ایران اسرائیل جنگ اور نئے عالمی اتحاد کے امکانات

عالمی ذرائع ابلاغ سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق ایران نے اسرائیلی حملوں کے دوران جنگ بندی پر مذاکرات سے دوٹوک انکار کر دیا ہے اور ثالثی کا کردار ادا کرنے والے ممالک قطر اور عمان کو واضح طور پر آگاہ کیا ہے کہ جب تک اسرائیل کے پیشگی حملوں کا مکمل جواب نہیں دے دیا جاتا، کسی قسم کی بات چیت ممکن نہیں ہوگی۔ یاد رہے کہ جمعے کی صبح اسرائیل کی جانب سے ایران پر بڑے پیمانے پر حملوں کے بعد، ایران نے جوابی کارروائی کا آغازکیا اور اتوار کو امریکا سے طے شدہ مذاکرات کا چھٹا دور منسوخ کر دیا۔ علاوہ ازیں ایران کی مسلح افواج نے اسرائیلی شہریوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ حساس علاقوں کے قریب جانے سے گریز کریں کیونکہ ایران کے پاس مقبوضہ علاقوں میں واقع تنصیبات کا مکمل ڈیٹا موجود ہے اور عن قریب ان تمام علاقوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

پیر کی صبح ایران نے اسرائیل پر ایک اور میزائل حملہ کیا جس میں حیفہ کو نشانہ بنائے جانے کی اطلاعات ہیں۔ اسرائیل کے کئی مقامات پر ہونے والی تباہی کے مناظر کو غزہ سے مشابہ قرار دیا جا رہا ہے جس پر دنیا بھر کے مسلمانوں ایرانی افواج کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اسرائیل نے یہ جنگ تنہا شروع کی تھی لیکن اب محسوس ہو رہا ہے کہ وہ تنہا ایران سے نہیں لڑ سکے گا چنانچہ ایسے میں برطانوی وزیر خزانہ کا یہ عندیہ کہ برطانیہ ایران کے ساتھ ممکنہ تنازع کی صورت میں اسرائیل کی مدد کر سکتا ہے اور اس مقصد کے لیے جنگی طیاروں کی منتقلی عمل میں لائی گئی ہے، حالات کی سنگینی کو نمایاں کرتا ہے۔ اسی تناظر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ امکان ظاہر کرنا کہ امریکا اسرائیل اور ایران کے درمیان جاری جنگ میں شامل ہو سکتا ہے، اس صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے کیوں کہ امریکا اگر اس جنگ میں کودا تو دیگر عالمی طاقتیں بھی پیچھے نہیں رہیں گی اور دنیا میں تیسری عالمی جنگ چھڑ جائے گی جبکہ صدر ٹرمپ خود کو یہ کریڈٹ دیتے آرہے ہیں کہ وہ دنیا میں جنگ نہیں چاہتے۔

حالات و واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بین الاقوامی تعلقات کی بنیاد طاقت کے توازن پر قائم رہتی ہے، گویا اقوام عالم کی بقا، سلامتی اور ان کے مفادات کا تحفظ اس بات پر منحصر سمجھا جاتا ہے کہ وہ اپنی عسکری، معاشی اور سیاسی طاقت کو کس حد تک برقرار اور استعمال کر سکتی ہیں۔ جو قومیں اپنے دفاع کی قوت نہیں رکھتیں، انھیں اقوامِ عالم کے درمیان اہمیت نہیں دی جاتی۔ حال ہی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان رونما ہونے والی جنگ کے واقعات اس اصول کی زندہ مثال ہیں۔ جب بھارت نے پہلگام واقعے کی آڑ میں پاکستان کے خلاف جارحانہ عزائم کا اظہار کیا اور اپنی فوجی برتری دکھانے کی کوشش کی تو پاکستان کے جوابی دفاعی اقدام نے عالمی سطح پر ایک واضح پیغام دیا کہ پاکستان نہ صرف اپنا دفاع کر سکتا ہے بلکہ وہ حملہ آور ملک کے گھر میں گھس کر اس کے دانت بھی توڑ سکتا ہے۔ پاکستان کے بھرپور جواب کی وجہ سے بھارت کو عالمی سطح پر نہ صرف شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ پاکستان کی دفاعی صلاحیتوں کو بھی ایک نئے تناظر میں تسلیم کیا گیا۔ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ جارحیت کا مقابلہ ہمیشہ طاقت سے ہی کیا جا سکتا ہے، اور یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جہاں کمزور سمجھی جانے والی قومیں اپنی اہمیت منواتی ہیں۔

