراتے بلکہ درد کو بھی حفظ کر لیتے۔ مار کی شدت سے نہ صرف پٹھے لرزتے بلکہ ایمان بھی تھر تھرا جاتا۔یہ جرم مگر صرف ان ہاتھوں تک محدود نہیں ہوتا جو مارتے ہیں۔ اس میں ان کے ہاتھ بھی شامل ہوتے ہیں جو اپنے بچوں کو خود پیش کرتے ہوئے قاری صاحب کو یہ کہہ کر پوری چھوٹ دے دیتے ہیں کہ ”ہڈیاں ہماری، گوشت تمہارا”۔ یہ کیسا وحشیانہ جملہ ہے جو باپ کی زبان سے نکلتا ہے؟ ایک بے زبان وجود کو دوسرے بے رحم وجود کے سپرد کردینا اور پھر ہاتھ جھاڑ لینا؟ یہ کونسی شفقت ہے باپ کی اور کونسی محبت ہے دین کی؟
افسوسناک سچ یہ ہے کہ ہمارے بعض مدارس میں قرآن اور صاحبِ قرآن کو بعض اوقات وہ مقام نہیں ملتا جس کے وہ مستحق ہیں۔ اندرونی نظام کا ایک اور المیہ یہ ہے کہ قرآن جیسی مقدس کتاب جسے دلوں کی غذا اور روح کی روشنی ہونا چاہیے، بعض جگہوں پر صرف ‘سبق’ بن کر رہ گئی ہے، محض رٹنے اور دوہرانے کا عمل۔ کئی جگہ درجہ حفظ کے اساتذہ خود بنیادی تربیت سے محروم ہوتے ہیں۔ نہ انہیں تدریس کے اصول معلوم ہیں اور نہ بچوں کی نفسیات کا شعور ہوتا ہے۔ ان کی محنت زیادہ، مشاہرہ کم اور تربیت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ ایسے میں جب تعلیم صرف سختی سے دی جائے اور محبت، نرمی اور رہنمائی ناپید ہو تو پھر تعلیمی ادارے درسگاہ نہیں اذیت گاہ بن جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘اللہ تعالی نے مجھے سختی کرنے والا اور لوگوں کے لیے مشکلات ڈھونڈنے والا بنا کر نہیں بھیجا، بلکہ اللہ نے مجھے تعلیم دینے والا اور آسانی کرنے والا بنا کر بھیجا ہے’۔ (صحیح مسلم) اور فرمایا: نرمی جس چیز میں ہو، اسے زینت بخشتی ہے اور جس چیز سے نرمی نکال دی جائے اسے بدصورت کر دیتی ہے۔ (ابو داؤد)کیا ہم ان کے وارث ہونے کے دعویدار ہو کر بھی ان کے اُسوہ کو فراموش کر بیٹھے ہیں؟طالب علم کے دل میں سب سے پہلے قرآن کی محبت اور شوق پیدا کرنا چاہیے، اس کے سامنے حفظ کرنے کی درست اہمیت واضح کی جانی چاہیے اور اگر کوتاہی ہو تو اس کا فطری اور دانشمندانہ حل تلاش کرنا چاہیے، نہ کہ مار پیٹ۔چند سال پہلے کی بات ہے، اسلام آباد کے ایک مدرسے میں میرا بھتیجا پڑھتا تھا۔ ایک روز اس کو اس کے قاری نے بری طرح مارا پیٹا۔ میں مدرسے گیاتو وہاں کے اساتذہ نے بتایا کہ ”مار پیٹ مدرسے کی پالیسی نہیں ہے یہ قاری کا ذاتی فعل ہے۔” میں نے عرض کیا: ”جو قاری تمہاری پالیسی کے ساتھ کھلواڑ کرتا ہے اُسے فارغ کیوں نہیں کرتے؟” جواب ملا: ”اس تنخواہ میں ہمیں اتنا اچھا قاری نہیں مل رہا۔” یعنی قاری نے اپنی قابلیت کے ذریعے پورے مدرسے کو بلیک میل کر رکھا تھا۔
ایسے واقعات پر اب بلا کسی تاخیر کے مدارس کے اربابِ اختیار کو سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ جب کبھی کسی مدرسے میں تشدد کا واقعہ پیش آتا ہے تو بعض حلقے خصوصاً چند لبرل حضرات پورے دینی تعلیمی نظام کو ہدفِ تنقید بنا لیتے ہیں۔ یہ رویہ بھی انتہائی غیرمنصفانہ اور تعصب پر مبنی ہے۔ ہمیں انفرادی جرائم کو پورے ادارے یا نظریے کے خلاف نفرت کی مہم بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔ اصلاح کا راستہ الزام تراشی نہیں بلکہ تعاون، مکالمہ اور بہتری کی مشترکہ کوشش ہے۔ اس جرم میں اُن واعظین کا بھی حصہ ہے جو دین کے نام پر تشدد کو تقدس پہنا دیتے ہیں۔ جنہوں نے حفظِ قرآن کو ایک ایسا معرکہ بنا کر پیش کر دیا ہے جس میں مار کھانا گویا ‘سنتِ متوارثہ’ ہے۔ جو طالب علم کی غلطی پر قہر برسانے والے قاری کی حمایت میں فضائل سناتے ہیں، مگر مظلوم طالب علم کے آنسو انہیں نظر نہیں آتے۔
ہم یہ نہیں کہتے کہ مدارس میں پڑھانے والے سارے قراء تشدد کرنے والے ہیں بلکہ حق تو یہ ہے کہ اکثریت ایسے قراء کی ہے جو نہایت محبت، خلوص، شفقت اور ایثار کے ساتھ قرآن کی تعلیم دیتے ہیں۔ میرے اپنے ناظرہ اور حفظ کے استاد قاری محمد یوسف صاحب ایک عظیم انسان تھے۔ اللہ کا شکر ہے کہ مجھے ایسے اساتذہ میسر آئے جن کی شفقت، ہمدردی اور محبت میرے حافظے میں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ تاہم چند گندے قطروں سے بھی پاک اور شفاف پانی کے تالاب کو بچانا ضروری ہے۔ ایسے مواقع پر مدارس کے بعض فضلاء مدارس کے دفاع میں یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ اسکولوں میں بھی تو ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ جی بالکل! یہ درست ہے کہ تشدد کا مرض صرف بعض دینی اداروں تک ہی محدود نہیں بلکہ بہت سے اسکولوں کی دیواروں میں بھی زخموں کی گونج ہے۔ یہاں بھی بچوں کو پیٹا جاتا ہے، دھمکایا جاتا ہے، نفسیاتی اذیتوں میں جھونکا جاتا ہے۔ کوئی استاد تھپڑ سے ‘نظم’سکھاتا ہے تو کوئی جوتے مار کر ڈسپلن کا سبق دیتا ہے۔ حل مگر مدرسہ یا اسکول کے نظام کا آپس میں موازنہ کرنے میں نہیں بلکہ اس سوچ کی تبدیلی میں ہے جو اس کے پیچھے کارفرما ہے، کہ تعلیم بغیر تشدد برداشت کیے نہیں حاصل کی جا سکتی۔اُستاد کی ذمہ داری تنخواہ کے بدلے بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت ہوتی ہے مگر افسوس کہ وہ چند حروف سکھانے کے مقابلے میں مار، تھپڑ، لات، ڈنڈا، توہین، ڈرانا، طنز، گالیاں اور برے القابات سے بچوں کو نفسیاتی مریض بنا رہا ہے۔ اس تشدد کے اثرات نسلوں کو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں۔بچے خوداعتمادی کھو دیتے ہیں۔ ڈر، اضطراب اور نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ علم سے نفرت، اُستاد سے خوف اور اسکول، مدرسہ سے بغاوت ان کے رویوں کا حصہ بن جاتی ہے۔ کچھ جھک جاتے ہیں، کچھ بغاوت کر جاتے ہیں اور کچھ ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جاتے ہیں۔ جیسے سوات کا وہ شہید حافظ۔ سو ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب بحیثیت معاشرہ اس المیے کو روکنے کے لیے آگے بڑھیں۔ پُرتشدد واقعات کے اسباب پر غور اور پھر ان کا تدارک کریں۔ اسکول ہو یا مدرسہ، ہر بچے کو تحفظ دیا جائے۔ تشدد کے خلاف ایک موثر پالیسی ہو۔ اساتذہ کی تربیت کی جائے، والدین کو باشعور بنایا جائے اور بچوں کو بولنے کا حوصلہ دیا جائے۔ جی ہاں! یہ وقت ہے تعلیم و تربیت کو تشدد سے الگ کرنے اور محبت سے جوڑنے کا۔