زبانیں ہمیشہ تہذیب کا سفر طے کرتی ہیں۔ وہ اپنا آغاز ایک بالکل اجنبی اور نامانوس زبان کی حیثیت سے کرتی ہیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور مختلف تہذیبوں کے ملنے جلنے کے سبب ایک بالکل ہی نئی اور شاندار حیثیت سے دنیا کے سامنے آتی ہیں۔ علم و ادب کا ایک وسیع ذخیرہ اور الفاظ و معانی کا دریا اُن کے اندر موجود ہوتا ہے۔ دنیا کی کسی بھی زبان کو دیکھیں، وہ اس زبان سے مختلف ہوگی جو اپنی ابتدا میں وہ تھی۔ حتی کہ اکثر اوقات اس ابتدائی زبان کو خود اس کے اپنے ماہرین بھی سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ فرانسیسی، لاطینی، انگریزی، اُردو اور فارسی وغیرہ نے تاریخ کے سفر میں اَن گنت شکلیں بدلی ہیں اور تب جاکر وہ آج کی موجودہ شکل میں ہمار ے سامنے آئی ہیں۔
اُصولاً یہ معاملہ عربی زبان کے ساتھ بھی پیش آنا چاہیے تھا۔ اسے بھی تبدیل ہوکر کچھ سے کچھ ہو جانا چاہیے تھا۔ قرآنِ پاک آج سے کم و بیش چودہ سو سال قبل نازل ہوا، چنانچہ اس وقت کی عربی زبان آج کی اس اکیسویں صدی میں ہمارے لئے بالکل اجنبی ہو جانی چاہیے تھی۔ اگر فی الحقیقت ایسا ہوا ہوتا تو قرآنِ پاک سے ہمارا رشتہ ٹوٹ چکا ہوتا اور دینِ اسلام ہمارے لئے بالکل اجنبیت اختیار کر چکا ہوتا۔ بالکل اسی طرح جیسے انجیل اور تورات کی اصلی زبانیں آج کہیں موجود نہیں ہیں اور یہ دونوں کتابیں اب ہمارے ہاں غیرمستند سمجھی جاتی ہیں لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ قرآنِ پاک کی عر بی آج بھی اپنے اندر حسن، کشش، ادبی ذخیرہ اور زبان و بیان کا اعلیٰ مقام لئے ہوئے ہے۔ اس عربی کا کوئی لفظ آج تک نہ متروک ہو سکا ہے اور نہ اس سے برتر کوئی اور لفظ سامنے آ سکا ہے۔
جیسے جیسے اسلام کی اشاعت کرۂ ارض پر ہوتی چلی گئی اسے اسی قدر نت نئی زبانوں سے سابقہ پیش آتا رہا۔ جب اسلام یورپ، ایشیا اور افریقہ جیسے دیگر براعظموں کے اندر داخل ہوا تو عربی سے واقف کوئی ایک فرد بھی وہاں موجود نہ تھا۔ اسلام نے وہاں بعض علاقوں میں پانچ سو سے آٹھ سو سال تک حکمرانی کی مگر کسی جگہ کی کتنی ہی طاقتور زبان عربی پر اثر انداز نہ ہو سکی۔ عراق، بابل، مصر، ایران اور روم بڑی جاندار تہذیبوں کے مراکز تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی تہذیب عربی زبان کو مسخر نہ کر سکی، بلکہ اس کے برعکس الٹا عربی زبان ہی نے ان کی زبانوں میں بڑے بڑے رد وبدل کر دیے۔ حتی کہ ان کی زبانیں اور طرزِ تحریر تک بدل کے رکھ دیے۔
قبل اسلام عرب میں اچھے شعر کی ایک تعریف یہ بھی تھی کہ اس میں زیادہ سے زیادہ جھوٹ شامل ہو اور اس میں شدید مبالغہ آرائی ہو لیکن قرآن پاک نے سورہ الرحمن میں حقائق کا اتنا خوب صورت بیان کیا کہ اس سے زیادہ خوبصورت بیان ممکن نہیں تھا۔ اسی وجہ سے اسے عروس القرآن (قرآن کی دلہن) کا خطاب دیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن پاک کی عربی نے عربوں کو نت نئے الفاظ ہی نہیں دیے بلکہ ان کے وسیع مفاہیم بھی دیے جن سے پہلے وہ خود بھی ناآشنا تھے۔ زبانوں کی ترقی و تبدیلی میں ادبا و شعرا کا سب سے زیادہ کردار ہوتا ہے۔ ہر بڑا شاعر اور ادیب زبان کو نئے زاویے اور نئی حیات عطا کرتا ہے۔ زبانیں اسی طرح بدلتی ہیں، یہاں تک کہ دو تین صدیوں کے بعد اولین زبان کو لوگ شرحوں اور لغتوں کے بغیر سمجھ بھی نہیں پاتے۔ اس کلیے میں صرف ایک استثنا ہے اور وہ ہے عربی کا استثنا۔ عربی آج بھی اسی آسانی اور فصاحت سے سمجھ میں آ جاتی ہے جیسی کہ وہ اپنے اولین دور میں سمجھی جاتی تھی۔ زندگی کے حقائق کو قرآن پاک نے اتنی فصیح و بلیغ عربی میں میں بیان کیا ہے کہ دنیا میں کوئی شخص اس سے بہتر زبان اور انداز میں بیان نہیں کر سکتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قرآن پاک کے الفاظ میں معنی کے لحاظ سے بے حد وسعت ہوئی ہے اور اس کے جدید ترین مطالب سامنے آئے ہیں۔ یقینا مستقبل کی صدیوں میں ان کے مزید جدید مطالب سامنے آئیں گے جن کی مدد سے اس دور کا ماحول اور بھی بہتر انداز میں سمجھ میں آئے گا لیکن مطلب کی اس جدت نے عربی الفاظ اور اصطلاحوں کو متروک اور ناکارہ نہیں کیا، بلکہ آج بھی ان کی تازگی اور حسن پہلے ہی کی طرح برقرار ہے۔ ابتدائی دور کا کوئی عرب زندہ ہوکر اگر آج عرب ممالک میںاپنی گفتگو کرے تو اس کی زبان صدیوں کے فاصلے کے باوجود اسی کے زمانے کے مطابق سمجھی اور سنی جائے گی۔
معروف عیسائی مؤرخ فلپ کے حتی اپنی کتاب ‘ہسٹری آف دی عربس’ میں اعتراف کرتا ہے کہ قرآن کی عربی اتنی ہمہ گیر اور مکمل ہے کہ مختلف عربی لب و لہجے کے باوجود عربی زبان کے ٹکڑے نہیں ہوئے، حالانکہ خود رومی زبان بھی بعد میںکئی حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ بے شک ایک عراقی، یمنی کی عربی کی زبان سمجھنے میں مشکل محسوس کرے گا لیکن وہ اسی کی لکھی ہوئی عربی کو بآسانی سمجھ لے گا۔ (صفحہ 127)
اپنی اصل میں عربی محض ایک زبان ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب ساز عامل بھی بن کے سامنے آئی۔ دنیا کے جس خطے میں بھی وہ گئی اس نے وہاں ایک نئی تہذیب کی بنیاد رکھ دی۔ دنیا کی موجودہ عالمی زبانوں کی لغت میںآج عربی کے اچھے خاصے الفاظ پائے جاتے ہیں، کیونکہ دنیا کے ایک تہائی خطے پر کبھی اسلام کا پرچم لہراتا تھا۔ Stable, Astrolobe. Zenith, Sugar, Camel, Elephant. rim, Earth, lick وغیرہ جیسے الفاظ دراصل عربی الاصل ہی ہیں۔ ایک مغربی مفکر نے 1890ء میں کتنی اچھی بات کہی تھی کہ ‘عربی زبان کا نہ کوئی بچپن ہے نہ بڑھاپا، وہ اپنے ظہور کے پہلے دن جیسی تھی، ویسی ہی وہ آج بھی ہے۔’ گویا وہ شروع ہی سے ایک بالغ اور بھرپور زبان رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی تمام زبانوں میں عربی سے زیادہ کوئی اور زبان معجزاتی نہیں اور نہ کسی اور زبان میں الفاط کا اتنا ذخیرہ موجود ہے جتنا عربی میں ہے کیونکہ بعض اوقات عربی میں صرف ایک اسم کے لئے اس میں 50سے زائد الفاظ پائے جاتے ہیں۔ اسی لیے یہ کہنا بجا ہے کہ عربی وہ زبان ہے جسے وقت کی آندھیاں فرسودہ نہ کر سکیں۔ سید مودودیکے بقول: ‘یہ کتاب (قرآن) عر بی زبان کو اس طرح پکڑ کے بیٹھ گئی ہے کہ چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی اس زبان کا معیارِ فصاحت وہی ہے جو اس کتاب نے قائم کر دیا تھا۔ حالانکہ اتنی مدت میں زبانیں بدل کر کچھ سے کچھ ہو جاتی ہیں۔ دنیا کی کوئی زبان ایسی نہیں ہے جو اتنی طویل مدت تک املا، انشا، محاورے، قواعدِ زبان اور استعمالِ الفاظ میں ایک ہی شان پر باقی رہ گئی ہو لیکن یہ صرف قرآن کی طاقت ہے جس نے عربی زبان کو اپنے مقام سے ہلنے تک نہیں دیا۔ اس کا ایک لفظ بھی آج تک متروک نہیں ہوا ہے۔ اس کا ادب آج بھی عربی کا معیاری ادب ہے اور تقریر و تحریر میں آج بھی فصیح زبان وہی مانی جاتی ہے جو 1400برس پہلے قرآن میں استعمال ہوئی تھی۔” (تفہیم القرآن جلد 5، ص 175، 176)