اسی طرح اب مشرق وسطیٰ میں ایران اور اسرائیل کے مابین جاری کشیدگی عالمی سیاست کے میدان میں ایک نئی صف بندی کی بنیاد رکھ رہی ہے۔ ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی جانب سے اسرائیل پر میزائل حملوں نے جن میں اسرائیل کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹمز کو نشانہ بنایا گیا ہے، دراصل ایک نئی قوت کی نشان دہی کر دی ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایران کے میزائل حملوں کی شدت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ رات کیے گئے حملے پہلے سے زیادہ طاقتور اور مؤثر تھے، اور انہوں نے اسرائیل کے کثیر سطحی دفاعی نظام کو بھی مفلوج کر دیا۔ یہ اطلاع بھی سامنے آرہی ہے کہ اسرائیل کے دفاعی نظام کے بعض حصوں یعنی بعض پیٹریاٹ اور دفاعی یونٹس نے آپس میں ہی ایک دوسرے کو نشانہ بنانا شروع کر دیا، مسلم امہ کے لیے کسی خوش خبری سے کم نہیں، اگر یہ خبریں درست ہیں تو یہ اسرائیل کے دفاعی نظام کی تزویراتی کمزوری اور امریکی و مغربی حمایت کے باوجود اس کی ناکامی کی طرف اشارہ کرتے ہیں جیسا کہ گزشتہ رات کے حملوں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کے حیفہ پاور پلانٹ پر حملہ ہوا جس کے نتیجے میں وسطی اسرائیل میں بجلی کی بندش ہوئی، اس کے علاوہ آئل ریفائنری اور دیگر دفاعی اور اقتصادی اہداف نشانہ بن گئے۔ ان کامیابیوں کے ساتھ ہی ایران کا یہ دعویٰ کہ ان حملوں نے صہیونی اور امریکی دشمن کی غلط تشخیص کو جھٹلا دیا ہے، اس جانب اشارہ ہے کہ ایران کے دفاعی اقدام اور خارجہ پالیسی میں کوئی غیر معمولی تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔ اس موقع پر یاد رکھنا چاہیے کہ یہ جنگ اب صرف پراکسی کے ذریعے نہیں بلکہ براہ راست ہو رہی ہے اور اس میں ایران ایک دفاعی طاقت کے طور پر اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ ایران نے ثالثوں قطر اور عمان کو بھی واضح طور پر بتا دیا ہے کہ جب تک اسرائیل کے حملوں کا مکمل جواب نہیں دے دیا جاتا، جنگ بندی پر کوئی بات نہیں کی جائے گی۔ یہ ایک مضبوط اور دوٹوک مؤقف ہے جو اپنی شرائط پر مذاکرات کا اظہار کر رہا ہے۔

پاکستان کی جانب سے ایران کے دفاع کا اعلان اسلامی ممالک میں اسرائیل کے مقابلے میں ایران کی بڑے پیمانے پر حمایت کا سبب بن چکا ہے۔ پاکستان کا وزن اب عالمی سطح پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے ایران کی ہر ممکن حمایت کے اعلان کے فوراً بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے پاک، بھارت جنگ بندی میں اپنے کردار کا حوالہ دیا ہے۔ ایک بیان میں امریکی صدر نے ایران اور اسرائیل کو بھی اسی طرز پر امن کی راہ پر لانے کی بات کی جیسا کہ وہ پاک بھارت جنگ کے سلسلے میں پیش کرتے رہے ہیں۔ یہ بیان امریکی خارجہ پالیسی کے ایک خاص زاویے کی عکاسی کرتا ہے۔ امریکی صدر خطے کے مسائل کو محض سودے بازی کے اصولوں سے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن دوسری جانب ایران کا موقف یہ ہے کہ وہ اپنے افراد کے خون کا بدلہ لیے بغیر جنگ بندی کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ اگر ایران میدان میں اپنی پوزیشن پر مستحکم رہتا ہے اور اسرائیل پر اس کے میزائل حملے مؤثر ثابت ہوتے ہیں تو اسرائیل کو بھی عالمی سطح پر ویسے ہی ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جیسا کہ ماضی میں دیگر جارحیت پسندوں کو ہوا ہے۔ ایسی صورتحال میں، ایران نہ صرف خود کو ایک علاقائی طاقت کے طور پر مزید مستحکم کرے گا بلکہ اپنے اتحادی ممالک، خصوصاً پاکستان اور چین کے ساتھ مل کر ایک طاقتور عالمی اتحاد کا حصہ بن جائے گا۔ یہ اتحاد عالمی طاقت کے توازن کو تبدیل کر سکتا ہے، جہاں مغربی ممالک کے ساتھ ساتھ ایک نیا طاقتور بلاک بھی بین الاقوامی فیصلوں میں مساوی حیثیت کا حامل ہوگا۔