Promise

ہمت کا پہاڑ (۴۰)

وہ شخص ہمت اور حوصلے کا پہاڑ تھا۔اس کی زندگی کامقصد پاکستان کے نوجوانوں کو مضبوط بناناتھا۔دینی مدرسے کا ایک طالب علم اتفاق سے اُس تک جاپہنچا، یوں شوق،لگن،جدو جہد اور عزم کے رنگین جذبوں سے سجی داستان زیبِ قرطاس ہوئی!

ایک ایسے شخص کا تذکرہ جو دولت پر فن کو ترجیح دیتا تھا…!
راوی: سیہان انعام اللہ خان مرحوم

میں اپنے شاگردوں میں زبان یا رشتے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں کرتا۔ سب شاگردوں کو ایک جیسا سمجھتا ہوں اور سب کے ساتھ تعلق رکھتا ہوں، لیکن پختون شاگردوں کا خاص طور پر خیال اِس لیے رکھتاہوں کہ عام طورپر وہ تیکنیک کو سمجھنے میں دیر لگاتے ہیں۔ ویسے میں خود بھی پٹھان ہی ہوں۔ خیر ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ ایک شخص مجھ سے لڑنے آگیا۔ اس دن میں کلاس میں نہیں تھا۔ غلام اللہ انصاری نام کا میرا شاگرد مجھے بہت پسند تھا۔ میں اپنی موجودگی میں بھی اسے کلاس کا کہہ دیتا تھا۔ اُس دن میں نے کلاس اس کے سپر د کی ہوئی تھی اور خود ایک طرف بیٹھ کر دیکھ رہا تھا۔ اتنے میں ایک خاصا جان دار آدمی میرے پاس آیا اور پشتو میں کہنے لگا: ’’تم انعام اللہ خان کو جانتے ہو۔
‘‘
میں نے اس کی طرف غور دیکھا۔ وہ حلیے سے کوئی غنڈہ لگ رہا تھا۔ مجھے اس کے اندر غصے کی ایک لہر محسوس ہوئی۔میں نے جواب دیاکہ ہاں جانتاہوں۔ کیا بات ہے؟

کہنے لگا، وہ جو آدمی کلاس کروا رہاہے، کیا وہی انعام اللہ خان ہے؟
میں نے کہا: ’’جب تم اسے جانتے ہو تو مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘
اس نے کہا میں اسے سبق سکھانا چاہتا ہوں۔

میں نے جواب دیا کہ ضرور سکھاؤ، ویسے بات کیاہے؟ کہنے لگا مجھے کسی نے بتایا ہے کہ یہ اپنے آپ کو بہت بڑا بدمعاش سمجھتاہے۔ میں کوہاٹ سے آیا ہوں اور یہاں کراچی میں میرے دوست رہتے ہیں، انھوں نے کہا ہے کہ اس کا کوئی علاج کرنے والا نہیں ہے، یہ سن کر مجھے غیرت آئی کہ یہ کیسے پٹھان ہیں جو اس اردو بولنے والے سے ڈرتے ہیں، اس لیے میں نے انھیں کہا کہ میں اس کی پٹائی لگاؤں گا۔
میں نے سوال کیا کہ انعام اللہ خان کو توکراٹے آتے ہیں، کیا تم نے بھی لڑائی سیکھی ہوئی ہے؟

اس نے مجھے غصے سے گھورا اور بول: ’’یہ کراٹے مراٹے کیا ہوتے ہیں؟ انسان کے پاس دل اور بازو میں زور ہونا چاہیے۔ میرے بازو میں بہت زور ہے، میں نے تین قتل کیے ہوئے ہیں، پانچ من وزن بھی اٹھا لیتا ہوں، تم دیکھنا میں کیسے اس پتلے سے آدمی کو اٹھا کر زمین پر ماروں گا اور اسے بولوںگا کہ آئندہ کسی پٹھان کے آگے اپنا رعب مت چلانا۔

میں نے اس سے پوچھا کہ اگرانعام اللہ خان بھی پٹھان ہی نکلا توپھر تم کیا کروگے؟
اس نے جواب دیا،یہ جو اردو بول رہا ہے،اس طر ح کوئی پٹھان بول ہی نہیں سکتا، جو پٹھان اتنی اچھی اردو بولتا ہے، ہمیں تو اس کے نسب پر شک ہوجاتاہے۔
اس کی بات سن کر مجھے ہنسی بھی آئی اور غصہ بھی۔ وہ گاؤں سے دیسی لڑائی سیکھ کر آیا تھا اور وہ خود کو کوئی تیس مار خان سمجھ رہا تھا کہ وہ ایک ماہر فائٹر کو محض زورِ بازو سے شکست دے دے گا۔

میں نے کہا کہ کیا واقعی تم انعام اللہ خان سے لڑنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا صرف لڑنا نہیں چاہتا بلکہ اسے اپنے قدموں میں جھکاؤں گا اور معافی منگواؤں گا پھر اپنے دوستوں کو بتاؤں گا کہ پٹھان بنو اور غیرت کھاؤ اورایک اردو بولنے والے سے مت ڈرو۔
میں نے کہا،اگرتم اس سے ہار گئے تو کیا ہوگا؟

