آزادی ۔ ایک ایسی سرزمین کا خواب جہاں اذان کی آواز خوف کے بغیر بلند ہو

14اگست 1947ء…. تاریخ کا وہ باب جو ایک طرف خوشبوئے آزادی سے مہک رہا تھا تو دوسری طرف قربانیوں کے خون سے سرخ تھا۔ برصغیر کی فضاوں میں آزادی کے نعرے گونج رہے تھے، ”پاکستان زندہ باد“ کی صدائیں قافلوں کے حوصلے بڑھا رہی تھیں مگر انہی صداوں کے بیچ دل دہلا دینے والی چیخیں، سسکیاں اور روتے ہوئے بچوں کی آوازیں بھی گونجتی تھیں۔
لاکھوں مسلمان اپنے آباو اجداد کے گھروں، آبائی کھیتوں اور اپنی زندگی کے ہر قیمتی گوشے کو چھوڑ کر نکل پڑے۔ نہ جانے کس کو معلوم تھا کہ یہ سفر خواب کی تعبیر دے گا یا سب کچھ چھین لے گا۔ بیل گاڑیوں میں گھر کا سامان نہیں بلکہ ٹوٹے خواب، بچھڑتے رشتے اور خوف کی پرچھائیاں لدی ہوئی تھیں۔ پیدل چلنے والوں کے پاوں لہولہان تھے مگر قدم رُکے نہیں، کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ سرحد کے اُس پار ایک وطن ہے جو اُن کا منتظر ہے۔
ہر قافلے میں داستانوں کا جہان تھا۔ ایک ماں اپنی گود میں بچے کو سینے سے چمٹائے تھی، مگر کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ بچہ اب سانس نہیں لے رہا۔ ایک بوڑھا شخص اپنے ماضی کی ساری یادوں کو آنکھوں میں سموئے خاموشی سے چل رہا تھا، جیسے دل میں اپنے گاو¿ں کی آخری جھلک محفوظ کررہا ہو۔ جوان، جو خود بھی بے آسرا تھے، دوسروں کی حفاظت میں ڈٹے ہوئے تھے۔ اپنے خون اور جان سے قافلے کے لیے ڈھال بنے ہوئے۔ ریل گاڑیاں جو کبھی خوشی اور زندگی کا سفر تھیں، اب موت کا کارواں بن گئی تھیں۔ کچھ اسٹیشنوں پر اُترتی تو اُن کے ڈبے انسانوں کی لاشوں اور لہو سے بھری ہوتیں۔ راستے میں کچھ لوگوں کے لیے بھوک کا زخم تھا، کچھ کے لیے پیاس کا عذاب اور کچھ کے لیے اپنے پیاروں کی جدائی کا ناسور …. لیکن اِن سب کے بیچ ایک خواب زندہ تھا ، ایک ایسی سرزمین کا خواب جہاں اذان کی آواز خوف کے بغیر بلند ہو، جہاں دین و ایمان کی حفاظت ہو، جہاں غلامی کی زنجیریں ٹوٹ کر زمین میں دفن ہوجائیں۔
پاکستان ان قربانیوں کی قیمت پر وجود میں آیا۔ یہ مٹی اُن شہیدوں کے لہو سے رنگین ہے جو آزادی کا پرچم بلند کرنے کے لیے گر پڑے۔ یہ زمین اُن ماوں کے آنسووں سے نم ہے جنہوں نے اپنے لعل قربان کیے۔ یہ وطن اُن دعاوں کا ثمر ہے جو قافلوں کے ساتھ ساتھ سفر کرتی رہیں۔ یہ تاریخ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ پاکستان صرف ایک جغرافیائی خطہ نہیں، یہ ایک امانت ہے، اُن قربانیوں کی امانت، اُن خوابوں کی امانت اور اس ایمان کی امانت جس کے لیے لاکھوں لوگوں نے سب کچھ قربان کردیا۔ آج اگر ہم اس آزاد فضا میں سانس لیتے ہیں تو یہ اُن کی بدولت ہے جنہوں نے قید کی ہوا نہیں بلکہ آزادی کی ہوا ہمیں ورثے میں دی….!! (شفیق احمد بلوچ)