فادرز ڈے!

میمونہ بنت ہارون انصاری
شاید ہی کوئی تہذیب و تمدن ہو یا کوئی معاشرہ یا کوئی بودوباش جہاں ماں کے مقام اور قربانیوں کو ماننے سے انکار کیا جاتا ہو۔بلکہ ماں کی محبت اور اس کا ایثار تو ضرب المثل کی طرح استعمال ہوتا ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں ہے کہ ماں محبت کا نشان ہے، قربانی کا دوسرا نام ہے۔
خود اللہ رب العزت نے اپنی محبت کو تمثیلاً ماں کی محبت کی نسبت سے سمجھایا کہ میں ماں سے ستر گنا زیادہ اپنے بندے سے محبت کرتا ہوں۔لہٰذا ماں کے ساتھ حسن سلوک اور اس کی ان قربانیوں کی قدردانی کی تعلیم اور تربیت بچپن ہی سے ہر بچے کو دی جاتی ہے اور دی جانی بھی چاہیے کہ یہ اس کا حق ہے کہ یہی وہ شخصیت ہے جو اس کو اس دنیا میں لانے کا ذریعہ بنی۔ جب وہ خود بھی اپنے آپ کو نہیں پہچانتا تھا تب اُس کی ماں ہی تو اس کو اپنے وجود میں سنبھالے پھری اور پھر بچے کی پیدائش پر ماں کی تکلیفیں اور پھر اس کی پرورش میں نہ ختم ہونے والی جدوجہد کی ایک طویل داستان۔
مگر اِس داستان کو رقم کرتے ہوئے اُس عظیم ہستی کے ذکر کو بھول جانا جو ماں کی اصل طاقت ہے، وہ عظیم ہستی جو اس ماں کے پیچھے اس کے وجود کو قوت بخشنے والا اصل سبب ہے۔وہی ہستی جس کے سبب ماں کے چہرے پہ قوس و قزح کے رنگ سجتے ہیں۔وہی ہستی جو اس ماں اور اس کی اولاد کو فکر معاش سے آزاد کر کے عزت اور تحفظ کی چھت فراہم کرتی ہے۔ جی ہاں یعنی باپ! تو یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ہم ایک ایسی شخصیت کے تمام تر احسانات کو فراموش کر دیں کہ اصل میں جس کے سبب گھر کی چار دیواری میں تحفظ، عزت، محبت ،اطمینان اور سکون کی فضا پروان چڑھتی ہے اور اس فضا ہی میں دراصل ماں اپنے بچوں کو وہ پیار دے پاتی ہے جو اُس کی اپنی ذات کے نہا خانوں میں خوشبووں کی طرح مہکتا ہے یعنی اس کی ممتا۔
یہی وجہ ہے کہ جن ماوں کی اولاد کے باپ سلامت نہیں رہتے اکثر ایسے گھروں کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔باپ کے وجود سے محروم بچے شدید احساس محرومی،عدم تحفظ،احساس کمتری اور دیگر ایسی بہت سی نفساتی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔کیونکہ باپ ہی تو وہ مضبوط چھت ہے جس کے تلے اس کے بچے تحفظ اور عزت کی میٹھی نیند سوتے ہیں۔چاہے کسی کے گرد بہت سے محبت کرنے والے رشتوں کا حلقہ ہو؛ ماموں ،چچا، دادا، نانا مگر یہ تمام کے تمام رشتے اور ان کی بے شمار محبتیں صرف ایک اکیلی ہستی یعنی باپ اور اس کی محبت کا نعم البدل نہیں ہو سکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ سمجھدار مائیں خواہ کتنے ہی سخت اور مشکل حالات کا شکار ہوں اپنی اولاد کو ان کے باپ کی پر شفقت چھاوں میں رکھتی ہیں۔
