اسرائیل نامی ناسور کا علاج ناگزیر ہے

دنیا کی مسلمہ ناجائز ریاست اسرائیل نے ایک بار پھر تمام بین ا لاقوامی قوانین کو پامال کرتے ہوئے ایک اور آزاد اور خودمختار ملک پر حملہ کرکے ایک بار پھر عالمی امن و استحکام کو خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ اگرچہ ایران نے اپنے کمزور داخلی نظام اور دشمن قوتوں کی اس نظام کے اندر تک رسائی کے باعث اس حملے میں بڑا نقصان اٹھایا اور اپنی فوج اور جوہری ٹیکنالوجی سے وابستہ اہم شخصیات کو کھودیا ہے تاہم جمعے کو رات گئے ایران کی جانب سے اسرائیل کے خلاف بھرپور جوابی کارروائی کی گئی جس کے دوران ایک جانب ایرانی میڈیا کے مطابق تین امریکی ساختہ جدید ترین جنگی طیارے مار گرائے گئے اور ایک جہاز کی خاتون پائلٹ کو گرفتار کرلیا گیا تو دوسری جانب ایران کی جانب سے اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب سمیت کئی مقامات پر سینکڑوں بیلسٹک میزائل برسائے گئے جن سے اسرائیل میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے اور پورے اسرائیل میںخوف و ہراس پھیل گیا ہے۔

عالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق ایران کا ایک میزائل تل ابیب میں واقع اسرائیلی وزارت دفاع کی عمارت کے قریب لگا جس سے وہاں آگ بھڑک اٹھی۔ جس وقت یہ میزائل گرا، اسرائیلی فوج کے ترجمان پریس بریفنگ میں یہ دعوی کر رہے تھے کہ ایران سے آنے والے میزائلوں کو مار گرایا گیا ہے تاہم اسی دوران عمارت کے نزدیک زوردار دھماکے کی آواز آنے پر اسرائیلی فوج کے ترجمان کو پریس بریفنگ چھوڑ کر پناہ گاہ کی طرف بھاگنا پڑا۔ تل ابیب میں موجود عالمی ذرائع ابلاغ کے نمایندوں کے مطابق اسرائیلی حکومت اور فوج کی جانب سے میڈیا کو اسرائیل کو پہنچنے والے نقصانات کی رپورٹنگ کرنے سے روکا جا رہا ہے اور اسرائیلی فوج نے اپنے عوام کے لیے بھی سخت ہدایات جاری کی ہیں جن میں ایرانی میزائلوں کا نشانہ بننے والے مقامات کی تصویریں اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر چلانے کی ممانعت کی گئی ہے، اس کے باوجود تل ابیب میں ہونے والی تباہی پوری دنیا پر عیاں ہوچکی ہے۔

ان سطور کی تحریر کے وقت ملنے والی اطلاعات کے مطابق اسرائیل اور ایران دونوں کی جانب سے ایک دوسرے پر بڑا حملہ کرنے کے اعلانات سامنے آئے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور وزیر دفاع یسرائیل کاٹس کی جانب سے ایران پر حملے جاری رکھنے اور تہران کو راکھ کا ڈھیر بنادینے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں جبکہ عالمی میڈیا رپورٹ کر رہا ہے کہ ایران نے امریکا،برطانیہ،فرانس اور دیگر عالمی قوتوں کو مطلع کردیا ہے کہ وہ اسرائیل پر بڑا میزائل حملہ کرنے جارہا ہے جس میں بیک وقت 2ہزار بیلسٹک میزائل فائر کیے جاسکتے ہیں۔ تیسری جانب روس،سعودی عرب اور قطر سمیت کئی ممالک اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی کے لیے سرگرم ہیں۔اطلاعات کے مطابق امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ثالث ممالک کے ذریعے ایران کو پیغام دیا جارہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اس کی مرضی کی جوہری ڈیل کرنے پر تیار ہوجائے۔امریکی صدر ٹرمپ نے اپنے ایک سوشل میڈیا پیغام میں واضح اشارہ دیا ہے کہ اسرائیل کا ایران پر حملہ اسے امریکا اور اسرائیل کے مشترکہ مطالبے کو ماننے پر مجبور کرنے کے لیے کیا گیا ہے اور اگرچہ امریکا اس حملے میں براہ راست ملوث نہیں ہے تاہم اس کی پشت پناہی اور ہلا شیری سے ہی اسرائیل نے یہ حملہ کیا ہے۔

