…اور اب امداد کی تقسیم کے نام پر فلسطینیوں کا قتل عام

قابض و غاصب صہیونی ریاست اسرائیل نے اپنے سرپرست امریکا کی پشت پناہی سے فلسطین کے مظلوم اور مقہور مسلمانوں کا قتل عام کرنے کے لیے اب ایک نیا طریقہ ایجاد کرلیا ہے جس کے مطابق تین ماہ سے محصور اور بھوک کے شکار فلسطینی باشندوں کو امداد کی تقسیم کے نام پر مخصوص مراکزمیں بلایا جاتا ہے جہاں آگے امریکی حکومت کے تحت کام کرنے والے ایک ایک نام نہاد امدادی ادارے کے ارکان ہوتے ہیں جن کا اصل ہدف فلسطینیوں کو امداد پہنچانے کی بجائے ان کی جاسوسی کرنا اور فلسطینی ،مقاومتی تنظیموں کے ارکان کی اسکریننگ کرنا ہے جبکہ پیچھے آتشیں اسلحے سے اسرائیل کی دہشت گرد فوج موجود ہوتی ہے جو خودسابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود باراک کے مطابق فلسطینیوں کی نسل کشی پر مامور ہے اور سابق ڈپٹی آرمی چیف یائر گولان کے مطابق فلسطینی بچوں کو بطور مشغلہ قتل کر رہی ہے۔

گزشتہ دنوں ایک امدادی مرکز پر اندھادھند فائرنگ کے نتیجے میں دو درجن سے زائد فلسطینی شہری شہید ہوگئے تھے اور بعد میں اسرائیلی فوج نے پوری بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ اس واقعے کی ذمہ داری لینے سے انکار کردیا تھا لیکن کل رفح میں اس سے بھی سنگین واقعہ پیش آیا ہے جس میں امداد کے حصول کے لیے آئے ہوئے بھوک اور پیاس کے ستائے ہوئے نہتے شہریوں پر بالکل سامنے سے اندھا دھند فائرنگ کردی گئی جس کے نتیجے میں 30کے قریب مزید فلسطینی مسلمان شہید اور بیسیوں زخمی ہوگئے۔ واضح ویڈیوز سامنے آنے کے بعداسرائیلی فوج نے اس واقعے کو تسلیم کیا ہے مگر اس پر کسی قسم کی شرمندگی یا معذرت کی ضرورت محسوس نہیں کی کیونکہ شرمندگی کے احساس کے لیے بھی انسانیت کا ہونا ضروری ہے جس سے صہیونی درندے کوسوں دور ہیں۔امریکا میں ایک مصری شخص کی جانب سے ایک انفرادی کارروائی میں صہیونیت کے حق میں مظاہرہ کرنے والوں پر پٹرول بم حملے پر امریکی صدر ٹرمپ نے سخت برہمی کا اظہار کیا ہے جبکہ غزہ میں روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں کی تعداد میں بے گناہ انسانوں،معصوم بچوں اور خواتین کے قتل پر ان کی زبانیں گنگ ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا کو انسانیت ،بچو ں کے حقوق اور خواتین کے حقوق پر لیکچر دیتے ہوئے ذرہ برابر بھی شرم محسوس نہیں کرتے۔ یہی لوگ درحقیقت انسانیت کے سب سے بڑے مجرم ہیں اور یقینا ان کا یہ مذموم کردار تاریخ میں ایک سیاہ ترین باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ٹرمپ انتظامیہ کی اس منافقانہ روش اور مسلمانوں کے بارے میں متعصبانہ پالیسی پر دنیا بھر کے مسلمانوں اور انسانیت نواز افراد میں شدید دکھ کا احساس پایا جاتا ہے، یہ احساس فی الوقت انفرادی واقعات کی صورت میں سامنے آرہا ہے تاہم آگے جاکر یہ ایک طوفان کی صورت اختیار کرسکتا ہے جس کو روکنا شاید کسی کے بس میں نہ ہو۔ ٹرمپ انتظامیہ جس چیز کو” سامیت دشمنی” سے تعبیر کرتی ہے، وہ اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی اور امریکا کی جانب سے اس کی بے جا حمایت کے باعث تیزی سے بڑھ رہی ہے اورپوری دنیا میں صہیونی یہودیوں اور ان کے سرپرستوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس کو ٹرمپ انتظامیہ لوگوں کی زباں بندی اور اظہار رائے پر قدغنیں لگاکر نہیں روک سکتی۔ ایسا نہ ہو کہ یہودیوں کے لیے دنیا میں چھپنے کی جگہ بھی نہ رہے۔ اگر دنیا کو کسی بڑے حادثے سے بچانا اور انسانیت کو تباہی کے گڑھے میں جانے سے روکنا ہے تو اس کے لیے نیتن یاہو جیسے جنگی مجرموں کو بین الاقوامی قانون کے کٹہرے میں لانا ہوگا ۔اسرائیلی فوج کو ایک دہشت گرد ملیشیا قرار دے کراس کے جرنیلوں پر نسل کشی کے مقدمات چلانے ہوں گے اور بین الاقوامی عدالت انصاف اور بین لاقوامی فوجداری عدالت کے فیصلوں پر عمل درآمد کرانا ہوگا۔اگر یہ سب نہیں ہوتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آج کی اکیسویں صدی میں بھی دنیامیں جنگل کا قانون رائج ہے اور اس ترقی یافتہ دور میں بھی انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنانے والے اور معصوم بچوں کا خون پینے والے والے ”معزز” ہیں۔

