اتوار کی رات ایران نے آپریشن وعدہ صادق تین کے تحت اسرائیل پر 100 بیلسٹک اور ہائپر سونک میزائلوں سے حملے کیے اور یہ سلسلہ دن بھر جاری رہا، جن میں اسرائیلی زیر قبضہ حیفا کے معاشی مراکز بھی نشانہ ہیں۔ شمالی اسرائیل بھی ایران اور یمن سے برسنے والے میزائلوں کے باعث دھماکوں سے گونج اٹھا ہے اور ہر طرف صہیونیوں پر ویسا ہی خوف و وحشت سوار ہے، جو انہوں نے غزہ کی ماؤں، بیٹیوں اور بچوں پر مسلط کر رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ایران نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے خاتم الانبیاء ایئر بیس سے ایک گھنٹے میں اسرائیل کے دس طیارے بھی مار گرائے ہیں۔ دوسری جانب اطلاعات ہیں کہ امریکا نے یوکرین سے میزائل اور دفاعی نظام مشرق وسطیٰ منتقل کر دیا ہے۔ امریکی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ خطے میں اپنے لوگوں کو بچانے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔ ادھر وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر نے بھی کہا ہے کہ برطانیہ مشرقِ وسطیٰ میں اپنے جنگی طیارے اور دیگر فوجی وسائل تعینات کر رہا ہے تاکہ خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر ”ہنگامی معاونت” فراہم کی جا سکے۔
ایران نے اسرائیل کے خلاف جوابی حملوں کا جو سلسلہ شروع کیا ہے، وہ نہ صرف مشرقِ وسطیٰ کی بدلتی ہوئی جنگی جہت کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ اس نے قدم قدم پر عالمی طاقتوں کے دوہرے معیار اور دوغلے پن کو بھی پوری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔ میدان جنگ سے اطلاعات اسرائیل اور ایران دونوں کے حملوں اور ان سے دونوں جگہ ہونے والے نقصانات کی اطلاعات برابر آرہی ہیں۔ گو اسرائیل نے جانی نقصان اور ہلاکتوں کی خبروں پر سختی سے پابندی لگا رکھی ہے، جس کی وجہ سے بہت کم تعداد سامنے آ رہی ہے، مگر یہ پابندی از خود یہ واشگاف کر رہی ہے کہ اسرائیل کو ٹھیک ٹھاک جانی نقصانات بھی سہنا پڑ رہے ہیں، جن میں اعلیٰ فوجی و سول حکام بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ تمام تر پابندیوں کے باوجود ایران کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کی جو فوٹیجز مختلف عالمی ذرائع ابلاغ کے توسط سے سامنے آرہی ہیں، ان سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایران نہ صرف خوب تاک تاک اپنے اہداف کو نشانہ بنا رہا ہے، بلکہ اس نے اسرائیل کے مایہ ناز دفاعی حصار آئرن ڈوم کو بھی تارِ عنکبوت کی طرح اڑا کر رکھ دیا ہے۔ ایران کے ان جرأت مندانہ حملوں نے جہاں پورے خطے پر بیٹھی ہوئی اسرائیل کے خوف کی دھاک کو ختم کر دیا ہے ، وہاں گزشتہ دد دن سے پے در پے ہونے والے حملوں نے خطے کے دیگر ممالک کو بھی اک ذرا سی ہمت اور ایمانی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا بہترین اور تاریخی موقع فراہم کر دیا ہے۔
دیکھا جائے تو اسرائیل کے حملوں نے ایران کا زیادہ نقصان کردیا ہے، اس کی فوجی قیادت کی پہلی پوری صف ختم کردی ہے، اس کے علاوہ جوہری تنصیبات، گیس فیلڈز، چھاؤنیوں اور دیگر اہم اہداف کو بے پناہ نقصان سے دوچار کر دیا ہے، مگر ایران کی جوابی کارروائی کے دوران اسرائیل کو جس پیمانے پر نقصانات کا سامنا ہے، یہ اسرائیل کے بڑوں کے بھی وہم و گمان میں نہیں تھا، یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے ابتدائی حملوں میں ہی ایران کے شدید نقصان پر، شاید یہ سمجھتے ہوئے کہ ایران اب گھٹنے ٹیک دے