’’بھائی کہاں ہو سب کے سب، ابھی تک کوئی بھی نہیں پہنچا؟‘‘
ٹون کی آواز کے ساتھ اسکرین پر ایک میسج ابھرا۔
’’بس میں نکلا یہاں سے۔‘‘
میں نے گروپ میں جلدی جلدی میسیج ٹائپ کیا اور بیگ اٹھاتا ہوا جامعہ سے نکل کر باہر انتظار میں کھڑی بائکیا پر جا بیٹھا۔ نو اور دس محرم کی چھٹیوں پر میں اپنے شہر میرپورخاص جانے والا تھا۔ میرے چند کزنوں کو پتا چلا تو سیر سپاٹے کے لیے انھوں نے بھی جانے کی خواہش ظاہر کی۔ عام تعطیل کی وجہ سے بسیں ساری پہلے ہی پُر ہوچکی تھیں اس لیے ٹرین سے جانے کا فیصلہ ہوا۔
کراچی والے رشتے دار اکثر آتے جاتے رہتے تھے۔ اِس بڑے شہر کی زندگی سے آزاد ہو کر کبھی میرپورخاص کی کھلی فضا میں دیہاتی سا تروتازہ ماحول، ٹیوب ویلز اور نہروں میں ڈبکیاں لگانا، گاؤں کے سرسبز مرغزاروں کی سیر، کھیتوں کے درمیان پگڈنڈیوں پر ڈگمگاتے قدموں کے ساتھ چلنا، تناور درختوں کی ٹھنڈی ٹھنڈی چھاؤں تلے چارپائیوں پر بیٹھ کر تازہ دودھ اور لسی کی چسکیاں لینا، پرندوں کا شکار کرنا، اس کے بعد گاؤں سے مغرب کے وقت شفق پر ڈوبتے سورج کی شرماتی، کھلکھلاتی لالیوں کے حسین اور روح پرور منظر کے نظارے کرتے ہوئے گھر واپس لوٹنا، پھر اگر بقر عید کا موسم ہو تو گھر کی چھت پر باربی کیو، اگر گرمیاں ہوں تو آم کے باغوں کے میں ٹہل ٹہل کر شاخوں پر لٹکے دعوت طعام دیتے ہوئے پیلے پیلے جہازی سائز کے آموں پر شاہینوں کی طرح جھپٹنا، پھر اس کا کیلے کی طرح چھلکا اتار کر عجیب و غریب انداز میں کھانا، رات کے وقت ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کے جھکڑ میں کھلے آسمان تلے ستاروں کی تنی ہوئی چادر کو تعجب سے دیکھنا اور باتیں کرتے کرتے تخیل کی حسین وادیوں میں کہیں کھو جانا، یہ سب انھیں برسوں یاد رہتا۔
’’صاب پہنچ گئے۔‘‘
ابھی میں نے تخیل کو ایڑھ لگائی ہی تھی کہ رائیڈر نے کزن کے گھر پہنچ جانے کی نوید سنائی۔ میں نے ایک نظر گیٹ پر مسکراتے حسان پر ڈالی۔ بائکیا کا بل ادا کیا اور اپنا بیگ سنبھالتا ہوا حسان کی طرف بڑھ گیا۔
میرے گھروالے سب میرپورخاص میں رہتے ہیں جبکہ ننھیال دودھیال کراچی میں۔ اور میں تو تعلیم کی غرض سے کراچی کا مقدر بنا تھا۔ تھوڑی دیر میں وہاں عمیر بھی پہنچ گیا اور حسان کا بھائی زید بھی کندھے پر اپنا بیگ لٹکائے ٹھمک ٹھمک چلا آیا۔
’’یار! کافی دیر سے کوشش کر رہا ہوں کوئی ٹیکسی مل ہی نہیں رہی۔‘‘ حسان نے بری خبر سنائی۔
میں نے گھڑی پر نظر ڈالی۔ ڈھائی بج رہے تھے۔
’’لیکن بھائی وقت بالکل نہیں ہے، ویسے بھی عام تعطیل ہے، ٹرین میں بھی جگہ بڑی مشکل سے ملے گی۔‘‘
کافی دیر تک جب آن لائن ٹیکسی نہیں ملی تو ایک رکشہ روکا اور یک طرفہ مذاکرات پرصاد کرتے ہوئے ہم نے اپنی صرف ایک شرط رکھی۔
’’بھائی رکشہ اڑانا ہے سٹی اسٹیشن تک۔‘‘
اس نے حامی بھرلی۔ ہم فوراً پرواز کے لیے رکشے میں لد پھند کر بیٹھ گئے، لیکن ہمارا طیارہ تھا کہ اسے ہچکولوں سے فرصت ملتی تب بھرتا نا اڑان۔ رکشے کو رولر کوسٹر کا کوئی منفرد سا جھولا تصور کرتے ہوئے ہم سیٹوں پر جمے بیٹھے رہے۔