افسوس ناک امریہ ہے کہ اسرائیل کے بے پناہ مظالم نے یورپ اور مغربی ممالک کے بعض حکمرانوں کے ضمیر کو تو کسی حد جھنجھوڑا ہے اور وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کر رہے ہیں مگر فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ کلمے کا رشتہ رکھنے والے مسلم حکمرانوں کے ضمیر میں کسی قسم کی جنبش کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ غزہ میں مسلمانوں کی نسل کشی کی ہوش اڑادینے والی ویڈیوز،تصاویر اور رپورٹوں کو دیکھتے اور سنتے ہوئے بھی ان کا سکون قابلِ دید ہے ، لگتاہی نہیں کہ غزہ میں مارے جانے والے معصوم بچوں ، خواتین اور بے گناہ نوجوانوں کے ساتھ ان حکومتوں کا کوئی تعلق ہے۔ قرآ نِ کریم اور متعدد احادیثِ مبارکہ میں مسلم امہ کو ایک دوسرے کا خیال رکھنے ،کمزوروں کی مدد اور مظلوموں کا ساتھ دینے کے حوالے سے ہدایات دی گئی ہیں،یوں محسوس ہوتاہے کہ مسلم حکمرانوں کو ان پر غور و فکر کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔

اسرائیل کی موجودہ قیادت کی حکمتِ عملی واضح ہے ، وہ فلسطینیوں کی نسل کشی پر آمادہ ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ پڑوسی ممالک کے لیے بھی کوئی نرم گوشہ نہیں رکھتی، وہ ایک دن لبنان پر بم برسادیتا ہے تو اگلے دن شام پر چاند ماری کرتا ہے ۔ اسے یمن جیسے چھوٹے سے ملک کے سوا کہیں سے بھی کسی ردعمل کا خوف نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم امہ کو حکمرانوں کی سطح سے لے کر عام آدمی کے درجے تک قرآن وسنت کے احکامات پہنچائے جائیں، اسلامی اخوت اور مسلم بھائی چارے کی ضرورت ، مسلم دفاعی و اقتصادی بلاک کے قیام اور مظلوم مسلمانوں کا ساتھ دینے کے لیے مسلم امہ کو ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کرنے کی کوششیں مزید تیز کی جائیں، جس طرح اسپین جیسے غیر مسلم ملک نے ہمت اور جرأت سے کام لے کر اسرائیل کے خلاف ایک مضبوط فیصلہ کیا ہے اسی طرح عرب اور ترک ریاستوں کو بھی مضبوط موقف اختیار کرنا چاہیے ، مسلم امہ کو ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کرنے کے حوالے سے پاکستان، سعودی عرب اور ترکیہ کلیدی کردا ر ادا کرسکتے ہیں ، باہمی تعاون کے سلسلے کو بڑھایا جائے تو مسلم امہ اسرائیل کو جنگ بندی پر مجبور کرسکتی ہے اور غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی روکی جاسکتی ہے ، ضرو ر ت اس امر کی ہے کہ بڑے اسلامی ممالک یمن اور مالدیپ جیسے چھوٹے اسلامی ممالک سے ہی سبق سیکھتے ہوئے کچھ جرأ ت و استقامت اور ہمت سے کام لیں اور فلسطین کے حق میں اٹھنے والی عالمی انسانی ضمیر کی آواز کو تقویت فراہم کریں۔