وطن سے اپنی محبت کے اظہار پر بہت کچھ کہا گیا ہے لیکن امیر الشعرا احمد شوقی کا یہ شعر کچھ زیادہ ہی دل کو بھا گیا
وطنی لو شغِلت بِالخلدِ عنہ
نازعتنی لیہِ فی الخلدِ نفسی
چاہے جنت کے ذریعہ میں اپنے وطن سے مشغول کر دیا جاؤں تب بھی وہاں میرا نفس میرے وطن کی محبت میں مجھ سے جھگڑتا رہے گا۔ وطن انسان کیلئے وہ مقدس اور عزیز ترین شے ہے، جس سے اس کی پہچان، ماضی، حال اور مستقبل جڑا ہوتا ہے۔ وطن وہ آغوش ہے جہاں انسان نے آنکھ کھولی، بچپن کی معصوم یادیں سمیٹیں، جوانی کے خواب دیکھے اور بڑھاپے کا سہارا پایا۔ وطن صرف زمین کا ٹکڑا نہیں، بلکہ ایک مکمل زندگی، ایک تاریخ، ایک شناخت ہے۔ پاکستان ہمارا وہ پیارا وطن ہے جس نے ہمیں شناخت دی، وقار بخشا اور آزادی عطا کی۔ 14اگست 1947وہ دن ہے جب غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر ہمیں ایک خودمختار ریاست ملی۔ اس دن کا جشن صرف پرچم کشائی یا آتش بازی تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ وطن سے محبت دعووں سے نہیں، عمل سے ثابت ہوتی ہے۔
حبِ وطن کوئی سیکھا ہوا جذبہ نہیں، یہ ایک فطری احساس ہے جو انسان کے دل میں اس وقت سے موجود ہوتا ہے جب وہ ماں کی گود میں پرورش پاتا ہے۔ جس طرح ماں اپنے بچوں پر محبت نچھاور کرتی ہے، اسی طرح وطن بھی اپنے باسیوں پر شفقتیں لٹاتا ہے۔ ہمیں اپنی ماں کی طرح وطن سے محبت بھی کرنی ہے، اس کی قدر اور حفاظت بھی کرنی ہے۔ یہ محبت وقت، جگہ اور حالات کی قید سے آزاد ہے۔ ایک ازلی اور ابدی رشتہ، جو انسان کی روح میں پیوست ہو کر سانس لیتا ہے۔ سو یومِ آزادی کے موقع پر مایوسی مت پھیلائیں۔ جائز حدود کے اندر رہتے ہوئے خوشی کا اظہار کیجیے۔ پاکستان کی شکل میں جنت نظیر خطے کی طرف آپ کی نسبت آپ کے لیے بڑی نعمت ہے، اس کی قدر کیجیے۔ یہ آپ کی پہچان ہے۔ دنیا میں بڑی تعداد میں لوگ اس شناخت سے محروم ہیں۔ خامیاں بہت ہوں گی لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملی ہوئی نعمتوں کے مقابلے میں وہ کچھ بھی نہیں۔ یاد رکھیں! ہم میں سے ہر ایک کا کردار ملک کی نیک نامی یا بدنامی کا سبب بنتا ہے۔ یہ مت سوچیں کہ آپ پاکستان کیلئے کچھ نہیں کر سکتے۔ آپ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ آپ کا پاکستان پر سب سے بڑا احسان آپ کا اچھا انسان بننا ہے۔ جی ہاں مفید اور نفع رساں یا کم از کم بے ضرر انسان کہ حدیث میں اس کو بھی صدقہ کہا گیا ہے۔