جب اسٹیشن پہنچ کر ٹکٹ کاؤنٹر پہنچے تو وہاں شیطان کی آنت سے بھی لمبی لمبی قطاریں ہمارا منہ چڑا رہی تھیں۔ ہم میں سے دو لوگ الگ الگ دو لائنوں میں اپنی قسمت کی لکیریں آزمانے جا کھڑے ہوئے۔ قطار بہت سست رفتاری سے چل رہی تھی۔ بہرحال جب کافی دیر کی تگ و دو کے بعد ہمارے ہاتھوں میں ٹکٹ آئے تو ساڑھے تین سے دو تین منٹ اوپر ہی ہوگئے تھے۔ ریل گاڑی اس دن خلافِ معمول اپنے وقت پر ہی سیٹی بجا کر کسی اژدھے کی طرح رینگنے لگی تھی۔
ہم بھاگتے ہوئے ایک ہاتھ سے بیگ سنبھال اور دوسرے سے لوہے کی نکلی ہوئی راڈ کو تھام کر گاڑی میں جا چڑھے مگر اوپر چڑھ کر ٹرین کی ہر سیٹ اور برتھ پر کسی نہ کسی ذی روح کو دھرا دیکھا تو سکھ کا سانس حلق میں کانٹا بن کر اٹک گیا۔
بیٹھیں تو کہاں؟ جگہ کوئی خالی نہیں تھی۔ چیل کی سی نظروں سے ہر طرف کا جائزہ لیتے ہوئے درمیانی راستے پر چل رہے تھے کہ میری نظر ایک کمپارٹمنٹ کی برتھ پر پڑی جس کی سیٹوں پر انسان تو نہیں تھے مگر انسانوں کا سامان دھرا تھا۔ ہم فورا اس کی طرف لپکے۔
برتھ پر چڑھنے ہی لگے تھے کہ ایک خاتون نے اکھڑے ہوئے لہجے میں مخاطب کیا۔
’’یہاں لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔‘‘
میں نے بھی اسی انداز میں جواب دیا: ’’اچھا! مجھے تو نہیں دِکھ رہے!‘‘
اس پر انھوں نے فوراً اپنا دعوی بدلا:
’’ہمارا سامان بہت سارا ہے اس لیے اوپر رکھا ہے۔‘‘
’’آنٹی! یہاں انسانوں کے بیٹھنے کی جگہ نہیں ہے اور آپ کو اپنے سامان کے آرام کی پڑی ہے۔‘‘
آنٹی ہمیں گھور کر رہ گئیں۔
اوپر سے میں نے اُن کے برائے نام سامان کی پوٹلیاں نیچے سرکادیں۔ میں اور عمیر اوپر چڑھ کر عجیب و غریب انداز میں بیٹھ گئے۔ برتھ دراصل بیٹھنے کے لئے تو تھی ہی نہیں،اسے تو بنایا ہی لیٹنے کے لیے گیا تھا، لہٰذا گردن اور کمر کو کافی حد تک جھکا کر ’’چچا چھکن‘‘ کی طرح آلتی پالتی مار کر بیٹھنا پڑا۔
پیر نیچے لٹکا نہیں سکتے تھے کہ نیچے خواتین بیٹھی تھیں۔ زید اور حسان نے ہمارا ایسا حشر دیکھ کر دل ہی دل میں کھڑے رہنے کا ہی فیصلہ کر لیا اور ہمارے بار بار اصرار کرنے پر یہ کہہ کر ٹرخا دیا کہ ہاں تھوڑی دیر میں آتے ہیں۔
ٹرین چل پڑی اور تھوڑا آگے جاکر کینٹ اسٹیشن پر جا رکی۔ وہاں سے لوگوں کا اتنا ہجوم اندر داخل ہوا جتنا پہلے سے ٹرین میں موجود تھا۔ ہم اوپر بیٹھے انسانوں کی ایک سیلابی ریلے کی شکل میں آتی ہوئی لہر کو ٹرین کے کھلے دروازوں سے اندر بہتے ہوئے دلچسپی سے دیکھنے لگے۔
سیٹیں بھر چکی تھیں، لوگوں نے ظاہر ہے کھڑا ہی ہونا تھا۔ ایک بندے نے تو مہا عقل مندی کا ثبوت دیتے ہوئے ٹرین کے رکتے ہی باہر کھڑے کھڑے کھڑکی سے اپنا ہاتھ اندر گھسایا اور اس میں پکڑا بیگ سِیٹ پر دھر دیا تاکہ سیٹ اس کے لیے مخصوص ہو جائے، مگر وہ شاید یہ نہیں جانتا تھا کہ سیٹیں تو سب پہلے سے ہی مخصوص تھیں۔
