دو روز قبل غزہ میں ایک اور جنازہ اُٹھا…. یہ کسی عام شہری کا جنازہ نہیں تھا۔ یہ حق کا سپاہی، سچ کا پیامبر اور باطل کے مقابل ایک ہی اکیلا بطور قافلہ تھا۔ وہ جو اپنی آنکھوں سے دنیا کو دِکھاتا تھا کہ ظلم کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر جینا کسے کہتے ہیں۔
عظیم صحافی انس الشریف جن کا وجود بہادری، جرات، شجاعت، حوصلہ، استقلال اور بے خوفی کا مرقع تھا۔ انس الشریف صرف رپورٹر نہیں تھے، وہ میدانِ جنگ کے وہ گواہ تھے جنہوں نے دھماکوں کی گونج میں اپنی آواز سنائی، بارود کی بُو میں سچ لکھا اور ہر تصویر کو ایک تاریخی شہادت بنا دیا۔ کبھی کیمرہ ڈھال بن گیا، کبھی قلم تلوار۔ وہ جانتے تھے کہ یہ راہ آسان نہیں مگر وہ بھیڑ میں خاموش تماشائی بننے کے بجائے سچ کا سفیر بننا پسند کرتے تھے۔اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کمشنر کی تازہ رپورٹ گواہ ہے کہ 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک کم از کم 242 فلسطینی صحافی شہید کیے جا چکے ہیں۔ یہ اعداد و شمار محض ایک رپورٹ نہیں یہ دنیا کے ضمیر پر ایک کالا دھبہ ہیں اور ان 242 میں ایک نام انس الشریف کا بھی ہے جو اپنے مشن پر ڈٹے رہے، یہاں تک کہ اپنی جان نچھاور کر دی۔کبھی دنیا کے ایوانوں میں یہ گونج سنائی دیتی تھی کہ صحافی کا قتل سچ کا قتل ہے۔بڑے بڑے دار الحکومتوں میں آزادیِ صحافت کے ترانے گائے جاتے تھے۔ امریکا، یورپ اور خود کو نام نہاد تہذیب کا علمبردار کہنے والے ممالک آزادیِ اظہار پر لیکچر دیتے نہیں تھکتے تھے، مگر آج جب غزہ کی مٹی پر ایک کے بعد ایک صحافی گر رہا ہے تو یہ بلند بانگ دعوے کہاں ہیں؟ وہ ایوانِ اقتدار کیوں خاموش ہیں جہاں ایک لفظ پر طوفان برپا ہوجایا کرتا تھا؟
انس الشریف کا قتل محض ایک جان کا خاتمہ نہیں بلکہ اِس سے اُس عالمی منافقت کا پردہ چاک ہوا ہے جو برسوں سے ڈھونگ رچاتی آئی ہے۔ وہ چلے گئے مگر اُن کی قربانی، ان کا حوصلہ، ان کی بے باکی اور ان کا سچ ہر اُس دل میں دھڑکتا رہے گا جو آزادی اور حق پر یقین رکھتا ہے۔ (محمد انس رشید ۔ کوٹ ادّو)
