ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی
اِس صدی کے آغاز میں ترکی کی اسلامی سلطنت کی حدیں خاصی وسیع تھیں، مگر جب مسلمانوں نے اسلام کے اخلاقی اصولوں سے غفلت برتی تو وہ رفتہ رفتہ کمزور ہوتے گئے۔ اسلام دشمن طاقتیں تو پہلے ہی تاک میں تھیں، انھوں نے ترکوں پر ہلہ بول دیا۔ ترکوں اور ریاست ہائے بلقان کے درمیان جنگ چھڑ گئی۔ یہ واقعہ ۱۹۱۲ء کا ہے۔
اَدَرنَہ، ترکی کا ایک معروف شہر ہے، اسے انگریزی میں ایڈریا نوبل کہتے ہیں۔ کسی زمانے میں یہ عثمانی حکومت کا پایۂ تخت بھی رہا۔ بد قسمتی سے بلقانی فوجوں نے ترکوں کو گھیرے میں لے لیا اور وہ ادرنہ میں محصور ہوگئے۔ یہ محاصرہ کئی ماہ تک جاری رہا۔ ترکوں کی تعداد کم تھی، ان کے پاس اسلحہ بھی محدود تعداد میں تھا جو روز بروز کم ہو رہا تھا۔ سب سے زیادہ پریشانی سامانِ رسد کی قلت سے ہو رہی تھی۔ خوراک کا ذخیرہ قریب قریب ختم تھا۔ مسلمانوں کے سپہ سالار غازی شکری اس صورتِ حال پر بہت فکر مند تھے۔
زمانۂ جنگ میں فوج کو غیر معمولی اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ فوج کو جس شے کی ضرورت ہو، ہنگامی قوانین کے ماتحت، وہ شہریوں سے حاصل کرسکتی ہیں۔ ادرنہ کے غیر مسلم (یہودی اور عیسائی) باشندوں کے پاس خوراک کے وافر ذخیرے موجود تھے۔ غازی شکری نے ہنگامی اختیارات سے کام لیتے ہوئے فوجی حکم جاری کیا کہ غیر مسلموں کے پاس غلے کے جو ذخیرے موجود ہیں وہ حاصل کرکے فوجی گودام میں منتقل کردیے جائیں۔ چنانچہ فوج نے لوگوں کے گھروں سے خوراک کے تمام ذخیرے جمع کرلیے۔ اسی اثنا میں ادرنہ کے قاضی صاحب تک خبر پہنچی کہ فوج نے شہریوں کے ذخیرہ ہائے خوراک پر قبضہ کرلیا ہے۔ انھیں رنج ہوا اور غصہ بھی آیا کیونکہ یہ صریحاً اسلامی اصولوں کی خلاف ورزی تھی۔ اسلامی حکومت میں یہودیوں اور عیسائیوں کی حیثیت ذِمّی کی ہوتی ہے۔ ذمی ان غیر مسلم اقلیتوں کو کہتے ہیں جو کسی مسلم علاقے میں رہتے ہیں۔ ان کی حفاظت اسلامی حکومت کی ذمے داری ہوتی ہے۔ اسلامی قانون کی رو سے ذمیوں کا مال و متاع مسلم افواج کے لیے جائز نہیں ہوتا۔ قاضی صاحب نے یہ فتویٰ دے دیا کہ مسلم فوجوں کی اس حرکت کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہ بات شہر میں چاروں طرف پھیل گئی۔
اس زمانے میں مفتی اور قاضی صاحبان بالعموم کسی خوف اور مصلحت کے بغیر ہمیشہ سچ بات کہتے تھے۔ اُن کی راست بازی اور حق گوئی کی بنا پر عوام و خواص ان کی عزت کرتے اور ان کی ہر بات کو خوش دلی سے تسلیم کرتے۔ لوگوں کی نظروں میں قاضی صاحب کی رائے بڑی اہمیت رکھتی تھی۔ ادرنہ میں بھی یہی صورت ہوئی۔ فوج کے سپاہیوں کو جونہی معلوم ہوا کہ قاضی صاحب نے یہودیوں اور عیسائیوں سے حاصل کردہ غلے کی حرمت کا فتویٰ دیا ہے، انھوں نے اس غلے سے ہاتھ اٹھالیا۔
قاضی صاحب نے خدائی احکام کے مطابق فتویٰ دیا تھا اور خدائی حکم کی تعمیل سے انکار کرنا کسی بھی مسلمان کے لیے ممکن نہیں، اِس لیے فوج نے غلے کو چھونا بھی گوارا نہیں کیا۔
علامہ اقبال کی درج ذیل نظم ’محاصرۂ اَدَرنَہ‘ مذکورہ بالا واقعے کی بنیاد پر لکھی گئی:
يورپ میں جس گھڑی حق و باطل کی چھڑ گئی
حق خنجر آزمائی پہ مجبور ہوگیا
گرد صليب گرد قمر حلقہ زن ہوئی
شکری حصار درنہ میں محصور ہوگیا
مسلم سپاہیوں کے ذخيرے ہوئے تمام
روئے اميد آنکھ سے مستور ہوگیا
آخر امیر عسکر ترکی کے حکم سے
آئین جنگ شہر کا دستور ہوگیا
ہر شے ہوئی ذخیرہ لشکر میں منتقل
شاہین گدائے دانہ عصفور ہوگیا
لیکن فقيہ شہر نے جس دَم سنی يہ بات
گرما کے مثل صاعقہ طور ہوگیا
ذمی کا مال لشکر مسلم پہ ہے حرام
فتویٰ تمام شہر میں مشہور ہوگیا
چھوتی نہ تھی يہود و نصاریٰ کا مال فوج
مسلم خدا کے حکم سے مجبور ہوگیا
حضرتِ علامہ اس نظم کے ذریعے سے مسلمانوں کو یہ سبق دینا چاہتے ہیں کہ ایک سچے مسلمان کو خواہ کیسی ہی مجبوری لاحق ہو، کتنی ہی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے، خدائی احکام کی لازماً پابندی کرنی چاہیے۔ دنیا میں انسان کی کامیابی کا راز خالقِ کائنات کی اطاعت پر ہے اور آخرت میں بھی یہی بات اس کامیابی کی ضامن ہوسکتی ہے۔
مشکل الفاظ اور ان کے معنی:
عصفور(usfuur):چڑیا،ذمی(zimmii):وہ مشرک یا اہل کتاب جو اسلامی حکومت کی امان میں رہتا ہو اور اس نے شرائط ذِمّہ (جزیہ) کو قبول کر لیا ہو( جزیہ گزار)
حرمت(hurmat):عزت آبرو،
صاعقہ طور(saa’iqa-e-tuur):وہ بجلی جو کوہ طور پر چمکی تھی اور جس کی روشنی سے جناب موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام بے ہوش ہوگئے تھے، گردَ قمر اور گردِ صلیب:کنایہ ہے اسلام اور عیسائیت کا،حلقہ زن(halqa-zan): گھیرے میں لینا،
محصور(mahsuur):گھیرے میں آیا ہوا،مستور(mastuur): چھپا ہوا، پوشیدہ۔