تو ہوا یوں کہ اس کی اس دانشمندی نے کسی خالی سیٹ کو نہیں بلکہ کسی کی خالی گود بھردی۔ سامان رکھ کر جب کھڑکی سے اس نے اندر جھانکا تو ایک عورت کو ہکا بکا دیکھ کر وہ خود بغلیں جھانکنے لگا اور ان کی گود میں دھرا بیگ اٹھا کر یہ جا وہ جا۔
اس اسٹیشن پر تو کافی جھگڑے ہوئے، لوگوں کو محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً ہاتھ پیر مارنا پڑے، جی ہاں جناب! شکل و صورت سے تعلیم یافتہ دِکھنے والے لوگ شاید اپنی تعلیمی اسناد گھر بھول آئے تھے۔
ٹرین جب کھچا کھچ بھر گئی تو اُس نے پھر سفر شروع کیا مگر تھوڑی ہی دور جا کر ایک بار پھر آہستہ ہونے لگی اور ایک اسٹیشن پر جا کر رک گئی۔یہاں بھی پہلے والا منظر دیکھنے ملا، ٹرین میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی، مگر انسانوں کا ایک اور ریلا ٹرین کے کھلے دروازے سے دھڑا دھڑ اندر آگھسا اور لوگ کچھ اس طرح کھڑے ہو گئے جیسے تسبیح میں پروئے ہوئے موتی۔ لوگ آپس میں اتنا قریب ہو گئے تھے کہ عید پر معانقہ کرتے وقت بھی شاید اتنا قریب
نہ ہوتے ہوں۔
میں اپنی گردن جھکائے اس عجیب منظر سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ اچانک کسی خاتون نے مجھے مخاطب کیا۔ اُن کے ہاتھوں اور کندھوں پر کئی سارے چھوٹے بڑے سائز کے بیگ لدے ہوئے تھے۔اتنا سامان تو ہند سے ہجرت کرکے آنے والے پورے پورے قافلے بھی شاید نہیں لائے ہوں گے۔
’’بھائی! یہ بیگ تو پیچھے دے دیں۔‘‘
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک عورت اپنے بچوں سمیت پچھلے کمپارٹمنٹ کی برتھ پر براجمان تھیں۔ میں نے دوبارہ سامان والی خاتون کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو کہنے لگیں:
’’میری دیورانی ہیں بیگ ان کے حوالے کر دیں۔‘‘ میں نے کندھے اچکائے اور بیگ ان سے لیتے ہوئے پیچھے والی خاتون کو مخاطب کرکے ان کی طرف بڑھا دیا۔ میری آواز سن کر پہلے تو وہ مجھے ایسی عجیب سی نظروں سے گھورنے لگیں جیسے میں جنات کی دنیا سے بے دخل کیا ہوا کوئی جن ہوں جس کے سر پر دو لال شیطانی سینگ ہیں۔ پھر منہ بناتے ہوئے انھوں نے مجھ سے بیگ لے لیا اور نجانے کہاں رکھا۔
میں اپنا فرض ادا کرکے جب دوبارہ سیدھا ہوا تو ایک اور بیگ میری طرف بڑھا ہوا تھا۔ اسی لمحے مجھے عمیر کی دبی دبی ہنسی سنائی دی جس پر سوائے دانت پیسنے اور لوہے کے چنے چبانے کے میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ یکے بعد دیگرے خود پر لدے ہوئے سارے بیگ خاتون نے میرے ذریعیبرابر والے کمپارٹمنٹ میں اسمگل کیے۔ اس پورے دورانیے میں عمیر کی کھلکھلاہٹ کی کیسٹ چلتی رہی۔ جب سامان ختم ہوا تو میں نے سکھ کا سانس لیا۔ سامان مکمل کرکے خاتون نے اپنے ساتھ کھڑے آدمی سے روتا ہوا بچہ لیا، یکدم میری خطرے کی حس زور زور سے ضربیں لگا کر مجھے خبردار کرنے لگی۔