باپ جس کی شفقت اور اس کی مثالیں ہم آنکھ کھولتے ہی سنتے چلے آئے ہیں۔شفقت جو ایک خوبصورت جذبے کا نام ہے۔ ایسا جذبہ جو دل اور دماغ دونوں سے تعلق رکھتا ہے۔ہے نا کتنی انوکھی بات….!! ورنہ عموماً جذبے دل سے جنم لیتے ہیں لیکن لفظ شفقت کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ یہ وہ خاص جذبہ ہے جس کا تعلق صرف دل ہی سے نہیں دماغ سے بھی ہے اور اس جذبے کو خاص طور پر باپ کے کردار کے ساتھ یاد دلایا جاتا ہے۔ اگر ہم آج اس بات کو مزید سمجھنا چاہیں تو ایک نہایت خوبصورت راز بھی افشاں ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ چونکہ عورتیں عموماً جذبات سے مغلوب ہوتی ہے جبکہ مردوں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے زیادہ تر فیصلے دماغ سے کرتے ہیں۔باپ جو کہ ایک مرد بھی ہے مگر جب وہ اپنی اولاد کے لیے فیصلے کر رہا ہوتا ہے خواہ وہ فیصلہ دل سے کر رہا ہو یا دماغ سے، دونوں صورتوں میں اولاد کے لیے نرمی محبت اور کرم کا عنصر غالب رہتا ہے۔ یہی تعریف ہے لفظ شفقت کی۔ہے نا کتنی خوبصورت بات….!اِسی لیے تو اپنی تمام تر زندگی کی نہایت محنت سے کمائی ہوئی تمام پونجی اپنی اولاد کے سپرد کر کے کتنا مطمئن نظر آتا ہے یہ باپ!! باپ کے بارے میں ہم صرف جذباتی نقطہ نظر سے کلام نہیں کریں گے بلکہ آج ایک عجیب سائنسی تحقیق بھی دیکھتے ہیں :
According to scientific American journal:
During a partner’s pregnancy, a man’s hormone levels can shift often experiensing a decline in testosterone and an increase in cortisol, which can be associated with increased caregiving and bondiang behaviors.
جی ہاں یہ قدرت کے اسی نظام کی عکاسی ہے جو ایک مرد کو باپ بنانے کے عمل سے گزارتے ہوئے اُس کے اندر بھی ہارمونل تبدیلیاں پیدا کردیتی ہے، تاکہ وہ نہ صرف اپنی بیوی بلکہ اپنی آنے والی اولاد کے لیے نہایت شفقت، عزت، تحفظ محبت اور احساس کے رویوں کو اپنا سکے۔
یہی وجہ ہے کہ اولاد کا وجود جب ان محبت سے پُر ہاتھوں میں آتا ہے تو وہ بچپن، لڑکپن اور جوانی تک کا سفر نہایت اطمینان سے طے کرتی چلی جاتی ہے۔ راستے کی کتنی مشقتوں کا تو اسے احساس ہی نہیں ہوتا، کیونکہ کوئی اور اس کے حصے کی تھکن سمیٹ رہا ہوتا ہے۔اس کے راستے کے تمام کانٹوں کو کوئی اور چن رہا ہوتا ہے۔اس کے لیے ہر حال میں روٹی کپڑے اور مکان کا انتظام تو کوئی اور کر رہا ہوتا ہے اور اس شفیق ہستی کا نام جانتے ہیں کیا ہے …. باپ عظیم باپ۔ تو آج جب دنیا فادرز ڈے کے نام سے اس عظیم ہستی کو خراج تحسین پیش کررہی ہے تو جہاں یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور الحمدللہ ہمارے پاس ایک مکمل نہایت کامیاب منشور حیات موجود ہے جو تمام حیات کو محیط ہے چند ساعتوں چند گھنٹوں اور چند ایام پر نہیں۔ ہم ایک باشعور اور میچیورڈ اُمت ہیں۔محض ایک ایونٹ کو سیلیبریٹ کرلینا اور پوری زندگی نبھانے والے فرائض کو محض چند جملوں یا چند ساعتوں میں سمیٹ دینا یا سکیڑ دینا کمال نہیں زوال ہے، احسان نہیں ظلم ہے! ہاں مگر اتنا ضرور ہے کہ اس ایونٹ کے حوالے سے ہم تجدیدِ نیت اور تجدیدِ عمل ضرور کرسکتے ہیں۔ تو کیوں نہ آج ہم سب اولادیں بھی خود سے ایک عہد کریں، ایک عظیم عہد، اعترافِ احسان کا عہد!
