عیدالاضحی: اُمتِ مسلمہ اور ہماری اجتماعی ذمہ داریاں

آج عید الاضحی کا د ن ہے۔ اس مبارک دن میں اہل وطن عید الاضحی کی خوشیوں کا لطف اٹھا رہے ہیں۔ اللہ رب العزت اہل وطن کو اور پوری امت مسلمہ کو ایسی لاتعداد خوشیوں بھری عیدیں نصیب فرمائے جن میں دنیا بھر کے مسلمانوں امن، سکون اور اطمینان کے ساتھ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے دین کے بنیادی تقاضوں کو بھی نبھا ر ہے ہوں۔
اہلِ وطن کے لیے یہ عید اس لیے بھی خوشی کا موقع ہے کہ حال ہی میں ہم نے اپنے سب سے بڑے حریف بھارت کو زبردست شکست سے دوچار کیا ہے۔ دوسری جانب اہلِ شام بھی جبر اور ستم کی خوف ناک قید سے آزاد ہوئے ہیں۔ ان خوشیوں کے ساتھ ساتھ مسلم امہ کے دل میں غزہ کا زخم ایک تکلیف دہ صورت حال کی نشان دہی کر رہا ہے۔ اہلِ غزہ کس حال میں عید منا رہے ہیں؟ یہ سوچ کر ہی ہر درد مند مسلمان کا قلب غم سے بھر جاتا ہے۔ ایسے میں جبکہ حج کی عظیم عبادت بھی ادا کی جا چکی ہے، ہمیں سنتِ ابراہیمی کا تازہ کرتے ہوئے غزہ کے مسلمانوں سمیت دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے جو نجانے کہاں کہاں کرب اور تکالیف سے دوچار ہیں۔ اس موقع پر وہ تمام مسلمان نہایت ستائش اور مبارک باد کے مستحق ہیں جنھوں نے اپنے ذاتی تقاضوں، گھریلو مجبوریوں اور دیگر ذمہ داریوں کے باوجود مظلوم مسلمانوں کے ساتھ تعاون کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ اگر ہم اپنے بھائیوں اور بہنوں کو عملی تعاون کے ذریعے اگر اپنی حمایت کا یقین دلانے میں کامیاب ہو سکیں تو ان زخموں پر کچھ نہ کچھ مرہم رکھا جا سکتا ہے۔
عیدالاضحی ہر سال ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اُس عظیم قربانی کی یاد دلاتی ہے جو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر اپنے بیٹے کی صورت میں نچھاور کرنے کے لیے پیش کی۔ یہ دن صرف جانور ذبح کرنے کا دن نہیں، بلکہ اطاعت، وفاداری، قربانی اور اللہ کی رضا کو ہر چیز پر ترجیح دینے کا پیغام ہے۔ یہی وہ دن ہے جب دنیا کے لاکھوں مسلمان حج کے فرض کی ادائیگی کے بعد اپنے رب کے حضور سر جھکائے ہوتے ہیں۔ حج، دین اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے، اور اس کے ذریعے امت کو وحدت، برابری اور اجتماعیت کا عملی سبق ملتا ہے۔ جب لاکھوں انسان ایک جیسے لباس میں، ایک ہی جگہ، ایک ہی مقصد کے تحت جمع ہوتے ہیں، تو ایک زندہ اور بیدار امت کا منظر سامنے آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ”اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دو، وہ تمہارے پاس پیدل اور ہر دبلے اونٹ پر آئیں گے جو ہر دور دراز راستے سے آئیں گے تاکہ وہ اپنے فائدے کے مقامات پر حاضر ہوں، اور مقررہ دنوں میں اللہ کا نام لیں ان جانوروں پر جو اس نے ان کو دیے ہیں، پس ان میں سے خود بھی کھاو اور فقیر و محتاج کو بھی کھلاو۔“ (سورہ حج: 27-28)