آپ میں سے ہر ایک کا کردار پاکستان کا چہرہ ہے، اسے داغدار مت کیجیے۔ یہ وطن تمہارا ہے اور تم ہی اس کے پاسباں ہو۔ خدارا! ان شرپسند خوارج کا ساتھ مت دیجیے جو بھیڑیے کے ساتھ کھاتے ہیں، کتے کے ساتھ بھونکتے ہیں اور پھر چرواہے (آپ) کے ساتھ مل کر روتے ہیں۔ دنیا کے کئی خطوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کے لیے وطن کا تصور ایک کربناک یاد کی مانند ہے۔ وہ ملک جہاں پیدا ہوئے، جن سے محبت کی اور جن میں اپنی زندگی اور اولاد کا مستقبل دیکھنا چاہا، مگر وہ وطن انہیں کبھی عزت، شناخت اور امن نہ دے سکا۔ اس کی بجائے جنگیں، خوف، بے بسی، جلاوطنی اور کسمپرسی ان کا مقدر بن گئیں۔ ایسے بہت سے لوگ بہتر زندگی کی تلاش میں دوسرے ممالک جا بسے، جہاں انہیں روزگار، تحفظ اور عزت ملی۔ مگر جب بڑھاپا قریب آیا، اور جوانی کے خواب دم توڑ گئے، تب دل پھر مٹی کی خوشبو کو ترسنے لگا۔ اس وقت خواہ کتنی ہی آسائشیں میسر ہوں، دل چاہتا ہے کہ آخری سانس اپنے وطن کی مٹی پر لی جائے۔
یاد رکھیے جس کے پاس وطن نہ ہو، وہ بے شناخت، بے بنیاد اور بے سمت ہو جاتا ہے۔ وطن وہ پناہ گاہ ہے جو انسان کو تحفظ دیتی ہے، وقار بخشتی ہے اور اسے زندہ قوموں کی صف میں کھڑا کرتی ہے۔ اس کی مٹی میں ہمارے آباء واجداد کی محنتوں کے آثار اور شہدا کے لہو کی خوشبو ہے۔ یہی مٹی ہے جس میں ہماری قبریں بھی بننی ہیں۔ آج اگر ہم آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں، تو یہ ان عظیم قربانیوں کا نتیجہ ہے جو ہمارے بزرگوں نے دی تھیں۔ وہ مائیں جنہوں نے اپنے لختِ جگر قربان کیے، وہ نوجوان جنہوں نے اپنے خون سے تاریخ لکھی، وہ سپاہی جنہوں نے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر اس ملک کو محفوظ بنایا۔ یہ سب ہمارے قومی ہیرو ہیں جنہیں ہم کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ حب الوطنی کا تقاضا ہے کہ ہم صرف زبانی دعوے نہ کریں بلکہ اپنے عمل سے ثابت کریں کہ ہم واقعی اپنے وطن کے وفادار ہیں۔ چاہے ہم طالبعلم ہوں یا استاد، کسان ہوں یا مزدور، ڈاکٹر ہوں یا تاجر، ہر شخص اپنی جگہ ایک سپاہی ہے جو کردار، ایمانداری اور محنت کے ذریعے وطن کی خدمت کر سکتا ہے۔ ترقی یافتہ قومیں وہی ہوتی ہیں جن کے ہر فرد میں حبِ وطن کا جذبہ زندہ ہوتا ہے۔
وطن کی حفاظت صرف بارڈر پر لڑنے سے نہیں ہوتی، بلکہ اس کے نظریات، ثقافت، زبان، اقدار اور وقار کی بھی حفاظت ضروری ہے۔ ایک مضبوط معاشرہ وہی ہوتا ہے جو اتحاد، قربانی، ایثار اور بھائی چارے سے جڑا ہو۔ ہمیں اپنے بچوں میں بھی یہ احساس جگانا ہے۔ ان کی تربیت اس نہج پر کرنی ہے کہ وہ وطن کی اہمیت کو بچپن سے سمجھیں، اس سے محبت کریں، اس کے لیے جئیں اور اگر وقت آئے تو اس کے لیے قربانی دینے کا حوصلہ بھی رکھیں۔ یہ وطن ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے اور ہم سب اس کے محافظ ہیں۔ آئیں ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ پاکستان کو ایک خوشحال، پرامن، باوقار اور ترقی یافتہ ریاست بنانے کیلئے اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کریں گے۔