اسلام آباد:وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اقلیتی کمیشن بل پر اپوزیشن اور دینی جماعتوں کے خدشات دور کرنے کیلئے تیارہے،کوئی قانون ناموس رسالت سے بالاتر نہیں۔
اسپیکر سردار ایاز صادق کی زیرصدارت قومی اسمبلی کے اجلاس میںوفاقی وزیر قانون نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ پی ٹی آئی کے مقدمات کا حکومت سے کوئی لینا دینا نہیں۔اسد قیصر نے کہا کہ ملٹری کورٹ میں کوئی فیصلہ ہو جائے تو ہائیکورٹ میں چیلنج کا اختیار ہونا چاہیے۔ میں نے اس حوالے سے بل جمع کرایا ہوا ہے جو آج ایجنڈے پر نہیں ہے۔
اسپیکر سردار ایاز صادق نے ہدایت کی کہ اگلے ہفتے بل کو ایجنڈے پر لایا جائے۔اپوزیشن رکن اقبال آفریدی نے کہا کہ اسپیکر صاحب آپ کے سابقہ کردار کو دیکھتے ہوئے مجھے امید تھی کہ آپ ارکان کو ایوان سے گرفتار کرنے کی وجہ سے استعفاء دیں گے۔
اس ایوان کی اس سے بڑی توہین کیا ہوگی کہ اس کے 10 ارکان اس ایوان سے اٹھا لیے جائیں۔ اسپیکر صاحب یہ کرسی عارضی ہے، کل یہاں پی ٹی آئی کا اسپیکر بیٹھا ہوگا۔ تب ہم ظلم کا سود سمیت بدلہ لیں گے۔
اسپیکر سردار ایاز صادق نے جواب دیا کہ مجھے معلوم ہے کہ یہ کرسی عارضی ہے۔ یہ کرسی اتنی عارضی ہے کہ پلک جھپکتے تبدیل ہوجاتی ہے۔رکن اسمبلی شاہد خٹک نے کہا کہ قبائلی عوام محب وطن ہیں، ہم کسی بھی آپریشن کو قبول نہیں کریں گے۔
اسپیکر نے وزیر مملکت داخلہ طلال چودھری کو ایوان میں طلب کر لیا اور کہا کہ ایوان میں آکر اراکین کے تحفظات دور کریں اور حقائق سے آگاہ کریں۔
اجلاس میں ریلوے ملازمین کو مختلف مراعات نہ ملنے کے خلاف توجہ دلائونوٹس پی پی پی کے رکن اسمبلی آغا رفیع اللہ نے پیش کیا جس پر وزیر ریلوے حنیف عباسی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ریلوے کا کچھ مراعات کے سلسلے میں ساڑھے 12 ارب روپے کا معاملہ چل رہا ہے۔ کوشش کررہے ہیں جیسے ہی ریلوے کا کچھ منافع بڑھے ہم اپنے فنڈ سے ملازمین کو دیگر مراعات بھی دیں۔
اپوزیشن رکن علی محمد خان نے نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ صدر مملکت اقلیتی کمیشن کے بل پر اس وقت تک دستخط نہ کریں جب تک بل پر دینی جماعتوں اور اپوزیشن کے اعتراضات دور نہ ہوجائیں۔
اقلیتی کمیشن کے بل میں ردقادیانیت آرڈیننس کو غیر فعال کردیا گیا ہے۔ اقلیتی کمیشن میں اس بل کو تمام مذہبی قوانین پر بالادستی دے دی گئی ہے۔ دیگر تمام قوانین کو اقلیتی کمیشن کے بل کے تابع کرنے سے قادیانیت کا قانون غیر مؤثر ہوجائے گا۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اقلیتی کمیشن کے بل میں جو مقاصد بیان کیے گئے ہیں وہ صرف انہی تک محدود ہیں۔ آرٹیکل 20 کی رو سے قادیانی اپنے نظریات کی ترویج نہیں کرسکتے ،کوئی بھی قانون توہین رسالت کے قانون سے بالاتر نہیںجو تشریح کی جارہی ہے وہ ممکن نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ میں مبارک ثانی کیس میں بھی ختم نبوت معاملہ بالکل کلیئر کردیا گیا ہے۔ اس اقلیتی کمیشن کے پاس کوئی فوجداری اختیارات نہیں۔ میں بطور وزیر قانون اپوزیشن اور دینی جماعتوں کے ساتھ بیٹھ کر جو بھی خدشات ہیں انہیں دور کرنے کو تیار ہوں۔ اگر کہیں کوئی سقم ثابت ہوتا ہے تو اسے مل بیٹھ کر دور کیا جاسکتا ہے۔
پی ٹی آئی رکن اسمبلی عامر ڈوگر نے ایوان میں نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے 5 ایم این اے اس وقت بھی اڈیالہ جیل کے باہر ہیں۔ ہمارے اراکین کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت نہیں دی جاتی۔ اس پورے ایوان کو استحقاق ایوان میں تبدیل کیا جائے۔
اسپیکر صاحب آپ اس معاملے پر رولنگ دیں۔ اگر ہمارے اراکین کے ساتھ یہی رویہ رکھا گیا تو ہم ایوان کا بائیکاٹ کریں گے۔اسپیکر سردار ایاز صادق نے جواب دیا کہ استحقاق ہوتا کیا ہے، وزیر قانون صاحب تفصیلاً ایوان کو آگاہ کریں۔
پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر نے کہا کہ استحقاق کے قانون میں گرے ایریاز ہیں۔ ہمارا لیڈر جیل میں ہے، ہمارے پارلیمنٹیرینز کا حق ہے کہ ان سے ملیں۔ بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کے معاملے پر ہم ایوان سے واک آؤٹ کرتے ہیں۔
اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ آپ لوگ ایوان سے واک آؤٹ سے پہلے میری بات سنیں۔ کل انڈیا میں راہول گاندھی گرفتار ہوا کوئی پروڈکشن آرڈر جاری نہیں ہوئے۔ بیٹھ کر بات کریں میرے لیے کوئی گرینڈ جرگہ نہیں ہے۔
میرا گرینڈ جرگہ یہ ایوان ہے سینیٹ ہے۔ میں سہولت کاری کے لیے تیار ہوں، آپس میں بیٹھ کر بات کریں۔ مل کر بیٹھ کر بات کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ابھی بیٹھ جائیں، بتائیں پھر کیا بات ہوئی؟۔
اس موقع پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ سیاست میں مذاکرات ہی مسائل کا حل ہوتا ہے۔ آئیں بیٹھ جاتے ہیں، بانی چیئرمین سے ملاقات کے لیے جو طریقہ کار طے ہوسکتا ہے کیا جاسکتا ہے۔
ایاز صادق نے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے معاملے کے حل کے لیے کمیٹی قائم کر دی اور واضح کیا کہ بات چیت گرینڈ جرگے میں نہیں، پارلیمنٹ میں ہوگی۔ حکومت کی طرف سے اعظم نذیر تارڑ، طلال چودھری اور سید نوید قمر بیٹھ جائیں۔ اپوزیشن کی طرف سے بھی نام دے دیں۔ مل بیٹھ کر ملاقاتوں سے متعلق مسئلہ حل کرلیں۔
بعد ازاں تحریک انصاف کے اراکین پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ کے گیٹ نمبر ایک پر احتجاج کیا۔ انہوں نے 9 مئی کے مقدمات میں سزا پانے والے رہنماؤں کے حق میں نعرے بازی کی اور عدالتوں کو آزاد کرو، آئین کو آزاد کرو کے نعرے لگائے۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دے دی جس پر اپوزیشن رکن ملک عامر ڈوگر نے کہا کہ ہم مذاکرات کے لیے نام دے دیں گے۔بعد ازاں اپوزیشن ارکان علامتی واک آؤٹ کے بعد ایوان میں آگئے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں ڈیجیٹل میڈیا پر فحاشی کی روک تھام سے متعلق ترمیمی بل پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی شاہدہ رحمانی نے پیش کیاجسے قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔ اسی طرح وکلا بار کونسل ترمیمی بل بھی قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا جب کہ گارڈین ترمیمی بل 2025ء بھی قومی سمبلی میں پیش کیا گیا جسے قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔
علاوہ ازیں سروس ٹربیونلز ترمیمی بل 2025، بچوں اور کم عمر نوجوانوں سے مشقت کا امتناع ترمیمی بل 2025ئ، ٹول پلازوں کے فاصلے و فیسوں کو معقول اور مساوی بنانے کا بل 2025ء قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے، یہ تمام بلز متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کے سپرد کردیے گئے۔
اسی طرح نادرا ترمیمی بل 2025ء بھی قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔قومی ادارہ صحت تنظیم نو ترمیمی بل 2025ء قومی اسمبلی سے منظور ہوگیا۔ بل کے تحت ملک میں کینسر کے مریضوں کا ڈیٹا بیس قائم کیا جائے گا۔ اسی طرح تیزاب اور آگ سے جلانے کے جرم کا بل قومی اسمبلی سے منظور ہوگیا۔
جامعات میں مستحق افراد کے لیے خصوصی نشستوں کی تخصیص سے متعلق بل 2024ء قومی اسمبلی سے منظور ہوگیا۔ علاوہ ازیں زکوٰة و عشر ترمیمی بل 2025ء قومی اسمبلی سے منظور کیا گیا۔دریں اثنا آئینی ترمیمی بل 2025ء قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ بل کے تحت کئی آرٹیکلز میں ترامیم کی تجویز پیش کی گئی اور اس سلسلے میں کمیٹیوں کی رپورٹ ایوان میں پیش کی گئی۔
قومی اسمبلی میں دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے صحافیوں سے متعلق بل قائمہ کمیٹی کو بھجوانے کی سفارش کی اور کہا کہ اس بل کو قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا جائے تاہم ڈپٹی اسپیکر نے نظر انداز کرتے ہوئے بل منظور کرلیا۔
وزیر قانون نے کہا کہ میں نے کہا تھا بل قائمہ کمیٹی کو بھجوائیں۔ وزارت اطلاعات ترامیم کرنا چاہتی ہیں لیکن پیپلز پارٹی اراکین کے شور میں بل منظور ہوگیا جس پر ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ بل سے متعلق تحریک پیش کریںجس پر وزیر قانون نے تحریک پیش کی تو ڈپٹی اسپیکر نے بل منظور کرکے دوبارہ قائمہ کمیٹی کو بھجوادیا۔
دلچسپ صورت حال پیدا ہونے پر ایوان میں قہقہے لگ گئے۔ ڈپٹی اسپیکر نے کہا قادر پٹیل صاحب آپ زیادہ چسکے نہ لیں۔