یہ آیت مبارکہ واضح کرتی ہے کہ حج صرف عبادت نہیں، بلکہ ایک سماجی اور اقتصادی تربیت بھی ہے۔ جب مسلمان یکجا ہو کر اللہ کی یاد میں مصروف ہوتے ہیں، تو انہیں اپنے درمیان موجود غربا اور محتاجوں کو بھی یاد رکھنا ہوتا ہے۔ قربانی کی عبادت بھی ہمیں ایثار، سادگی اور باہمی ہمدردی کی تعلیم دیتی ہے۔ یہ سنت ابراہیمی ہمیں سکھاتی ہے کہ اللہ کا حکم آ جائے تو اپنی عزیز ترین چیز کو بھی قربان کرنے میں دیر نہ کی جائے۔ اس عمل سے بہت سے غریبوں اور کمزور لوگوں کی معیشت کو سہارا ملتا ہے، بہت سے غریبوں کو گوشت ملتا ہے اور معاشرے میں بھائی چارہ بڑھتا ہے۔ مگر آج کی دنیا میں ہمیں صرف ان عبادات پر عمل کر کے مطمئن نہیں ہو جانا چاہیے بلکہ ہمیں اس پر بھی غور کرنا چاہیے کہ ہم اپنی ذاتی، گھریلو اور اجتماعی زندگیوں میں دین کے احکام کو کس طرح بروئے کار لاسکتے ہیں؟ ہم اپنے عقائد اور روایات کا تحفظ اور اپنے تشخص کی حفاظت کیسے کر سکتے ہیں؟ علاوہ ازیں اخلاق و کردار اور رویے اور عمل کی سطح پر ہم کہاں موجود ہیں؟ ہم اپنی نفسانی خواہشات، ذاتی مفادات اور باہمی رنجشوں کو قربان کرنے کے لیے کس حد تک تیار ہیں؟
امتِ مسلمہ کی حالت اس وقت غور و فکر اور تدبر کا ہی نہیں بلکہ کچھ عملی اقدامات کا بھی تقاضا کر رہی ہے۔ فلسطین، خصوصاً غزہ میں جاری ظلم و ستم، بھارتی مسلمانوں پر بڑھتا ہوا جبر، یہ سب مناظر ہمیں بتاتے ہیں کہ ہمیں باہمی اتحاد اور ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی اشد ضرورت ہے ورنہ ہمیں حرف غلط کی مانند مٹا دیا جائے گا۔ پاکستان ایک معرکہ جیت چکا ہے لیکن دوسرا مرحلہ سر پر کھڑا ہے۔ ایسے میں امریکا یا کسی دوسرے ملک کی خوشامد کی بجائے ہمیں داخلی استحکام کی جانب توجہ دینا ہوگی کیوں کہ بھارت اور اسرائیل ہمارے خلا ف ہر چال چلیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”یقیناً تم مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن یہودیوں اور مشرکوں کو پاو گے۔“ (سورہ المائدہ: 82)
یہ کوئی اتفاق نہیں کہ اسرائیل اور بھارت دونوں مسلم دشمنی میں ایک جیسے ہیں، اور مغرب ان کا پشتیبان بنا ہوا ہے۔ ہمیں یہ حقیقت ماننی ہوگی کہ دشمن کے عزائم واضح ہیں۔ ان کے مقابلے کے لیے ہمیں اپنی صفوں کو درست کرنا ہوگا۔ قرآن کا حکم ہے: ”اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ نہ ڈالو۔“ (سورہ آلِ عمران: 103) یہ وقت ہے کہ ہم اپنے ذاتی اور علاقائی مفادات سے نکل کر امت کے اجتماعی مفاد پر سوچیں۔ جب تک ہم ایک مضبوط جسم کی مانند نہیں بنیں گے، ہم دنیا میں عزت، امن اور اثر نہیں پا سکیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔“ (صحیح بخاری) مگر ہم مظلوموں کے ساتھ کھڑے ہونے سے بھی کترا رہے ہیں۔ غزہ، فلسطین، مقبوضہ کشمیر، بھارت اور دیگر مقامات پر مسلمانوں کی حمایت کے لیے ہماری زبانیں بند، ہماری قیادت خاموش، اور ہمارا ضمیر سویا ہوا ہے۔
عیدالاضحی کا دن ہمیں صرف گوشت تقسیم کرنے کا نہیں بلکہ اپنے دلوں کو جھانکنے، اپنی ذمہ داریاں پہچاننے اور ایک نئی عہدبندی کرنے کا موقع دیتا ہے۔ اگر ہم چاہیں تو آج بھی ایک مضبوط اُمت بن سکتے ہیں، مگر اس کے لیے ہمیں خلوص، نیت، علم، اتحاد اور عملی قدم کی ضرورت ہے۔ ورنہ دنیا میں ”جس کی لاٹھی اُس کی بھینس“ والا نظام چلتا رہے گا اور مسلم اُمہ پر ظلم و جبر اور ستم کا سلسلہ بھی تھمنے نہ پائے گا۔