وفاقی حکومت نے مالی سال 2025 ـ26 کے لیے 17 ہزار 573 ارب روپے کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کر دیا ہے۔ موجودہ اقتصادی تناظر میں جہاں پاکستان شدید مالی دباؤ، قرضوں کی واپسی کے بوجھ، آئی ایم ایف کی سخت شرائط اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے، وہاں اس بجٹ کو ایک پیچیدہ مگر ناگزیر توازن کی کاوش کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، یعنی ایک ایسا بجٹ جسے نارمل حالات میں تو کسی طرح قبول نہیں کیا جاسکتا مگر مجبوریٔ حالات میں اسے قبول کیے بنا چارہ نہیں ہے۔
وفاقی حکومت کے پیش کردہ اس بجٹ کا سب سے نمایاں پہلو اس کا 6 ہزار 501 ارب روپے کا خسارہ ہے، جو معیشت کی موجودہ حالت کا بہتر عکاس ہے، اس کے آئینے میں بہ آسانی دیکھا اور معلوم کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی قومی معیشت میں کتنا دم خم ہے اور اس کی حقیقی پوزیشن کیا ہے۔ بجٹ میں حکومت نے 14 ہزار 131 ارب روپے کی آمدن ٹیکسوں کے ذریعے حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اس مقصد کے تحت متعدد شعبوں پر ٹیکسوں میں اضافہ کیا گیا ہے جن میں ڈیری مصنوعات، پیٹرولیم، ادویہ، مشروبات، منرل واٹر، گاڑیاں اور سولر پینلز شامل ہیں۔ یہ اضافہ بظاہر ریونیو بڑھانے کی کوشش ہے، مگر مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام کیلئے یہ ایک نیا بوجھ ہے اور اس سے مہنگائی کی چکی کی گرفت میں مزید سختی محسوس ہوگی۔ قابل توجہ امر یہ ہے کہ بجٹ میں تنخواہوں میں 10 فیصد اور پنشن میں 7 فیصد اضافے کا اعلان کیا گیا ہے، جو افراطِ زر کی موجودہ شرح کے مقابلے میں اونٹ کے منہ میں زیرہ کے موافق ہے، خاص طور پر متوسط طبقے کیلئے یہ کوئی ریلیف نہیں، جو پہلے ہی مالی طور پر نچوڑا جا چکا ہے۔ بجٹ میں گھروں کی تعمیر کیلئے سستے قرضے فراہم کرنے کا اعلان ایک مثبت قدم ہے، بشرطیکہ اس اسکیم کے نفاذ میں شفافیت اور آسانی کو یقینی بنایا جائے۔ بجٹ کے اخراجات کا سب سے بڑا حصہ سود کی ادائیوں پر مشتمل ہے، جس کیلئے 8207 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یعنی کل بجٹ کا تقریباً نصف صرف پرانے قرضوں کے سود کی مد میں خرچ ہوگا۔ یہ صورتحال پاکستان کی معاشی خودمختاری اور ترقی کے امکانات کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ جب تک ہم قرض پر انحصار کی پالیسی کو ترک نہیں کرتے، اس طرح کے بجٹ ہماری معاشی زنجیروں کو اور سخت کرتے جائیں گے اور ہم اس دلدل سے نہیں نکل پائیں گے۔
حکومت نے ای کامرس پلیٹ فارمز اور لاجسٹک سروسز پر بھی 18 فیصد سیلز ٹیکس نافذ کرنے کی تجویز دی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی سے جڑے کاروباروں پر اضافی مالی دباؤ ڈالے گا، جو معیشت کے جدید اور ابھرتے ہوئے شعبے ہیں۔ ایسے وقت میں جب دنیا ڈیجیٹل معیشت کی طرف بڑھ رہی ہے، پاکستان میں ان شعبوں پر اضافی ٹیکس لگانا معیشت میں سست روی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ تعلیم اور نوجوانوں کی ترقی کیلئے کچھ مثبت اعلانات بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔ وزیراعظم یوتھ اسکل ڈویلپمنٹ پروگرام کیلئے 4.3 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں اور ایک لاکھ 61 ہزار 500 نوجوانوں کو فنی تعلیم دینے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ یہ اقدام اگر مؤثر انداز میں نافذ ہو تو بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے، تاہم ماضی کے تجربات سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف اعلانات کافی نہیں ہوتے، عملی پیش رفت اور مؤثر نگرانی ہی اصل کامیابی کی ضامن ہے، جس پر سخت توجہ کی ضرورت ہے، ورنہ یہ مثبت اقدام بھی محض بیورو کریسی کیلئے پیداگیری کا ایک ذریعہ ہی بن کر الٹا قوم پر بوجھ بن کر سامنے آئے گا۔ معاشی اہداف کی بات کی جائے تو حکومت نے جی ڈی پی میں 4.2 فیصد شرحِ نمو اور مہنگائی کو 7.5 فیصد تک محدود کرنے کا ہدف رکھا ہے۔ اگرچہ یہ اہداف خوش آئند ہیں، مگر موجودہ معاشی حالات میں انہیں حاصل کرنا آسان نہیں ہوگا۔ برآمدات کا ہدف 35.3 ارب ڈالر، درآمدات کا ہدف 65.2 ارب ڈالر اور ترسیلات زر کا ہدف 39.4 ارب ڈالر مقرر کیا گیا ہے۔ ان اہداف کے حصول کیلئے ملک میں سیاسی استحکام، توانائی بحران کا خاتمہ اور تجارتی پالیسیوں میں بہتری ناگزیر ہے، اس کے بغیر یہ محض کاغذی دعوے ہی رہیں گے۔
جہاں یہ بجٹ بظاہر ریونیو بڑھانے، اخراجات کنٹرول کرنے اور سرمایہ کاری کے ذریعے معیشت کو سہارا دینے کی کوشش ہے، وہیں اس میں غریب اور متوسط طبقے کیلئے ریلیف کے نام پر جو کچھ ہے، اسے اشکِ بلبل کے بقدر بھی نہیں کہا جاسکتا۔ مہنگائی کے مسلسل بڑھتے دباؤ، بیروزگاری اور بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی کے ماحول میں عوام کی زندگی پہلے ہی مشکلات میں اٹی ہوئی ہے، ایسے میں ٹیکسوں میں اضافے اور مہنگی اشیاء کی فہرست میں اضافہ عوام میں بددلی، مایوسی اور عدم اعتماد کو فروغ دے سکتا ہے، البتہ یہ حقیقت واضح ہے کہ بھاری قرضوں اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدوں کے ہوتے ہوئے کوئی بھی حکومت اچھا بجٹ نہیں دے سکتی، تاہم اس کمی کو وسائل کی منصفانہ تقسیم، کرپشن کے خاتمے، بہتر مینجمنٹ اور ترقیاتی منصوبوں کی بروقت اور شفاف تکمیل کے ذریعے پورا کیا جا سکتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اب عملی پہلوؤں پر توجہ دے۔
غزہ کی طرف ہزاروں افراد کا مارچ
گزشتہ ڈیڑھ سال سے جاری اسرائیلی جارحیت نے غزہ کو ایک کھلی جیل میں تبدیل کر دیا ہے جہاں زندگی کی بچی کھچی سانسیں بھی موت کے مہیب سائے میں لی جا رہی ہیں، جہاں زندگی مکمل غیر یقینی اور یقینی موت کی فضا ہے، تازہ اطلاعات کے مطابق اسرائیل نے امداد کی تقسیم کے دوران فائرنگ کرکے نہ صرف انسانی امداد کے عمل کو سبوتاژ کیا بلکہ اس درندگی میں 50 فلسطینی شہید اور 400 زخمی ہوگئے۔ صرف گزشتہ 24 گھنٹوں میں یہ اموات اس سفاکیت کی غماز ہیں جو غزہ میں ایک معمول ہے۔قابض طاقت نے نہ صرف فلسطینی عوام کو گولیوں، بموں اور محاصروں میں جکڑا ہوا ہے بلکہ عالمی انسانی شعور کو بھی خوف، بے بسی یا مصلحت میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس پس منظر میں ”فریڈم فلوٹیلا کولیشن” کی طرف سے ایک علامتی کوشش کی گئی کہ دنیا کے معروف سماجی کارکنان ایک امدادی کشتی کے ذریعے غزہ کا محاصرہ توڑیں، تاہم اسرائیل نے اس پر بھی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے نہ صرف کشتی کو روکا بلکہ اسے اغوا کر کے اس انسانی آواز کو بھی خاموش کرنے کی کوشش کی، لیکن خاموشی کا یہ حصار اب ٹوٹنے لگا ہے۔ دنیا بھر سے ہزاروں افراد غزہ کی سرحد کی طرف مارچ کیلئے مصر کا رخ کر چکے ہیں۔ ان قافلوں کی منزل صرف غزہ نہیں، بلکہ وہ انسانی ضمیر کو جگانا چاہتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ، یورپی یونین، عرب لیگ اور طاقتور ممالک کو اگر اب بھی ہوش نہ آیا تو تاریخ ان کی خاموشی کو جرم کا درجہ دے گی۔