امریکی صدر ٹرمپ کی ڈرامائی سیاست

پیر کی شب ایران کی جانب سے قطر میں واقع امریکی ائیر بیس العدید پر میزائل حملوں کی اطلاعات سے پوری دنیا میں ایک ہلچل مچ گئی تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ مشرق وسطیٰ میں جاری کشیدگی اب ایک عالم گیر جنگ کی صورت اختیار کر جائے گی اور اس کے منفی اثرات عالمی امن و استحکام کو متاثر کرکے رہیں گے ۔ اس ضمن میںامکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ امریکا خلیج میں اپنے بڑے فوجی مستقر پر حملے کے جواب میں ایران پر مزید سخت حملے کرے گا جبکہ ایران کی جانب سے اسرائیل کے علاوہ خطے میں موجود دیگر امریکی اڈوں پر بھی میزائل حملے کیے جائیں گے۔ان خدشات کو اس لیے بھی تقویت مل رہی تھی کہ ایرانی پارلیمنٹ نے آبنائے ہرمز بند کر دینے کی قرار داد کی منظوری دی تھی جس سے عالمی سطح پر تیل کا بحران پیدا ہونے کے امکانات ظاہر کیے جارہے تھے۔

مگر پھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر دنیا کو ”سرپرائز” دیتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک پیغام جاری کردیا جس میں کہا گیا تھا کہ ایران نے اپنی ایٹمی تنصیبات پر امریکی حملوں کا ”کمزور سا” جواب دے دیا ہے اور یہ کہ اس نے العدید ائیر بیس پر حملہ کرنے سے پہلے امریکا کو اطلاع دی تھی جس کے باعث وہاں کوئی جانی نقصان نہیں ہوالہٰذا امریکا اب چاہے گا کہ ایران اور اسرائیل جنگ بندی کی طرف آئیں اور ایک دوسرے پر مزید حملوں سے گریز کریں۔ اس پیغام کے جاری ہونے کے چند گھنٹوں کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ڈرامائی انداز میں یہ اعلان کیا گیا کہ ایران اور اسرائیل جنگ بندی پر رضامند ہوگئے ہیں اور یہ کہ دونوں ملکوں کے درمیان 12روز سے جاری لڑائی اب ختم کی جارہی ہے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے اعلان پر جہاں دنیا بھر کے امن پسند حلقوں نے سکون کا سانس لیا ہے وہیں ساتھ میں عالمی مبصرین امریکی صدر کی جانب سے مشرق وسطیٰ کے معاملے پر پل پل بدلتی سیاست اور ڈرامائی اعلانات پر مختلف زاویوں سے بحث کر رہے ہیں۔ بہت سے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اسرائیل نے امریکا کی پشت پناہی پر یہ جنگ جن اندازوں اور توقعات کے ساتھ شروع کی تھی، وہ غلط ثابت ہورہی تھیں اور ایران کی جانب سے غیر معمولی مزاحمت اسرائیل اور امریکا کے لیے ڈراؤنا خواب بنتی جارہی تھی۔ ان 12دنوں کے دوران دنیا نے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے اور اس کے شہرہ آفاق آئیرن ڈوم کے ناقابل عبور ہونے کے تصور اور بھرم کو توڑ کررکھ دیا اور اسرائیل کو پہلی دفعہ تل ابیب اور حیفہ جیسے محفوظ قلعوں کی بنیادوں پر ضربیں پڑتی محسوس ہوئیں۔ پھر اسرائیل نے ایران پر منصوبہ بند حملہ شاید اس حکمت عملی کے ساتھ کیا تھا کہ تہران پر یکبارگی یلغار اور ایران کی اعلیٰ عسکری قیادت کو یکایک نشانہ بنا دینے سے ایران میں افراتفری پھیل جائے گی اور لوگ ایرانی قیادت کے خلاف سڑکوں پر آجائیں گے جس سے ایران میں رجیم چینچ کے دیرینہ صہیونی منصوبے کی تکمیل ممکن ہوگی۔ مگر ایسا ہوا نہیں۔ ایران کی قیادت اسرائیل کی انٹیلی جنس مہم جوئی پر مشتمل خوفناک آپریشن کے بعد ٹوٹی نہیں اور ابتدائی صدمے کی کیفیت سے نکلنے کے بعد اس نے خود کو سنبھالا اور پھر اسرائیل کو موثر اور بھر پور انداز میں جواب دینے لگی۔ ایران کے پے درپے میزائل حملوں نے اسرائیل کے آئیرن ڈوم سسٹم کو بہت حد تک ناکارہ بناکر تل ابیب کے اہم اہداف کو نشانہ بنانا شروع کردیا جس نے صہیونی قیادت کے ہوش اڑادیے اور اس کی جانب سے امریکا کوجنگ میں کودنے کی اپیلیں کی جانے لگیں۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے ایران کو دھمکی دی، سرنڈر کرنے کا حکم دیا اور پھر اچانک ان کی جانب سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کرکے دوہفتوں کا وقت مقرر کیا گیا۔ عالمی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق امریکی صدر کے اس اعلان پر اسرائیل میں ہاہا کار مچ گئی کیونکہ اسرائیل کے شہری دو ہفتوں تک ایرانی میزائلوں کی زد میں رہنے کی تاب نہیں لاپارہے تھے۔ چنانچہ صہیونی لابی نے ٹرمپ انتظامیہ پر دباؤڈالنا شروع کردیا کہ جو کچھ کرنا ہے ایک دوروز کے اندر کردیا جائے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل کی اس فریاد پر مذاکرات کے لیے اپنا ہی دیا ہوا ٹائم فریم واپس لے لیا اور پھر اچانک ایک رات ایران کی تین جوہری تنصیبات پر حملہ کردیا گیا جس کے بعد صدر ٹرمپ نے اعلان کردیا کہ ایران کا ”ایٹمی خطرہ” ختم کردیا گیا ہے اور امریکا اور اسرائیل اب محفوظ ہیں۔ امریکا کا یہ اقدام بین الاقوامی قوانین کے علاوہ خود امریکی آئین کے بھی صراحتاًبرخلاف تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دیگر عالمی قوتوں روس چین وغیرہ نے بھی اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور خود امریکی عوام کی جانب سے بھی اس کی مخالفت سامنے آئی۔ عالمی مبصرین کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کا یہ غیر قانونی اقدام دراصل اسرائیل کو بچانے اور اسے فیس سیونگ دینے کی کوشش تھی۔ واضح رہے کہ ایران کی مذکورہ تنصیبات کو حملے سے پہلے ہی خالی کرالیا گیا تھااور بعض مبصرین کا خیال ہے کہ شاید ایران کو اس کی پیشگی اطلاع بھی دے دی گئی تھی۔ اس کے باوجود امریکا کا یہ اقدام چونکہ ایران کی داخلی خودمختاری پر براہ راست حملہ تھا اس لیے ایران کے پاس اس کا جواب دینے کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا۔ ایران چونکہ خود بھی اس جنگ میں اچھا خاصا نقصان اٹھا چکا تھا اور جنگ کے طول پکڑنے کا متحمل بھی نہیں تھا، شاید اس لیے اس نے ناپ تول کے ساتھ ایک محتاط ردعمل دینے کا فیصلہ کیا اور قطر کو پیشگی طور پر اطلاع دے کر وہاں موجود امریکی اڈے پر حملہ کردیا۔ یہ اڈہ امریکا پہلے ہی خالی کرچکا تھا اس لیے وہاں اس کا کوئی زیادہ نقصان نہیں ہوا البتہ خلیج میں امریکی مفادات پر حملہ کرنے کی ایرانی ”قسم” پوری ہوگئی۔ اس کے ساتھ ہی امریکی صدر نے جنگ بندی کا اعلان کردیا جس کی کچھ دیر بعد ایران نے بھی تصدیق کردی۔

تادم تحریر ایران اور اسرائیل دونوں کی جانب سے ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کے الزامات لگائے جارہے ہیں تاہم جنگ بندی ابھی قائم ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیل میں عوام کی جانب سے غزہ میں بھی جنگ بندی کے لیے مظاہرے شروع ہوگئے ہیں اور دنیا بھر کے امن پسند حلقے مطالبہ کر رہے ہیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اب نیتن یاہو پر بھی دباؤ ڈالیں اور غزہ میں کئی مہینوں سے محصور شہریوں کا قتل عام رکوائیں۔ صدر ٹرمپ کو امن کا پیامبر بننے کا شوق ہے اور وہ نوبل انعام حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے انہیں اب اسرائیل کی نازبرداری چھوڑ کر غزہ میں جنگ بندی کرانی ہوگی اور فلسطینی عوام کو اپنی سرزمین پر آزادی اور امن کے ساتھ جینے کا پیدائشی حق دلوانا ہوگا۔