گا، اسرائیل کے سرپرست ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کو دھمکی دی تھی کہ اگلے حملے اس سے زیادہ خطرناک ہوں گے، جبکہ اب ایران کے غیر متوقع جوابی وار کے بعد امریکی صدر کا لب و لہجہ بدل گیا ہے اور وہ حملوں میں عدم شرکت کی وضاحتیں دیتے اور مفاہمت کرانے کی باتیں کرتے نظر آرہے ہیں، مگر امریکا اور اس کی اتحادی عالمی طاقتوں کی منافقت کا یہ عالم ہے کہ ساتھ ہی انہوں نے مشرق وسطی میں اپنے جنگی سازو سامان پہنچانا بھی شروع کر دیا ہے، جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ وہ اپنے لے پالک ناجائز اولاد اسرائیل کو کمزور ہوتا دیکھ کر ایران کے خلاف میدان میں آنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ میدان کارزار سے ابھرنے والے آثار مظہر ہیں کہ ایرانی حملوں نے اسرائیل اور اس کے عالمی سرپرستوں کو نئی حکمتِ عملی سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔
اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کی ممکنہ نئی حکمت عملی اپنے انجام اور مآل کے اعتبار سے نہ صرف پورے خطے اور عالم انسانیت کیلئے انتہائی خطرناک ہوسکتی ہے، بلکہ اس سے خود اس شر کو ہوا دینے والی قوتوں کو بھی شدید نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا اور ان کے ہاتھ سوائے افسوس کے کچھ نہیں آئے گا مگر تب تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ امریکی وزیر دفاع اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں تعینات افواج اور ”اپنے” لوگوں کے تحفظ کیلئے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی برطانوی وزیر اعظم بھی جنگی طیارے بھیجنے کی منظوری دے چکے ہیں، جبکہ فرانسیسی صدر بھی اس جنگ میں کودنے کے عزائم کا اظہار کرچکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان تمام طاقتوں کے ”اپنے” لوگوں کے تحفظ کے نام پر جنگ میں کود پڑنے کے بعد کیا ایران کے ”اپنے” لوگوں اور کلمہ و عقیدے میں مشترک پڑوسی مسلم ملکوں اور اتحادیوں کو ایران کی حمایت میں پیکار آزما ہونے سے روکا جا سکے گا؟ اسلامی دنیا میں اب یہ تاثر پختہ ہوچکا ہے کہ ایران محض بہانہ ہے، یہ سب افغانستان، عراق، لیبیا، یمن و شام سے شروع ہونے والا سلسلہ ہے، ایران کے بعد اگلا کوئی مسلم ملک نشانہ بنے گا، یہ بہت ہوچکا، اسرائیل کی بغیر کسی جواز کے ایران پر کھلی جارحیت کی سپورٹ سے مسلم دنیا کو بھی اپنے عالمی اتحادیوں کے ساتھ اس جنگ میں شامل ہونے سے روکنا مشکل ہوجائے گا۔
صورتحال خاکم بدہن اسی ترتیب پر جاری رہی تو کون ہے جو انسانیت کو تیسری عالمگیر جنگ میں داخل ہونے سے روک سکے؟ اقوام متحدہ کو تو غاصب طاقتوں نے پہلے ہی کمزور کرکے رکھ دیا ہے۔ خود کو ”عالمی رہنما” باور کروانے والے ان بونوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ بہرکیف انجام جو بھی ہو، ایران کا غاصب قابض اسرائیل پر پلٹ کر کاری وار بہت چونکادینے والا ہے۔ غزہ کے بے کس، بے بس، مظلوم و محصور فلسطینی تقریباً دو سال سے اسرائیل کی جس بدترین سفاکیت و بہیمیت کا سامنا کر رہے ہیں، آج تل ابیب، حیفا، یافا، جلیل اور دیگر اسرائیلی شہروں کو بھی اس کی کچھ جھلک دیکھنا پڑ رہی ہے اور یقینا یہ مظلوموں اور مظلوموں کے حامیوں کیلئے دل کی ٹھنڈک اور آنکھوں کے سرور کا باعث مناظر ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس جنگ کا انجام اہل ایمان کے حق میں بہتر کرے اور ذلت و رسوائی اسرائیل اور اس کے سرپرستوں کا مقدر ہو۔