پاکستان سے متصل ایران اور مشرق وسطیٰ اس وقت عالمی طاقتوں کی کشمکش کا مرکز بن چکا ہے۔ ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی بمباری اور اس کے جواب میں ایران کی جانب سے امریکی مفادات پر حملوں کی دھمکی نے سفارتکاری کی دنیا میں ہلچل مچا دی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس وقت عالمی امن کو درپیش خطرات میں کئی گنا اضافہ ہوچکاہے۔ ماسوائے چند ممالک کے، زیادہ تر کا خیال ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ عالمی قوانین اور سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھ کر ایک طاقتور ملک نے ایک چھوٹے ملک کی خودمختاری پر براہ راست حملہ کیا ہے۔ ایسے میں اسرائیل پر ایران کے جوابی حملوں نے واضح پیغام دیا ہے کہ اگر جنگ مسلط کی گئی تو اس کا دائرہ محدود نہیں رہے گا۔ امریکی صدر ٹرمپ کے تازہ بیان کے مطابق ایران میں حکومت کی تبدیلی قرین قیاس ہے۔ ٹرمپ کے الفاظ سے بھی معلوم ہوتاہے کہ ایران کے ساتھ تصادم کا خطرہ بدستور موجود ہے۔
عالمی سیاسی امور کے ماہرین کا خیال ہے کہ ایران کے خلاف اسرائیل کی جارحیت اور امریکی پشت پناہی دراصل ایک وسیع تر سیاسی ایجنڈے اور جدید استعماریت کا حصہ ہے جس کا محور اسرائیل کی حفاظت اور مشرق وسطیٰ میں امریکی تسلط کا قیام ہے۔ دوسری جانب امریکی میڈیا اور عوام کی جانب سے اس جنگ کیخلاف شدید ردعمل اور سڑکوں پر احتجاج اس بات کا غماز ہے کہ امریکی شہری خود اس جنگ کو اپنے قومی مفاد کے منافی سمجھتے ہیںجو واقعی درست ہے کیونکہ اسرائیل کا ظالم حکمران نیتن یاہو اپنے اقتدار کی طوالت کیلئے امریکا کو جنگ میں کودنے کی ترغیب دے رہاہے۔ نیتن یاہو عالمی امن کیلئے اس وقت سب سے سنگین خطرہ بن چکاہے۔ اس تنازعے میں چین، روس اور پاکستان کا کردار غیرمعمولی طور پر متوازن، قانونی اور سفارتی دائرے میںدکھائی دیتاہے۔ ان ممالک نے سلامتی کونسل میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کی قرارداد پیش کر کے نہ صرف بحران کو روکنے کی کوشش کی بلکہ بین الاقوامی قوانین اور عالمی ضمیر کو متحرک کرنے کی سنجیدہ سعی کی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی امریکی حملے کو خطرنا ک قرار دیتے ہوئے فوری مذاکرات پر زور دیا۔ روسی سفیر نے عراق جنگ کی مثال دے کر امریکی حکمت عملی پر تاریخی تناظر میں تنقید کی، جبکہ چینی نمائندے نے سفارت کاری کو ہی واحد راستہ قرار دیا۔ اس کے برعکس، امریکی مندوب کا ایک بار پھر ایران پر جوہری ہتھیار بنانے کا الزام لگانا محض پرانی کہانی کو نئے انداز میں دہرانے کے مترادف ہے، جبکہ عالمی سطح پر ایران کے جوہری پروگرام کی شفافیت کو کئی بار تسلیم کیا جا چکا ہے۔
اس سب کے دوران ایران نے عندیہ دیا ہے کہ اس کی جوابی کارروائی کا وقت اور نوعیت ایران خود طے کرے گا۔ اسرائیلی میڈیا کی یہ رپورٹ کہ امریکا اب یکطرفہ جنگ بندی کے آپشن پر غور کر رہا ہے، اگر درست ثابت ہوتی ہے، تو ایران اسے اپنی فتح قرار دے گا، جبکہ امریکا اور اسرائیل اپنے مقاصد کے حصول کا دعویٰ کریں گے۔ یوں دونوں فریق ایک عبوری راستے پر متفق ہو سکتے ہیں، لیکن کشیدگی کی بنیادی وجوہات بدستور موجود رہیں گی اور یہ علاقائی عدم استحکام کا سبب بنتی رہیں گی۔ پاکستان نے سلامتی کونسل میں واضح طور پر کہا ہے کہ ایران پر حملے عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہیں اور پاکستان اس نازک وقت میں ایران کے ساتھ کھڑا ہے۔ پاکستان نے تنازعے کے پرامن حل کی بات کی ہے اور سفارتی اقدامات کے ذریعے ایرانی موقف کو تقویت دی ہے۔ محدود عسکری صلاحیتوں اور امریکا سے جغرافیائی فاصلے کے باوجود سفارتی سطح پر پاکستان کا کردار ذمہ دارانہ رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق ایران نے بھی اب تک پاکستان سے کوئی عسکری مدد نہیں مانگی اور نہ ہی پاکستان پر دباؤ ڈالا ہے، بلکہ وہ روس اور چین کے ساتھ اپنے دفاعی تعاون کو کافی سمجھتا ہے۔ یہ پاکستان کی غیرجانبدارانہ اور اصولی خارجہ پالیسی کا عکاس ہے جو خطے میں امن و استحکام کے لیے کوشاں ہے جبکہ اس کے مقابلے میں اسرائیل خطے میں دہشت گردی، نسل کشی، جنگ، بدامنی اور تشدد کو ہوا دے رہاہے۔
روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے اسرائیل کو بے نقاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران واحد ملک ہے جس نے سب سے زیادہ جوہری معائنوں کو قبول کیا ہے، جبکہ اسرائیل این پی ٹی کا رکن تک نہیں ہے اور اسے بین الاقوامی ادارے آج تک جواب دہ بنانے سے قاصر رہے ہیں۔ یہ دہرا معیار عالمی اعتماد کو مجروح کرتا ہے اور بین الاقوامی نظام انصاف پر سوالیہ نشان بنتا ہے۔ یہ سوال اب پوری دنیا کو اٹھانا چاہیے کہ عالمی قوانین کو عملی طورپر غیر مؤثر بنانے، سفارت کاری کو نظر انداز کرنے اور طاقت کے ذریعے مزعومہ نتائج حاصل کرنے کی کوشش آخر امن کا ذریعہ کیسے ثابت ہوسکتی ہے؟بنیادی طورپرامریکا میں ٹرمپ کی قیادت کا انداز اب عالمی سطح پر سنجیدہ سوالات کو جنم دے چکا ہے۔ وہ نہ صرف اپنے ہمسایہ ممالک، بلکہ یورپی اتحادیوں اور عالمی اداروں سے بھی الجھتے رہے ہیں۔ ان کی غیر متوازن پالیسی، فیصلہ سازی میں تضاد اور موقع پرستانہ طرز سیاست نے امریکا کی خارجہ پالیسی کو مذاق بنادیا ہے۔ ان حالات میں چین کے صدر کا یہ کہنا کہ ”دنیا امریکا کے بغیر بھی چل سکتی ہے”، محض ایک سیاسی بیان نہیں، بلکہ ایک نئی عالمی صف بندی کااشارہ ہے۔
اس تنازع میں اکثر ملکوں کی کھل کر امریکی موقف کی مخالفت اور عالمی حالات کا منطقی تجزیہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ امریکا اور اسرائیل کا عسکری اتحاد ایک محدود مدت کیلئے جنگی برتری تو حاصل کر سکتا ہے، لیکن عالمی رائے عامہ، قانونی موقف، سفارتی دباؤ اور تاریخی تجربات اس بات کی اجازت نہیں دیں گے کہ مشرق وسطیٰ کو مستقل طور پر امریکی مفادات کے تابع کر دیا جائے۔ ایران کی مزاحمت، روس اور چین کی حمایت اور پاکستان کا قانونی و اخلاقی موقف ایک ایسا فطری اتحاد تشکیل دے رہا ہے جو مستقبل میں عالمی طاقت کے توازن کو نئی صورت دے سکتا ہے۔ غالباً وہ وقت آپہنچا ہے جب نئی صف بندیوں کی تشکیل واضح ہوتی جارہی ہے لہٰذا دنیا کے دیگر ممالک کو بھی چاہیے کہ وہ ایک نئے عالمی نظام کی جانب پیش قدمی کا حصہ بنیں۔ پاکستان کے ہاتھوں بھارت کی پٹائی اور ایران کی جانب سے اسرائیل کی مرمت سے بڑی اور کیا نشانیاںہوسکتی ہیں؟