گزشتہ چند سال سے عجیب سا رواج چل نکلا ہے۔ اگست کے مہینے میں نام نہاد دانشوروں کی جانب سے یہ پیغام بڑی شدومد سے پھیلایا جاتا ہے کہ 14اگست کو یومِ آزادی کے موقع پر قومی جھنڈا اور جھنڈیاں لگانے کی بجائے پودے لگائے جائیں تاکہ ملک کو سرسبز و شاداب بنانے کے ساتھ ساتھ موسمی تغیرات کے نتیجے میں ہونے والی منفی تبدیلیوں اور نقصانات سے بچا جا سکے۔ وہ ‘پاں نہیں چھاں’ کا سلوگن بھی ہر سال نئے سرے سے لوگوں کو یاد کرواتے ہیں۔
بظاہر یہ پیغام بڑا خوش کُن اور فائدہ مند نظر آتا ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ‘جھنڈے نہیں پودے’ کے نعرے کو فروغ دینے والے حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہو کر ملک اور اس کے لوگوں کی خیرخواہی چاہتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ ایک میٹھا زہر ہے جو ہمارے سادہ لوح عوام کے کانوں میں انڈیلا جاتا ہے۔ یہ عمل حب الوطنی کو ابھارنے کے لیے نہیں بلکہ اسے کمزور کرنے کے لیے بروئے کار لایا جاتا ہے۔
سب سے پہلے تو پودے اور پرچم کا تقابل کرنا ہی نامناسب ہے۔ قومی پرچم کسی ملک و قوم کا شناختی نشان اور اس ملک کے نظریے کا عکاس ہوتا ہے۔ پاکستان کا قومی پرچم ہماری قومی امنگوں اور خودمختاری و آزادی کا علمبردار ہے۔ قومی پرچم کے احترام کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ کوئی اور پرچم اس سے اونچا نہیں لہرایا جا سکتا۔ قومی پرچم ملک و قوم کے وقار کی علامت ہوتا ہے۔ پودوں کے ساتھ قومی پرچم کا تقابل کرنا ایک جانی انجانی سازش ہے جس کا سرا انہی لوگوں سے جا ملتا ہے جو ہاتھ میں پانچ لاکھ کا موبائل پکڑ کر قوم کو قربانی کا جانور ذبح کرنے سے روکتے ہیں۔ وہ جانوروں کی قربانی کو محض گوشت کا حصول سمجھتے ہیں۔ وہ قربانی کے جانور پر خرچ کی جانے والی رقم کو قربانی کا جانور خریدنے کی بجائے غربا اور ضرورت مندوں میں تقسیم کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ دین سے بے بہرہ یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ قربانی ایک فرض عبادت ہے جبکہ خدمتِ خلق معاملات میں آتی ہے۔ ہمارے معاملات یا نیکی کے اعمال کبھی فرض عبادات کا متبادل نہیں ہو سکتے۔ خدمت خلق کا میدان الگ ہے اور ہر ایک کیلئے کھلا ہوا ہے اور الحمدللہ جو قربانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں وہ خدمت خلق میں بھی پیش پیش رہتے ہیں اور جو غریبوں کے موسمی ہمدرد بن کر قربانی کے دنوں میں سامنے آتے ہیں، وہ بس باتیں ہی کرتے رہ جاتے ہیں۔
درخت لگانا بلاشبہ بہت اچھا عمل ہے۔ ہماری دینی تعلیمات کی رو سے یہ بھی ایک صدقہ جاریہ اور بہترین نیکی ہے۔ اس وقت ہمارے ملک کو شجرکاری کی بے حد ضرورت ہے۔ درختوں کی بے تحاشا کٹائی کی وجہ سے گزشتہ چند سالوں کے دوران ہمارے ملک کا اوسط درجہ حرارت تین سے چار سنٹی گریڈ تک بڑھ چکا ہے۔ ہمیں شدید گرم موسم کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ گلیشیئرز کے تیزی سے پگھلنے کی وجہ سے ہر سال سیلاب کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے اربوں روپے کی املاک کا نقصان، کھڑی فصلوں کی تباہی اور درجنوں یا سینکڑوں انسانوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں مویشیوں کی جانیں بھی چلی جاتی ہیں۔ ساتھ ہی ملک میں دودھ، سبزیوں اور پھلوں کی قلت ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے یہ اشیاء مہنگی ہو جاتی ہیں۔ صورتحال یہ بن چکی ہے کہ اپنی بقا کے لیے ہمیں ہر سال کروڑوں درخت لگانے کی ضرورت ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ قومی پرچم کی قیمت پر درخت اور پودے لگائے جائیں یا اس کی وکالت اور منادی کرائی جائے۔ درخت لگانا الگ عمل ہے اور پودے لگانا الگ عمل ہے۔ ان کا تقابل کرنے یا ایک کو دوسرے پر ترجیح دینے کی بجائے دونوں کام ساتھ ساتھ کرنے چاہئیں۔
ویسے بھی قومی پرچم تو 14اگست کو صرف ایک دن کے لیے لہرایا جاتا ہے جبکہ شجرکاری کا عمل کسی ایک مخصوص دن نہیں ہوتا۔ یہ کام سب کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے سارا سال جاری رکھنا چاہیے۔ رہی یہ بات یا جواز کہ لوگ قومی پرچم کا احترام نہیں کرتے، اس بات میں کافی وزن ہے۔ یہ کوتاہی لوگوں سے عام طور پر ہو جاتی ہے۔ اس ڈر سے کہ لوگ قومی پرچم کے احترام کے تقاضے پورے نہیں کرتے پرچم کو لہرانا ترک نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا حل نکالنا چاہیے۔ ‘جھنڈے نہیں پودے’ مہم کا حصہ بننے کی بجائے سوشل، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر قومی پرچم کے احترام کے تقاضوں پر مبنی مہم چلا کر لوگوں کو ایجوکیٹ کرنا چاہیے۔