بہت سے عالمی تجزیہ نگاروں کے مطابق جس طرح ایران اسرائیل کے اس تباہ کن حملے کے لیے تیار نہیں تھا کیونکہ وہ اپنے جوہری منصوبے سے متعلق امریکا کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھا،بالکل اسی طرح اسرائیل اور امریکا کو بھی شاید ایران کی جانب سے اتنے زوردار جواب کی توقع نہیں تھی۔ ایران نے بہت بڑا دھچکا کھانے کے بعد حیران کن انداز میں اپنے حواس بحال کیے، اپنے فضائی دفاعی نظام کو بہت کم وقت میں دوبارہ متحرک کردیا اور اپنے بلیسٹک میزائلوں کے ذخیرے کو بروئے کار لاکر چند گھنٹوں کے اندر ہی اسرائیل کو موثر جواب دے دیا جس کی قوت اور شدت کا اندازہ اسرائیلی حکومت اور فوج کے اعلیٰ عہدیداروں کے بوکھلائے ہوئے لہجے سے ہی لگایا جاسکتا ہے۔ بہت ممکن ہے بھارت کی طرح اسرائیل کو بھی مار پڑتے دیکھ کر دیگر عالمی قوتوں کو بھی متحرک کرکے جنگ بندی کی کوئی سبیل نکالے اور ایران کو جوہری منصوبے کے معاملے پر جھکانے کے لیے سفارتی محاذ پر ہی توجہ دے اور یہ بھی ممکن ہے کہ اسرائیل کے جنگی جنونی وزیر اعظم نیتن یاہو اپنی خفت مٹانے کی خاطر ایران پر حملے بڑھانے کی پالیسی پر ہی عمل کرے۔ اس کے نتیجے میں ایران کو جونقصانات پہنچنے ہیں،ان کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کیونکہ یہ سامنے کی حقیقت ہے کہ ایران کے پاس اسرائیل اور امریکا کی فضائی طاقت کا کوئی موثر توڑ موجود نہیں ہے، کئی عشروں سے بین الاقوامی پابندیوں کی زد میں ہونے کے باعث ایران اپنی فضائیہ کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کرنے سے قاصر رہا ہے تاہم ایران کے پاس بیلسٹک میزائلوں کا ایک معتد بہ ذخیرہ موجود ہے جو عالمی دفاعی ماہرین کے مطابق ایران کی دفاعی قوت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ ایران کے بیلسٹک میزائل اس وقت وہ واحد” طبی نسخہ” ہیں جو اسرائیل کے جنگی جنون کا علاج کر سکتے ہیں اور جو اسرائیل کو غزہ کے مظلوم مسلمانوں پر بدترین مظالم کا مزہ چکھاسکتے ہیں۔ اگر ایران اپنے اس ذخیرے کو اسرائیلی حملوں کی زد میں آنے سے بچانے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور اسرائیلی جارحیت کے جواب میں تل ابیب سمیت صہیونی مقبوضہ علاقوں پر برسانے کا سلسلہ جاری رکھ پاتا ہے تو یہ اس جنگ کو اس کے منطقی انجام کی طرف لے جانے اور اسرائیل کو لگام دینے کا ذریعہ بنے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل جنگی جنون، بہیمیت اور درندگی کی جس سطح پر پہنچ چکی ہے،وہاں اس کا ایک ہی علاج باقی رہ گیا ہے اور ایک ہی زبان ہے جو وہ سمجھ سکتا ہے،وہ ہے طاقت کی زبان۔آج کی اکیسویں صدی کی خود کو مہذب اور ترقی یافتہ کہنے والی دنیا میںایک مٹھی بھر حقیر اور مغضوب و ملعون لابی کی جانب سے انسانیت کے خلاف جس طرح سنگین ترین جرائم کا ارتکاب کیا جارہا ہے اور بدقسمتی سے خود کو دنیا کی واحد سپر طاقت کہنے والے ملک امریکا کی جانب سے جس بے شرمی و ڈھٹائی کے ساتھ اس درندگی و سفاکیت کی پشت پناہی کی جارہی ہے، یہ درحقیقت انسانیت کے ماتھے پر کلنگ کا ٹیکا ہے اور یقینا مستقبل مورخ آج کے دور کے انسانیت کے نام نہاد علم برداروں کو معاف نہیں کرے گا۔ اگر انسانیت کو مزید شرمساری اور تباہی سے بچانا ہے تو اسرائیل نامی ناسور کا علاج ڈھونڈنا ہوگا۔