میں نے دفعتاً طوطے کی طرح منہ پھیر کر ساتھ رکھے اپنے بیگ میں کچھ ڈھونڈنے کی اداکاری کرنا شروع کردی۔ مجھے مصروف دیکھ کر خاتون نے بچہ عمیر کی طرف بڑھا دیا۔ میں جب پلٹا تو عمیر کے چہرے پر بارہ بجتے دیکھ کر بے اختیار ہنسی کا گول گپا بن گیا۔ اب پیچ و تاب کھانے کی باری عمیر کی تھی اور کھلکھلاہٹ کی کیسٹ چلانے کی باری میری۔
اس نے بچہ پکڑ کر پیچھے بیٹھی خاتون کے حوالے کرنا چاہا مگر یہ کیا! انھوں نے تو بچہ لینے سے ہی صاف انکار کردیا۔ عمیر نے سیدھا ہو کر یہ امانت سامان والی آنٹی کو واپس کرنا چاہی تو وہ بولیں: ’’آپ انہی کو دے دیں یہاں اتنے رش میں، میں کیسے اٹھاؤں گی؟‘‘
کھکھلاہٹ کی کیسٹ میں نے مستقل چلائے رکھی۔
اب عمیر اِس بچے کو دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر عجیب انداز میں گھورنے لگا۔اس پر سامنے بیٹھے آدمی نے ہنستے ہوئے کہا: ’’مبارک ہو!یہ بچہ آپ کا ہوا۔‘‘
اب مرتے کیا نہ کرتے،اس روتے دھوتے بچے کو اپنے پاس ہی رکھنا پڑا۔ تھوڑی دیر میں وہ بچہ رو رو کر وہیں عمیر کی گود ہی میں سو گیا۔
پیچھے بیٹھی دیورانی صاحبہ نے جب دیکھا کہ بچہ تو سکون سے سو رہا ہے تو مڑ کر کہنے لگیں:
’’بھائی سنیں! ہمارے پاس دراصل جگہ بہت کم ہے، آپ یہ بچہ ہمیں دے دیں اور اپنے پاس ہمارا یہ بیٹا بٹھا دیں۔‘‘ اس بچے کی طرف دیکھا تو وہ بچہ تو سائز سے پورا لڑکا ہی معلوم ہو رہا تھا۔ ہم بے چارے مشکل کی اس گھڑی میں منع کرنے کی صلاحیت سے بالکل ہی عاری ہوچکے تھے، سو ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر رہ گئے۔
بہرحال اِس چھوٹے بچے کو پیچھے کی طرف بڑھا دیا اور بدلے میں ان کا بڑا سا بچہ وصول کرکے اپنے ساتھ بٹھا دیا۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ بچے نے اپنی خواہش کا اظہار کیا:
’’مجھے نین آلی اے، مجھے سونا اے۔‘‘
اب میں پھر سے بے چارگی کی تصویر بنا اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ بالآخر میرا اکلوتا سوٹ والا بیگ قربانی کا بکرا مم مطلب اس بچے کا تکیہ بنا اور وہ کبوتر کی طرح آنکھیں موند کر ہم پر پیر پھیلا کر سوگیا۔
بس یہی ہے ہمارے دلچسپ سفر کی مختصر روداد۔ ہم دونوں نے اس بچے کا بستر بن کر یہ سفر کاٹا تھا۔ حسان چونکہ نیچے ہی تھا لہٰذا اسے قسمت سے کھڑکی کے ساتھ والی اکلوتی سیٹ کسی طرح مل گئی تھی جس پر راستے بھر وہ سکون سے بیٹھا رہا، جبکہ زید چھے گھنٹے کے اس پورے سفر میں کھڑا ہو کر آیا۔
ٹرین میں کبھی آپ سفر کریں تو کھڑکی سے بہت سے متضاد مناظر آپ کو پیچھے کی طرف بھاگتے دکھیں گے۔کبھی اونچی نیچی پہاڑیاں تو کبھی گہری گہری کھائیاں۔ کبھی سرسبز کھیت تو کبھی چٹیل میدان، کبھی عالیشان بنگلے تو کبھی ٹوٹی پھوٹی جھونپڑیاں۔
مگر ہر منظر صرف چند لمحے رہ کر پیچھے کو چلاجاتا ہے اور ایک نیا منظر سامنے آجاتا ہے۔ یہی مثال زندگی کی ہے۔جیسے بھی حالات ہوں، کچھ وقت بعد زندگی کی گاڑی اسے پیچھے دھکیل دیتی ہے اور نئے حالات آپ کے سامنے لا کھڑے کرتی ہے۔
اس لیے کیسے ہی حالات ہوں، مایوس نہ ہونا چاہیے۔ رات کتنی ہی تاریک کیوں نہ ہو بالآخر آگے اچھے حالات کا سورج ضرور طلوع ہوتا ہے۔