اس نے کہا میں اس بکری کے بچے سے ہار ہی نہیں سکتا۔ ہار گیاتو اپنی مونچھیں کٹوا لوں گا یا کراچی سے واپس چلا جاؤں گا۔ میں نے کہا، ٹھیک ہے پھر کلاس ختم ہوجائے تو جا کر اسے چیلنج کردینا۔ کیا تم اردو میں بات کرلو گے یا میں اسے کہوں؟

اس نے جواب دیا، میں تھوڑی بہت اردو بول لیتا ہوں، میں اسے کہوں گا کہ مرد کا بچہ ہے تو میرے ساتھ لڑکر دکھا۔
مجھے اُس پر ترس بھی آرہا تھا اور غصہ بھی کہ نجانے کس نے اسے میرے خلاف بھڑکا کر بھیجا تھا اور وہ ایسا احمق تھا کہ سوچے سمجھے بغیر لڑنے کے لیے آگیا تھا۔

کلاس ختم ہوئی تو غلام اللہ انصاری میری طرف آنے لگا۔ میں نے اسے اشار ہ کیا تووہ سمجھ گیا کہ کوئی غیر معمولی بات ہے۔
اتنے دیر میں وہ شخص اس کے قریب پہنچ چکا تھا اور اس سے پوچھ رہاتھا کہ تم ہی انعام اللہ خان ہو؟

انصاری نے میری طرف دیکھا تو میں نے سر ہلا دیا۔یہ دیکھ کر عبداللہ انکار کرنے کی بجائے خاموش رہا۔ پٹھان بھائی نے جھٹ اسے لڑنے کی دعوت دے دی۔
میں نے اس کی نظربچا کر اشارہ کیا کہ تھوڑی دیر اسے کھلائے اور پھر ایک راؤنڈ مارکر ناک آؤٹ کردے۔
انصاری نے اسے کہا کہ تم لڑنے آئے ہو تو اپنا شوق پورا کرلو، لیکن مردوں کی طرح بات کرو کہ چوٹ لگ گئی تو بعد میں رونا پیٹنا نہیں کروگے!
وہ نجانے کس گھمنڈ کا شکار تھا،کہنے لگا، میں تو شکایت نہیں کروں گا لیکن تمھیں جتنی چیخیں مارنی ہوں، ضرورمارلینا۔ میں تمھاری چیخیں سننا پسند کروں گا۔

خیر لڑائی شروع ہوگئی۔ وہ بھائی غلام اللہ انصاری کو بہت ہلکا لے رہا تھا۔ اس نے الٹے سیدھے ہاتھ گھمائے اور غلام اللہ انصاری کو گرفت میں لے کر پٹخنے کی بہت کوشش کی لیکن انصاری بہت پھرتیلا تھا، اس کے قابو میں کہاں آتا۔ چند منٹ تک اسے کھلانے کے بعد انصاری نے اسے ایک کک لگائی تو وہ بے ہوش ہو کر زمین بوس ہوگیا۔

اس کے ساتھ اس کے دو دوست بھی تھے جو بعد میں سامنے آئے تھے، وہ بے چارے اسے ٹیکسی میں ڈال کر لے گئے۔ اگلے دن میں دفتر میں بیٹھا تھا کہ کچھ لوگ پولیس کو لے کر آگئے۔ معلوم ہواکہ وہ اسی بندے کے رشتے دار ہیں اور انعام اللہ خان کے خلاف مقدمہ درج کروانا چاہتے ہیں۔
دو پولیس والے تھے اور باقی کچھ رشتے دار تھے۔ میں نے اُن سے پوچھا کہ کیا بات ہوئی ہے؟ انھوں نے کہ کہا کہ انعام اللہ خان نے ہمارے رشتے دار کو مارا ہے اور اس کا منہ سوج گیاہے، وہ کھا سکتاہے نہ پی سکتاہے۔ ضرب کچھ زیادہ لگتی تووہ بے چارہ مر جاتا، اس لیے ہمیں بدلہ چاہیے یا پھر انعام اللہ خان ہمیں اس کے بدلے رقم دے گا۔

میں سمجھ گیا کہ ان لوگوں نے رقم اینٹھنے کا منصوبہ بنایا ہے، میں نے پوچھا کہ کیا وہ آدمی انعام اللہ خان کو جانتاہے؟
انھوں نے کہا کہ بالکل جانتا ہے۔ میں نے پولیس والوں کی طرف دیکھا تو وہ میری بات سمجھ گئے اور اُس آدمی کو بلا لائے۔
اس کا چہرہ نیلا بلکہ سیاہ ہورہا تھا۔

پولیس والوں نے پوچھا کہ کیا تمھیں انعام اللہ خان کہیں دکھائی دے رہا ہے؟ اس نے کہا، نہیں، وہ یہاں نظرنہیں ہے۔ پولیس والوں نے میری طرف اشارہ کرکے کہا، دیکھو یہ تو نہیں ہے انعام اللہ خان؟

وہ بول: ’’نہیں، اس میں تو پھر بھی کچھ جان ہے، وہ تو بالکل مریل سا لگتا تھا لیکن اس نے مجھے بے ہوش کردیا۔
میں نے پولیس والوں سے کہا کہ آپ کا اطمینان ہوگیا ہو تو ان سب لوگوں کو یہاں سے لے جائیں۔
پولیس والے کہنے لگے، چلو اٹھو یہاں سے، یہ نجانے نشے میں کہاں سے مار کھا کر آیا ہے اور اب انعام صاحب پر الزام لگا رہاہے۔
یہ کہہ کر پولیس والے انھیں لے گئے۔ (جاری ہے)