کیا ہم جانتے ہیں اِس کا کیا مطلب ہے؟ اِس کا یہ مطلب ہے کہ اس عظیم ہستی کے وہ تمام احسانات جو اس نے ہم پر کیے اُس کا دل سے اعتراف کریں اور جب دل کسی بات کا معترف ہوتا ہے تو عمل اس کی گواہی دیتا ہے۔یعنی یہ اعتراف صرف زبانی کلامی نہ ہو بلکہ ہمارے عمل سے جھلکتا ہو۔ ہمارے لفظوں میں تو ہمارے والد محترم کے قصیدے اکرام اور عزت سبھی کچھ ہو، جب ہم اُن سے گفتگو کریں تو ہمیں یاد ہو کہ انہوں نے ہمیں انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا تھا ،ہمیں یاد ہو کہ جب ہم بارہا گرتے تھے تو وہ ہمیں بارہا سنبھالتے تھے۔ ہمیں یاد ہو کہ جب ہم کوئی پھل شوق سے کھاتے تھے تو وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اُسے بازاروں سے خرید کر ہمارے لیے لے کر آتے تھے۔ ہمیں یاد ہو کہ جب کبھی وہ ہمیں ہماری تربیت کے لیے ڈانٹ بھی دیتے تو کسی اور طریقے سے ہمارے لاڈ اٹھاتے تھے۔ ہمیں وہ دن بھی یاد ہونے چاہییں جب ہم نے کبھی اپنی پڑھائی کے میدان میں کوئی بھی کامیابی حاصل کی تو یہی وہ ہستی تھی جو ہمیں ہمیشہ خود اپنے آپ سے زیادہ مسرور نظر آئی۔لہٰذا جب ہم اُن سے گفتگو کریں تو ہماری گفتگو میں ان تمام قدردانیوں کی مٹھاس گھلی ہوئی ہو! ہماری دعاو¿ں میں ان کا خاص حصہ ہو، جیسے ایک باضمیر قدردان اور احسان مند انسان اپنے محسن کے لیے کرسکتا ہے۔
رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا
ربنا اغفر لی و لوالدیّ و للمومنین یوم یقوم الحساب
جب ہم اُن کے ساتھ کھانا کھائیں تو ہمیں یاد ہو کہ وہ ہمارے بچپن میں ہمیں کیسے کھانا کھلاتے تھے۔ ہماری پسند کی چیز اگر کم ہوتی تو ہمیں کھلا کر خود یہ ظاہر کرتے کہ انہیں اس کی کوئی حاجت ہی نہ تھی۔ کیا ہم بھی آج ان سے ایسا ہی رویہ اختیار کرتے ہیں؟ ہمیں اپنے ضمیر سے خود یہ سوال کرنا چاہیے ۔اگر ایسا نہیں ہے تو ہم احسان فراموش ہیں۔جب ہم بچے تھے تو بغیر کہے ہی انہیں ہماری تمام ضرورتوں کا احساس ہوتا تھا اور ان کی اپنی ضرورتوں کی باری تو گویا ان کی زندگی میں آتی ہی نہ تھی۔ ہمارے کپڑے‘ ہمارے جوتے‘ ہمارا بستہ‘ ہمارا یونیفارم‘ ہمارے کھلونے …. اور نہ جانے کیا کیا، مگر ان کی تو عید بھی بغیر نئے کپڑوں ہی کے گزر جاتی تھی! ایسا کیوں تھا؟ کیا کبھی سوچا ہم نے؟ اِس لیے کیونکہ انہیں ہماری ضروریات سے فرصت ہی نہیں ملتی تھی اور اس لیے بھی کہ ہماری خوشیاں ان کی خوشیاں بن چکی تھیں۔ آئیں نا اس فادرز ڈے میں ہم بھی ازسرِ نو ایک جذبے کی تعمیر کرتے ہیں۔ ایک رویے کی ترتیب کرتے ہیں۔وہی محبت بھرا رویہ، وہی احساس اور شفقت بھرا رویہ جو ہم نے بچپن میں اُن سے پایا تھا آج اُن کو لوٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اِس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اور وہ اگلی دنیا کے باسی بن جائیں۔ ہم اپنی محبتوں کے حصار میں لے کر آج اُن سے یہ اعتراف کرتے ہیں۔
میم سے محبت ہے، شین سے لفظ شفقت، عین سے عزت اور عظمت بھی آتے ہیں …. والد محترم جب نام آپ کا آئے تو یہ سارے وصف آپ میں سماتے ہیں …. آج ہم آپ کو اِک بات بتاتے ہیں۔ دل کے آکاش پر، اِک پرچم لہراتے ہیں …. جس پر کچھ لفظ ستارے بن کر جھلملاتے ہیں۔ روح کے ایوانوں میں آپ کا نام اور آپ کا مقام، بلند‘ بہت بلند مقام پر آتے ہیں۔